کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تخت پر براجمان تھا کہ دربار میں فقیر آگیا اور بولا: ’’ عالی جاہ ! کیا میں اِس سرائے میں چند روز قیام کر سکتا ہوں؟ ‘‘ بادشاہ فقیر کی اِس جسارت پر خفا ہوا اور بولا: ’’یہ ہمارا محل ہے اور تم اِسے سرائے کا نام دے رہے ہو۔‘‘ فقیر مسکرایا اور بولا؛ عالی جاہ آپ سے قبل یہاں کون رہتا تھا؟ ‘‘ بادشاہ نے کہا: ’’ میرا باپ یہاں رہتا تھا۔ فقیر نے پوچھا : اس سے پہلے؟ بادشاہ نے جواب دیا: میرا دادا۔ فقیر نے پھر پوچھا: اس سے پہلے یہاں کون تھا؟ بادشاہ نے کہا: میرا پردادا۔ فقیر بولا: ’’ عالی جاہ ! جہاں اتنے لوگ آئے اور گئے وہ سرائے ہے یا محل؟بادشاہ خوش ہوا اور اسے انعام سے نوازا۔ میںاِس کہاوت کو جب بھی پڑھتا ہوں مجھ پر دنیا کی حقیقت مزید روشن ہوتی چلی جاتی ہے اور مجھے قاہرہ کا مردِ درویش یادآنے لگتا ہے۔ پہلے بھی کہیں اس کا تذکرہ کر چکا ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس روزقاہرہ میں لوگ عید منا رہے تھے جبکہ میں اپنے مصری دوست شعبان شکری کے ساتھ ایک عجیب سفر پر روانہ تھا۔گاڑی سکندریہ روڈ پر فراٹے بھر رہی تھی۔سڑک کے ارد گرد سرسبز و شاداب کھیت لہلہا رہے تھے۔ شعبان مجھے جس شخص سے ملانے جا رہا تھا وہ ایک مشہور اورعجیب شخص تھا۔ پچھلے تین برسوں سے اس نے لوگوں سے بات چیت کرنا بند کر دیا تھا۔ مہینے بعد کبھی وہ گھنٹے دو گھنٹے کے لیے کسی سے ہم کلام ہوتا تھا۔شعبان پچھلے پندرہ ماہ سے میرے لیے اس مردِ خدا سے وقت لینے کی کوشش کر رہا تھا۔عید سے ایک روزقبل شعبان کا فون آیا کہ عید کی نماز پڑھتے ہی ہم سفر پر روانہ ہوں گے۔ اگلی صبح ساڑھے چھ بجے عید کی نماز پڑھتے ہی ہم مقررہ وقت پر عازمِ سفر تھے۔شعبان نے مجھے کئی بار اس کے بارے میں بتایا تھا۔وہ اپنے وقت کا ایک مشہور شخص تھامگر اچانک منظر سے غائب ہو گیا تھا۔اُس نے شہرت کا طوق گلے سے اتارا اور دور افتادہ کسی گائوں میں ڈیرہ ڈال لیا تھا۔اس سے میری یہ ملاقات شعبان کی مسلسل کوششوں کانتیجہ تھی۔مجھے علم نہیں ایسے پراسرار لوگوں سے ملنا مجھے کیوں اچھا لگتا ہے ۔گائوں کی ایک نکڑ پر گاڑی رک گئی تھی۔اب ہم کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر چل رہے تھے۔پندرہ بیس منٹ مسلسل پیدل چلنے کے بعد کھیتوں کے ایک طرف درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا۔وہیں ایک کچی کوٹھڑی اور اس کے ساتھ چھپر نما برآمدہ سامنے تھا۔برآمدے میں دو افراد بیٹھے تھے جو ہمارے پہنچنے پر تپاک سے ملے وہ غالباََ شعبان کے شناسا تھے۔ہم کمرے کی طرف بڑھ گئے۔