مفلسی پھر بھی نہ باز آئے تو روزے رکھو

خبر چھپی ہے کہ ’’محکمہ خوراک کی ٹیموں کی عدم توجہ کے باعث غیر معیاری کھانوں کی بھر مار ہوگئی۔صوبائی دارالحکومت میں پہلی افطاری پر لاہوریوں کے سموسے پکوڑے اور کچوریاں کثرت سے کھانے پر، ہسپتالوں میں گیسٹرو کے مریضوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی‘‘۔ خبر میں اس سے آگے لاہور کے تمام ہسپتالوں میں پہنچنے والے مریضوں کی الگ الگ تعداد بیان کی گئی ہے۔رمضان المبارک صبر و قناعت کا مہینہ ہے مگرہم ان صفات سے محروم ہیں۔رمضان شروع ہونے سے چند روز قبل ہی ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ رمضان میں ہمارے اخراجات کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتے ہیں۔ہر گھر کا بجٹ ’’اپ سیٹ ‘‘ ہو جاتا ہے۔ وہ دن گئے کہ روزہ سوکھی روٹی،کھجور،پانی یانمک سے افطار کیا جاتا تھا۔اب تو کوئی روزہ رکھے نہ رکھے ،افطاری کا بندوبست نہایت اہتمام سے کیا جاتا ہے۔ ہر گھر میں بیسن کے پکوڑے ہر روز تیار کیے جاتے ہیں۔ سموسے اور فروٹ چاٹ کے بغیر ہمارا روزہ افطار نہیں ہوتا۔مشروبات اور چٹ پٹے کھانے اسکے علاوہ ہیں۔ یہی حال سحری کے وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ سحری میں بھی نہاری، بریانی، سری پائے اور کڑاھی گوشت جیسے ’’ثقیل‘‘ کھانے تیارکیے جاتے ہیں۔ پھر دن بھر کچھ نہ کھانے کے بعد ہم ساری کسر شام کی افطاری میں نکال لیتے ہیں۔ رمضان میں جب ’’آناََ فاناََ‘‘ ہر چیز تین گنامہنگی ہو جاتی ہے لوگوں کے گھریلو بجٹ کا حشر ہوجاتا ہے۔ جوں جوں رمضان آگے بڑھتا ہے افطار پارٹیوں اور عید کے استقبال کی سو چ گھیر لیتی ہے۔ہمیں روزوں سے زیادہ عید کی فکر رہتی ہے۔پاکستان کا ہر شہری عید منانے کے لیے نئے ملبوسات ،جوتے اور عمدہ کھانوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔سو رمضان میں ہر شخص چاہے کسی دفتر کا ملازم ہو یا کوئی سبزی فروش ’’عیدی‘‘ اکٹھی کرنے میں لگ جاتا ہے؛ حالانکہ سبز ی فروش کی گلی سڑی سبزیاں بھی ہاتھوں ہاتھ سموسے پکوڑے بنانے والے خرید لیتے ہیں۔شام کو کسی سموسہ کارنر کو دیکھ لیں‘ رش یوں دکھائی دے گاجیسے مفت کوئی شے بٹ رہی ہو۔سب گلی سڑی سبزیاں سموسوں، پکوڑوں اور کچوریوں کی صورت میں معدے کا ایندھن بن جاتی ہیں۔منافع کمانے والے ہر چیز سے چار گنا منافع کماتے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی اپنی عیدی اکٹھی کرنی ہوتی ہے۔رمضان کی برکتوںسے ہم سبھی مسلمان رمضان میں بے جا منافع کما کر یاملاوٹ کر کے اپنی عید منا لیتے ہیں۔لیکن عید جب دبے پائوں گزر جاتی ہے تو ہماری آنکھیں باہر آجاتی ہیں ۔اِس قدر اخراجات پر گھروں میں ’’بھانڈے‘‘ کھڑکنے لگتے ہیں،اوپر سے بجلی اور گیس کی عدم دستیابی پر ہم چڑ چڑے ہو کر نفسیاتی مریض بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں رمضانی اخراجات کا بخار ہمیں بے حال کر دیتا ہے۔مسلمان ہر جگہ یہی کچھ کرتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ ،ناجائزمنافع خوری میں ہم دیگر قوموں سے آگے ہیں ۔عیسائی اور یہودیوں کے مذہبی تہواروں پر دکانوں اور بازاروں میں اشیائے ضروریات عام دنوں سے سستی کر دی جاتی ہیں تاکہ ہر شخص آسانی سے تہوار کی خوشیاں منا سکے۔مگر مسلم ممالک میں رمضان میں خاص طور پرہر گھٹیا شے بھی ’’خصوصی سیل‘‘ کا لیبل لگا کر بیچ دی جاتی ہے اور اِسے بھی رمضان کی برکتوں میں شمار کر لیا جاتا ہے۔سب سے زیادہ عبادات کرنے والے اپنے اپنے کاروبار کے پکے ہیں۔ وہ عید قریب آتے ہی کئی گنا نفع حاصل کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ۔البتہ اپنے دل کے اطمینان کے لیے وہ رمضان کا آخری عشرہ مکے اور مدینے میں گزار لیتے ہیں‘ عمرہ کرنے والے زیادہ تر افراد اسی طبقے سے ہو تے ہیں ۔ رمضان میں کی جانے والی منافع خوری جیسے گناہ ،حرم کی دیواروں سے دھاڑیں مار کر رونے سے دھو لیے جاتے ہیں۔ ہم نے پانچ رمضان مصر میں گزارے ہیں۔ رمضان میں چیزیں وہاں بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔مصریوں اور ہم میں کچھ زیادہ فرق نہیں ،ہاں رمضان کے دنوں میں مصر کی رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں۔ وہاں افطار کے وقت سموسوں کی دکانوں پر ہجوم نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہاں پکوڑے سموسے ہماری طرح افطاری کے لیے ضروری نہیں سمجھے جاتے ۔یہی وجہ ہے وہاں ایسی دکانیں نظر نہیں آتیں ۔مصر میں افطار کے وقت ہر دوسری گلی میں ’’مائدۃالرحمن ‘‘ (اللہ کا دستر خوان) دکھائی دیتے ہیں ۔اس دستر خوان پر ہر شخص بیٹھ کر روزہ افطار کر سکتا ہے۔رمضان کے ایسے دستر خوانوں پر مصری رواج کے مطابق افطاری کے لوازمات پیش کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی کھانا بھی ہوتا ہے۔مصری کھجوروں سے بھی روزہ افطار کر لیتے ہیں مگر وہ سوکھی کھجوریں بادام اخروٹ اور دیگر خشک میوہ جات سے بھر کر دودھ میں بھگو کر رکھ لیتے ہیں اور افطاری میں نوش کرتے ہیں۔ پھر مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھاتے ہیں ۔دستر خوانوں پر کھجوروں کا شربت ،گوشت ،روٹی ،چاول اور سویٹ ڈش پیش کی جاتی ہے۔رمضان کے ایام میں بڑے چھوٹے سٹوروں پر خشک میوہ جات سے لے کر کیک، بسکٹ ،چینی ،گھی اور دیگر اشیائے خورونوش گفٹ پیکنگ میں نظر آتی ہیں‘ جو رمضان آتے ہی ایک دوسرے کے گھروں میں بھیجی جاتی ہیں۔ گفٹ پیک تو ہمارے ہاں بھی دستیاب ہیں مگر انہیں غریب و نادار افرادمیں باقاعدہ تقسیم کرنے کا رواج عام نہیں ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ غریبوں اور مساکین کی امداد کرنے والے کم ہیں مگر ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنا کالا دھن سفید کرنے کے لیے بڑی بڑی درودوسلام اور نعت کی محافل اور قوالیاں کرا کے اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ رمضان المبارک صبر و قناعت کا درس دیتا ہے۔روزہ روحانی بے داری کا موجب بنتا ہے۔صبر کرنے سے دلوں میں برداشت اور حوصلہ جنم لیتا ہے، اس سے ’’رواداری ‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن دن بھر منہ باندھ کر محض کھانے پینے سے اجتناب کرنا اور پھر افطاری کا سائرن بجتے ہی عمدہ کھانوں پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑنا کہاں کی روزہ داری ہے۔دن بھر ہم بظاہر اللہ تعالیٰ کے حکم پراور اس کی خوشنودی کے لیے روزہ رکھتے ہیں مگر عین افطاری کے لمحوں میں ’’آپے‘‘ سے باہر ہو جاتے ہیںجبکہ بھوک پیاس تو جسم و جان میں ایک لگام سی ڈال دیتی ہے۔بندے کا دل و دماغ قدرے بہتر کام کرنے لگ جاتا ہے۔حیرت ہے ہم کیسے رمضان المبارک کے احکامات کوفراموش کر دیتے ہیں۔ہم ہر روز معدے میں اچھا خاصا بیسن ڈالتے ہیں، کیا عام دنوں میں ہم اتنا بیسن استعمال کرتے ہیں؟اگر ہم سادگی، صبر، قناعت سے رمضان کی عبادات مکمل کریں تو اپنے اند ر مثبت اور روحانی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔مگر ہم تو عبادات میں بھی ’’ خود ستائی اور خود نمائی‘‘ کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ہم تمام اخلاقی باتیں جانتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر اور احادیث سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے بارے میں ہمیں ہمارا مذہب کیا کہتا ہے؟مگراس پر عمل کرنا ہمارے لیے بے حد دشوار ہے۔ ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں مگر بد قسمتی سے ان پر عمل درآمد کرانے والا کوئی نہیں۔رمضان کی برکتیں اپنی جگہ مگر ہم ان برکتوں کے لئے اُن اعمال کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے جن سے اللہ رب العزت اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرتا ہے۔ہمارے ہاں روزہ بھی شاید غریبوں کے لیے رہ گیا ہے۔کھاتے پیتے لوگ تو روزے سے زیادہ افطاری کے شوقین ہوتے ہیں۔یہ اول تو روزہ کم ہی رکھتے ہیں اگر کچھ روزہ رکھتے بھی ہیں تو وہ صرف اور صرف وزن کم کرنے کے لیے۔ ہاں عید ہم سب نہایت ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ رمضان اور عید پر ہم اپنے ارد گردکے ان غریب اور سفید پوش لوگوں کا بھی خیال رکھیں جو اپنی کم آمدنی کے سبب خوشیوں سے محروم رہتے ہیں۔ نہ جانے ہمیں ہر رمضان میں بیدل حیدری کے یہ شعر کیوں یاد آجاتے ہیں۔ خود بھی بھوکے رہو اور بچے بھی بھوکے رکھو مفلسی پھر بھی نہ باز آئے تو روزے رکھو کوئی کم بخت کسی روزچھرا گھونپ دے گا اپنے ہی پیٹ کو ہر وقت نہ آگے رکھو

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں