ہارون الرشید نے خواب میں دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ گئے ہیں۔اسے بڑی فکر لاحق ہوئی، اس نے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے نجومیوں کو بلالیا۔ایک مشہور نجومی نے کہا : ’’اللہ آپ کی عمر دراز کرے،آپ کے عزیز و اقارب آپ کے سامنے مریں گے۔‘‘ ہارون یہ سن کر رنجیدہ ہو گیا اور نجومی کو کوڑے لگانے کا حکم دیا، بعد میں دوسرے نجومی کو بلایا ،اس نے خواب سن کر تعبیر پیش کرتے ہوئے کہا : ’’ اے امیر المومنین ! اللہ آپ کی عمر میں برکت دے گا اور آپ اپنے تمام رشتہ داروں اور عزیزوں سے طویل عمر پائیں گے۔‘‘ خلیفہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے نجومی کو سو دینار انعام دئیے۔ایک مصاحب بول اٹھاکہ بات دونوں نے ایک ہی کی ہے پھر آپ کے ردِ عمل میں یہ تضاد کیوں ہے؟ ہارون الرشید نے کہا : ’’ پہلے نجومی نے سخت زبان استعمال کر کے مجھے دکھ دیا اور دوسرے کو سخت بات کہنے کا ڈھنگ آتا تھا اس کا اندازِبیاں تکلیف دہ نہیں تھا۔‘‘ سیاسی بیانات میں بھی اندازِ بیاں کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔عمران خان صاحب کو بھی بیان دینے کی تربیت مولانا فضل الرحمن سے لینی چاہیے ۔ مولانا کو افسوس ہے کہ صوبہ خیبر پی کے پر حکومت کرنے والے نئے لڑکوں کو بیانات تک دینے نہیں آتے وہ حکومت کیا کریں گے؟وغیرہ وغیرہ ۔ عمران خان کو توہینِ عدالت کا نوٹس ملا، انہوں نے دو بار اسکا جواب بھی داخل کرایامگر تا حال عدالت جواب سے مطمئن نہیں ہوئی۔احمد رضا قصوری کے مطابق اب کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے گا۔عمران خان نے عدالت سے باہر آکر پھر اپنے بیان کودُہرایا کہ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی لہٰذا وہ معافی کس بات کی مانگیں ۔ویسے عدالت نے بھی ابھی معافی کی کوئی بات نہیں کی البتہ عمران خان کے بیان کی وضاحت ضرور طلب کی ہے۔عمران نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ’’ انہیں پہلی بار پتہ چلا ہے کہ ’’شرمناک‘‘ کا لفظ بھی بہت بڑی گالی ہے۔‘‘ بات لفظ شرمناک کی نہیں ہے۔بات کہنے والے کی ہے کہ کون کہہ رہا ہے۔ ماضی میںفیصل رضا عابدی ایسے نوٹس کے لیے گھنٹوںٹی وی چینل پر عدلیہ کے خلاف بولتے رہے کہ شاید عدالت کی طرف سے انہیں بھی نوٹس ملے مگر عدالت نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی۔ تاریخ میں منصور حلّاج کا واقعہ سبھی نے پڑھ رکھا ہے۔ اناالحق کہنے کی پاداش میں منصور حلّاج کو سبھی پتھر مار رہے تھے ،جنید نے بھی ایک پھول پھینکا تو منصور تڑپ اٹھے ۔ جنید نے کہا میرے پھول سے اس قدر تکلیف؟ منصور بولا : ’’ مجھے لوگوں کے پتھروں سے وہ تکلیف نہیں ہوئی جو تمہارے پھول سے پہنچی ہے کہ بہرحال تم تو حقیقت ِحال سے آگاہ تھے ‘‘ ۔۔ عمران کا پھول بھی عدلیہ کے لئے پتھر سے کم نہیں۔ عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں۔اُن کا موقف درست ہو سکتا ہے، انہیںاپنی شکست پر یقین نہیں آرہا۔وہ چار حلقوں میںووٹوں کی( انگوٹھوں کے نشانات کیساتھ) چیکنگ چاہتے ہیں۔آخر حکومت یا الیکشن کمیشن ان کے اِس مطالبے پر کان کیوں نہیں دھرتے؟انہوں نے کہیں تو اپنے غصے کا اظہار کرنا ہے۔آپ عموماََ اپنی گفتگو میں ’’شرمناک ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔بہر حال انہیں چاہیے کہ وہ اس لفظ کا کوئی متبادل تلاش کرلیں۔مثلاً ’’ کربنا ک ، المناک‘‘وغیرہ وغیرہ۔ویسے بھی عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔آزاد عدلیہ کا دم غنیمت ہے کہ آج بھی عام آدمی ہمیشہ عدلیہ، خصوصاََ چیف جسٹس کی طرف دیکھتا ہے اور عدلیہ کئی مگر مچھوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اہلِ وطن کو امید ہے انشاء اللہ قوم کا خزانہ لوٹنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔جہاں تک الیکشن کا معاملہ ہے تو الیکشن میں جو کچھ بھی ہوا اسکی ذمہ داری سراسرالیکشن کمیشن کے بزرگ سربراہ فخرو بھائی پر آتی ہے۔