نیم تاریک کمرے میں داخل ہوئے تو کچھ دیرکے لیے کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ ایک آواز کانوں سے ٹکرائی… ادھر تشریف رکھیے۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے وہ ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔رسمی علیک سلیک کے بعدشعبان بولا:’’ جی یہی وہ پاکستانی دوست ہیں جن کا ذکر آپ سے کر تا رہا ہوں‘‘انہوںنے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولے! ’’منور‘‘ مصری لوگ مہمانوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہی الفاظ ادا کرتے ہیں یعنی آپ کی آمد سے روشنی ہو گئی ہے۔جس کے جواب میں ’’نورک‘‘ کہا جاتا ہے یعنی یہ روشنی آپ کی ہے۔ کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔میرے بارے میں اوروطن عزیز پاکستان کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔اتنی دیر میں ایک شخص اندر داخل ہوا اور ہمارے سامنے قہوہ کی چھوٹی چھوٹی پیالیاں رکھ دی گئیں۔اس دوران میں نے گفتگو کو آگے بڑھایا :آپ یہاں آبادی سے دور تنہائی میںکیسے جبکہ سنا ہے آپ چند سال قبل تک مصر کے ممتاز دانشور ہی نہیں مقبول ٹی وی ٹاک شو کے اینکر اور ایک بڑے اخبار سے وابستہ بھی تھے؟ اتنی بھرپور اور پُر آسائش زندگی اور شہرت کے بعد یہ سب کیا ہے؟ انہوں نے قہوہ کی پیالی اٹھائی اور چسکی لینے کے بعد دھیرے سے بولے: ’’کوئی خاص بات تو نہیں،تاہم مختصراََ بیان کر دیتا ہوں: ’’میں صدر سادات کے زمانے میں ایک اخبار کا معمولی رپورٹر تھا۔کچھ عرصہ محنت کرنے کے بعد میری رسائی اہم حکومتی حلقوں تک ہوگئی۔بعض اعلیٰ سرکاری اہل کار مجھے اہم خبریں دیتے ،میں کالم لکھتا اور ہر طرف واہ واہ ہونے لگتی ۔اندر کی خبریں دینے کے عوض کبھی کبھی کبھار سرکاری لوگ مجھ سے اپنی من پسند خبریں اور کالم بھی لکھوا لیتے ،اس میں فائدہ ہی فائدہ تھا۔تنخواہ سے زیادہ ادھر اُدھر سے بھی رقم مل جاتی۔ زندگی میں خوشحالی در آئی۔دھیرے دھیرے میری نیوز سٹوریز اور کالموںکی دھوم مچ گئی۔مجھے بہترین صحافی کا ایوارڈ بھی ملا۔کئی ممالک کے سرکاری وفود میں شامل ہو تا رہا۔اس دوران میں نے عالی شان گھر بنا لیا۔قیمتی گاڑیوں سے لے کر برانڈڈ ملبوسات اور گھڑیوں تک ،ہر قسم کا شوق پورا کیا۔ٹی وی چینلز پر میرے سیاسی تجزیے اور دانش کی مانگ بڑھ چکی تھی۔پھر ایک ٹی وی چینل نے مجھے اینکر بنا دیا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میرے پروگرام کی ریٹنگ سب سے زیادہ تھی۔حسنی مبارک کی حکومت میں ، میں ان چند صحافیوں اور اینکروں میں شمار ہوتا تھاجو حکومت کی ناک کا بال خیال کیے جاتے ۔گویا میں آسمان میں اڑنے لگا تھا۔احساسِ تفاخر میرے رگ وپے میں سرایت کر چکا تھا۔تعیش کا کوئی ایسا سامان نہ تھا جو میری دسترس سے باہر ہو۔ملکوں ملکوں گھوم رہا تھا۔ تاجروں، وڈیروں، سیاست دانوں،وزیروں، مشیروں اور فوجی افسروں سے لے کر امیر طبقے سے میری ذاتی دوستیاں اور لین دین تھا۔ میں لوگوں کے کام آتا اور وہ میرے کام آتے۔ مصروف زندگی تھی۔ کیا عجیب دور تھا۔ لیکن ایک روز صبح سو کر اٹھا تو معدے میں شدید درد شروع ہو گیا۔ڈاکٹرآیا کئی ٹیسٹ ہوئے،دوائیاں استعمال کیں مگر کچھ زیادہ افاقہ نہ ہوا۔بلکہ مرض بڑھتا گیاجو ں جوں دوا کی والی صورتحال تھی۔ پھر سرکاری طور پر مجھے علاج کے لیے باہر بھجوایا گیا۔وہاں کے ڈاکٹرز نے معدے کے کینسر کا اعلان کر دیا۔یہ خبر سن کر میں آسمان سے پاتال میں آ گرا تھا،موت میرے سامنے ناچنے لگی،میں لمحہ لمحہ موت کے قریب ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر تو قدرے پُرامید تھے مگر میں اند رسے مر مک گیاتھا۔ایک روز وطن واپس آ گیا۔علاج جاری تھا۔بہت سی نعمتیں گویا میر ے لیے حرام ہو چکی تھیں۔سادہ دلیہ معمولی سے نمک اور بغیر گھی کے۔بس یہی میری خوراک تھی یا پھر میں معمولی شہد ڈال کر قہوہ پیا کرتا تھا۔ ایک روز کسی کتاب کی تلاش کرتے ہوئے ایک ایرانی صحافی کی کتاب سامنے آگئی‘ جس کے پہلے صفحے کی عبارت نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ لکھاتھا: ’’تمہارا مرض تمہارے اندر ہے تمہیں معلوم نہیں ، تمہاری دوا تم میں ہے‘‘نیچے’’ علیؓ ابن ابی طالب ‘‘درج تھا۔سبحان اللہ۔کیا قول تھا۔کئی روز تک میں اسی قول کی زد میں رہا۔ایک روز خاموشی کے ساتھ ،مکھن سے بال کی طرح اس دنیا سے خود کو باہر نکال لایااورچپ چاپ یہاں آگیا۔شادی تو میں نے کی نہیں تھی۔ایک بھائی میرے ہمراہ رہتا تھا۔یقینا اس نے تلاش کیا اور پچھلے برس وہ یہاں آیا بھی تھامگر میں نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔میں تو اپنے آپ سے بھی بہت دور نکل آیا ہوں ۔یہا ں مجھے کوئی جانتا پہچانتا نہیں،شہرت کے بعد اِس گمنامی میں اپنی لذت ہے۔ اپنے نفس پر کنٹرول سے عرفان کی منزل ہاتھ آیا کرتی ہے۔سو اسی راستے پر ہوں دعا فرمائیں… مجھے کسی سے کوئی گلہ اور توقع نہیں۔ایک اس رب سچے کا سہارا ہے۔مسلسل فاقہ کشی اور ریاضت سے بیماریاں کافو ر ہو چکی ہیں۔موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کو پہچان لیا ہے۔لالچ حرص و ہوس ،تکبرہی اصل بیماریاں ہیں جن کا علاج صبر ،محبت ،اور قناعت سے ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے موت کو ہر پل آنکھوں میں رکھنا پڑتا ہے‘‘۔ گفتگو جاری تھی اور کتنا وقت گزر چکا تھا،کچھ پتا ہی نہ چلا۔ جانے کب قہوہ ختم ہوا ،کب پیالیاں سامنے سے اٹھا لی گئیںاور کب ہمارے سامنے پیاز کا سالن اور چند خمیری روٹیاں آگئیں۔عجیب ذائقہ تھا اس طعام میں،عید کا روز تھا ،لوگوں نے اپنے معدوں میں گوشت بھرا ہوا تھا اور اُس بندہ خدا کے دستر خوان پر پیاز کی ترکاری، خمیری روٹیوں اور ٹھنڈے پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