وہ ہمارے قصبے کا مشہور شخص تھا، بلا کا خطیب اور مقرّر۔ دینی اجتماعات میں اسے ہزاروں لوگ سنتے تھے۔ دوسرے شہروں قصبوں میں ہونے والے دینی اجتماعات میں اسے باوقار انداز میں مدعو کیا جاتا۔ اس سلسے میں باقاعدہ وہ اپنی ڈائری دیکھ کر وقت دیا کرتا تھا اور ان جلسوں کے لیے وہ ایک مقبول اور مہنگا خطیب سمجھا جاتا تھا یہی سبب ہے کہ وہ اکثر دوسرے قصبوں اور شہروں کے دوروں پر رہتا ، محلے میں کم ہی نظر آتا ۔ اس کے پاس کسی شے کی کمی نہیں تھی، اس کی درجنوں دکانیں اور مکان تھے جن کا ماہانہ کرایہ لینے کے لیے بھی اس نے منشی ملازم رکھا ہوا تھا ۔ ایک روز مجھے پتہ چلا کہ وہ بہت بیمار ہے میں اس کے گھر مزاج پُرسی کو پہنچ گیا ،دیکھتا کیا ہوں کہ چارپائی پر ہڈیوں کا ڈھانچہ پڑا ہے ، مجھے دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوا ۔ میں نے پوچھا کہ آپ تو بھلے چنگے تھے یہ اچانک بستر پر کیوں ڈیرے ڈال لیے… وہ نحیف آواز میں بولا… ’’بھائی صاحب! کیا بتائوں بس ایک دو ماہ ہی میں یہ حالت ہوگئی… کوئی چیز ہضم نہیں ہوتی… مسلسل چارپائی سواری اور بیماری کی نوعیت نے میری آنکھیں کھول دی ہیں ۔ سوائے بیوی کے میرے نزدیک بیٹھنے کو کوئی تیار نہیں ‘‘۔اس دوران میں اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں… میں نے اسے تسلی دی کہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے اور دوبارہ اپنی اسی مصروف زندگی کو انجوائے کرنے لگیں گے ۔ مگر وہ بولا،’’ نہیں برادر ! اب بہت مشکل ہے۔ مجھے نہیں لگتا میں تندرست ہو سکوں گا‘‘ میں نے کہا ایسی باتیں نہیں کرتے مایوسی اچھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ آپ کو صحت یاب کرے گا ۔ وہ بولا’’ بس یار ! زندگی شاید صحت اور تندرسی کا نام ہے ۔انسان جب صحت مند ہوتا ہے، اسے کسی بات کی پروا نہیں ہوتی، اس کے ارادے منصوبے ،سوچیں اور تمنائیں اسے کسی پل چین لینے نہیں دیتے… مگر جیسے ہی وہ کسی مرض کا شکار ہو کر چارپائی پر سوار ہوتاہے، رفتہ رفتہ اس کے اپنے بھی اس سے منہ پھیرنے لگتے ہیں ‘‘ لیکن آپ کا تو ماشاء اللہ ایک وسیع حلقہء احباب ہے، آپ کے عزیز و اقارب اور عقیدت مند بھی ہیں ۔آپ کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں؟میں نے اسکی بات کاٹ کر کہا… اس نے میری بات سنی اور خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا… ’’بھائی جی… پہلے چند روز میری مزاج پُرسی کو بہت سے لوگ آئے… ہسپتال میں بھی تانتا بندھا رہا ، پھر دھیرے دھیرے رشتے دار بھی بہت کم چکر لگاتے… اب تو میری بیماری نے خود مجھے اپنی نظروں میں گرا دیا ہے ، میں بے بس اور لاچار ہو گیا ہوں ۔ میرے بچے میرے کمرے کے آگے سے بھاگ کر یا چھپ کر گزرتے ہیں مبادا میںانہیں اپنے پاس بٹھا لوں… میری ٹانگوں میں شدید درد رہتا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ کوئی ہر وقت ٹانگیں دباتا رہے ۔ بیوی بیچاری کتنا خیال رکھے، اس نے سارا گھر بھی سنبھالنا ہو تا ہے… بس برادر! سارے دھندے تندرستی سے ہیں ۔ ‘‘ آپ تو خود مایوسی پر لیکچر دیتے تھے اور دوسروں کو صبر و رضا کی تلقین کرنے والے تھے، آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں ؟ میں نے اسے حوصلہ دیا کہ آپ فکر نہ کریں ۔ مسلسل بیماری اور پریشانی سے دل گھبرا جاتا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ اللہ تعالی پریشانیوں میں بندے کا امتخان لیتا ہے جو ان تمام مصائب کو صبر اور ہمت سے برداشت کر لیتا ہے اللہ ربُ العزت اس پر کرم کر دیتا ہے۔ ان دکھوں پر پریشان نہ ہوں ۔ میں بھلا اور کیا کہہ سکتا تھا… کچھ دیر بعد میں واپس آگیا… رات دیر تک میں اس کے بارے میں سوچتا رہا کہ انسان جب تندرست اور جوان ہو تا ہے اسے اپنی صحت اور زندگی کے بارے میں سوچنے کا کبھی خیال نہیں آتا… وہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں اور چاہنے والوں کی محبت میں خود سے غافل زندگی کی پگڈنڈی پر بھاگتا رہتا ہے اور پھر وقت ،اچانک ریت کی طرح اسکی مٹھی سے نکل جاتا ہے… مگر تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور با لآخر ا نہی دکھوں میں انسان اپنے آخری سفر پر ر وانہ ہو جا تا ہے اور پیچھے یادوں کی اُڑتی دُھول رہ جاتی ہے ۔ ہم اپنا علم و ہنر، ذاتی شہرت اور نام و نمود کے لیے استعمال کرتے ہیں اور خسار ے میں رہتے ہیں۔ اگر علم روشنی ہے اور اس سے ہم خود مستفید نہیں ہو تے یعنی اگر علم کی روشنی سے ہمیں زندگی کی حقیقت کا پتہ نہ چلا تو یہ علم کس کام کا… دراصل دنیا میں سب سے سے مشکل کام ’’ خود سازی ‘‘ یعنی اپنے آپ کو سنوارنا ہے ، ہم زندگی بھر دوسروں کی اصلاح میں لگے رہتے ہیں ۔ علماء کرام ، مولانا حضرات ، اساتذہ ، سیاسی سماجی رہنمااور دیگر تمام شعبوں کو دیکھ لیں ہر کوئی دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یا پھر انہیں زندگی بسر کرنے کے ڈھب پر درس دیتا نظر آتا ہے ۔ درس دینے والے بیشتر حضرات کی اپنی ذات ان تمام ’’ او صاف ‘‘ سے بالا تر نظر آتی ہے۔ عموماً ایسے حضرات کی زندگی قول و فعل کا تضاد دکھائی دیتی ہے ۔وہ قرآن ،احادیث کے حوالوں سے مرصّع گفتگو کرتے ہیںمگر ان حوالہ جات کا خود ان کی زندگی پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا ۔ ان کا کھانا پینا رہن سہن اور کردار غور سے ملاحظہ کیجئے ، اند ر سے یہ لوگ عام افراد کی طرح دنیاوی حرص‘ ہو س اور نفسانی خواہشات ولذائذ کے دلدادہ نظر آئیں گے ۔ انسان اگر خود سازی یعنی اپنے آپ کو سنوارنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی انسانی ’’مَیں‘‘ کو سنوارے اور تربیت دے نہ کہ وہ اپنی حیوانی یا جسمانی ’’مَیں‘‘ کی پرورش میں رات دن مصروف رہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : ’’ میں اس شخص سے تعجب کرتا ہوں کہ ایک گم کی ہوئی چیز کو تلاش کرتا ہے جبکہ اس نے اپنی انسانی روح کو گم کیا ہوا ہے اور وہ اس کی تلاش کے در پے نہیں ہوتا ہے‘‘۔ حقیقت یہی ہے کہ روحِ انسانی کو پاکیزہ بنانے کے لیے نفس اور اس کی خواہشات اور ہوا و ہوس پر کنٹرول کرناایک ضروری اور زندگی ساز کام ہے۔ بُری عادات سے چھٹکاراسب سے ضروری ہے ۔ جسمانی اور نفسانی خواہشات و لذائذ پر قابو حا صل کرنا ایک کٹھن کام ضرور ہے مگر مسلسل جدو جہد سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرمودات قابلِ توجہ ہیں ، فرماتے ہیں : ’’ عادت چھا جانے والا دشمن ہے ، عادت انسان کی ثانوی طبعیت ہو جاتی ہے‘‘۔ ’’ سب سے بہترین عبادت اپنی عادات پر غلبہ حاصل کرنا ہے ‘‘(۱۷۳) ’’ اپنے نفس کو باادب بنانے کے لیے کوشش کرو اور اسے سخت عادات سے روکو‘‘(۱۸۱) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’ انسانی خواہشات اور شہوات مار دینے والی بیماریا ں ہیں اور ان کا بہترین علاج اور دوا صبر و استقامت اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے‘‘۔ ایک اور بزرگ کا فرمان ہے: ’’انسان اور پروردگار کے درمیان نفسِ اماّرہ اور اس کی خواہشات کے تاریک اور وحشت ناک پردے ہوا کرتے ہیں ان پردوں کو ختم کرنے کے لیے خدا کی طرف احتیاج خضوع اور خشوع بھوک اور روزہ رکھنا اور شب بیداری سے بہتر کوئی اسلحہ نہیں‘‘۔