اگر انہیں استعفیٰ ہی دینا تھا توبقول فضل الرحمن بہت پہلے دیتے اب کیا فائدہ۔ طاہرالقادری بھی ان کے اِ س عمل کو مذاق قرار دیتے ہیں۔ طاہر القادری تو اپنے لانگ مارچ کو اذان کہہ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اب وہ جماعت کرانے کے انتظارمیں ہیں۔ ادھر بہت سی سیاسی جماعتیں حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کا سربراہ تعینات کرنے والی پیپلز پارٹی بھی انتخابات میں دھاندلی دھاندلی کا شور کرتی رہی ہے۔او راب فخرو بھائی کے استعفے سے خوش ہو رہی ہے بلکہ دیگر استعفو ں کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔۔۔۔مگر یہ ساری تنقید ایک دائرے میں رہ کر کی جا رہی ہے شاید اسی لئے انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا ۔ وجہ وہی ہے کہ بات کہنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔بقول سیف الدین سیف ؎ سیف اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں بہرحال فخرو بھائی کو آخری عمر میں اس طرح کی ’’نیکی ‘‘ کمانے کی ضرورت نہ تھی۔وہ ایک شریف النفس انسان ہیں مگر الیکشن کمیشن کی سربراہی کے لیے ،شرافت سے زیادہ نہایت چست اور بارعب شخصیت کی ضرورت تھی۔جسے اپنے کولیگ سے بہ طریقِ احسن کام لینے کے علاوہ اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کا ہنر بھی آتا ہو ۔بدقسمتی سے فخرو بھائی جی اپنے عملی اقدامات میں زیادہ سر گرم نظر نہیں آئے اور کئی حلقوں سے دھونس اوردھاندلی کے مناظر ٹی وی سکرینوں پر بھی دکھائی دیتے رہے۔اب صدارتی انتخابات کے فوراََ بعد فخرو جی کا مستعفی ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔انہیں اگر اپنی مدت ِ ملازمت مکمل نہیں کرنی تھی تو عام انتخابات سے قبل ہی مستعفی ہو جاتے۔انکے استعفے نے میڈیا کے لیے ایک نیا موضوع مہیا کر دیا ہے۔عمران خان کی عدالتی طلبی اور فخرو جی کا استعفیٰ کچھ دن میڈیا کا مرغوب موضوع رہے گا۔اور اِس دوران میں کم از کم لوڈ شیڈنگ اور عید کے قریب آتے ہی مہنگائی سے توجہ ہٹی رہے گی۔ابھی ڈیرہ اسماعیل خاں جیل ٹوٹنے کا قصہ جوں کا توں ہے۔یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ایسے واقعات کی روک تھام حکومت کی اول ترجیح ہونی چاہیے۔ہمارے ایک مہربان دوست نے نہایت فکر انگیز مشورہ دیا ہے۔کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی اکثریت پولیس یا فوجی وردیوں میں کارروائی کرتی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ فورسسز کی وردیا ں اور بارُود، بازاروں میں دستیاب نہ ہو تاکہ دہشت گر د قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکہ دینے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔اگر دہشت گر د پھر بھی کسی درز ی سے وردی سلوانے کی کوشش کریں تو درزیوں کو لالچ سے باز رہ کر حکومتی اداروں کو اطلاع کرنی چاہیے۔۔بصورتِ دیگر ایسے درزیوں کی رجسٹریشن بھی کی جاسکتی ہے جو وقتاََ فوقتاََ تھانوں میں رپورٹ کرتے رہیں۔ہم اِس حوالے سے کوئی مشورہ نہیں دیتے مگر درزی کے حوالے سے ایک لطیفہ یاد آگیا ہے، چلتے چلتے بلا تبصرہ ملاحظہ ہو۔عید قریب ہے اوریہ لطیفہ اگلے روز ایک درزی نے ہی ہمیں سنایا۔ ایک درزی اپنے گاہکوں کو بڑے مزے دار لطیفے سناتا اور جب گاہک ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتا تو وہ کپڑے کا ایک حصہ کاٹ کرچھپا لیتا۔ایک روز ایک گاہک کو اس نے دو لطیفے سنائے اور دو بارکپڑا کاٹ کر چھپا لیا۔جب ناپ لینے لگا تو گاہک نے کہا ’’ کوئی اور لطیفہ بھی سنائو ؟‘‘ ’’ناں بھئی ناں۔۔ اب رہنے دو‘‘۔’’ وہ کیوں ؟‘‘ گاہک نے اصرار کیا تو درزی بولا ’’ اس کے بعد جو کپڑا بچے گا اُس میں آپ کی قمیص بھی نہیں بن سکے گی۔‘‘