سیلا ب کا پانی بھی بڑا دہشت گرد ہے جو بلا اجازت ہمارے شہروں ،قصبوں اور غریبوں کے گھروں میں داخل ہو گیا ہے۔یہ سیلاب بڑا بے رحم ہے جس کا بس صرف اور صرف غریبوں کی بستیوں پر چلتا ہے۔اسے کچے گھر وندے روندنے ،کھیت اجاڑنے،کسانوں کے گندم کے بھڑولے برباد کرنے میں بڑا مزا آتا ہے۔یہ بہت بڑا چور ہے جو گائے، بھینسوں ،بھیڑ بکریوں کو بھی ہانک کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ سیلاب کا پانی بھی طالبان دہشت گردوں کی طرح بڑا ظالم اور بزدل ہے‘ اِسے حکمرانوں کے گھروں میں داخل ہونے کی کبھی جرأت نہیں ہوتی۔یہ طاقتوروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور وزیروں مشیروں کے محلات کو چھونے کی بھی ہمت نہیں رکھتا۔طوفانوں سے ملی بھگت کے بعد اسے صرف ’’ماڑے‘‘ اور ’’نیویں‘‘ لوگوں کو بے گھر اور بے یارومددگار کرنے میں بڑا لطف آتا ہے۔یہ بھارتی عیاروں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے۔گزشتہ دو رو ز سے وطن عزیز کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے،بے باکانہ ،گلیوں، بازاروں، کھیتوں میں دندناتا پھرتا ہے۔اسے کوئی نکیل ڈالنے والا نہیں۔ سیلاب کی یہ حرکتیںبڑی شرمناک ہیں۔غریبوں اور بے بس دیہاتوں نے اس سے بچائوکے لیے اونچے ٹیلوں اور درختوں پر پناہ لے رکھی ہے اور وہ کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں۔ ہمارے استادشاعر بیدل حیدری نے اسے اپنے الفاظ میں یوں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ؎ بارش اتری تو میں سیلاب کی آغوش میں تھا پانی اترا تو درختوں سے اتارے بچے بارشیں تو ہر سال آتی ہیں اور ان کے سبب سیلاب بھی۔ مگر ہم ہر بار کسی قسم کی حفاظتی تدابیر پر توجہ نہیں دیتے۔بارشوں نے بڑے شہروں میں نکاسیء آب کے منصوبوں کے دعوئوں کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے اور ذمہ دار حضرات صرف اور صرف پانی میں کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کے بعد بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔اس وقت بھی بڑی گھمبیر صورت ِحال ہے۔ کئی لاکھ کیوسک پانی نے ہر طرف ایک ہنگامی فضا پیدا کردی ہے۔ دیہاتوں، قصبوں میں مسلسل بارشوں کے عذاب سے نجات کے لیے لوگ اذانیں دے رہے ہیں‘ بعض مصیبت کے ماروں کو اذان دینے کی بھی مہلت نہیں مل سکی اور پانی ان کے آنگن میں آدھمکا۔ہم نے لکھا تھا ؎ پہلی اذان کی بھی جسارت نہ ہو سکی میں چھت پہ جب چڑھا ہوں تو سیلاب گھر میں تھا کئی لوگ دیسی اور خود ساختہ کشتیوں میں بہے جاتے ہیں۔چارپائی اور گھاس کی بنی ان کشتیوں کا کوئی ملاّح ہے نہ کوئی ناخدا۔اور ان پر دبکے بہتے نیم عریاں افراد کی آنکھوں میں حسرت و یاس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ ؎ احسانِ نا خدا سے خدا نے بچا لیا میں خوش نصیب ہوں کہ سفینۂ بھنور میں تھا سفاک پڑوسی(بھارت) نے لائن آف کنٹرول پر چھیڑ خانی کا مزہ چکھا اوردانت کھٹے ہونے پر وہ آبی جارحیت پر اُتر آیا ہے۔اس نے تمام اخلاقی حدود کو عبور کیا اور بغیر پیشگی اطلاع دیئے سیلابی پانی ہماری طرف روانہ کر دیا‘جس سے کھیت،قصبے اور دیہات اجڑ گئے۔گائوں کے گائوں صفحہء ہستی سے غائب ہو گئے۔لیکن ہم ہیں کہ اچھے ہمسایوں کی طرح اب بھی اپنے پڑوسی سے بہتر تعلقات کے لیے مرے جاتے ہیں۔ ہماری شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش جاری ہے۔مست سانڈھ کی طرح گھمنڈی دشمن کو علم نہیں کہ یہ ماضی نہیں ہے۔اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاسکتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے اندرونی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔اس قوم کو امریکی ڈرون اور طالبانی انتقام کا سامنا ہے۔ہم اپنے نظام کے ہاتھوں بھی پسپا ہو رہے ہیں۔قانون پر عمل درآمد اور احتساب کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ۔ہمارے مقتدر حلقے اور اثرو رسوخ والے تاجر اور سیاست دان اپنے پیٹ سے آگے نہیں سوچتے ۔عوام ایک طرف بارشوں ،مچھروں ،حبس ،گرمی اور مہنگائی سے تنگ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے ٹی وی چینلز پر انڈین اداکاروں کی فلمیں،ڈرامے، اشتہارات اور ایوارڈ شوز بڑے انہماک اور شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ ہم بھارت سے دوستی اور تجارت کرنا چاہتے ہیںکسی بھی قیمت پر۔ بھارت اپنے اندر کا انتشار نظر انداز کرتے ہوئے، ہر واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا دیتا ہے۔حالانکہ خود بھارت میں اقلیتوں کا کوئی پرُسانِ حال نہیں۔ اِس کے باوجود اُس کی آنکھ میں آزاد پاکستان کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ۔ پھر بھی ہم ہیں کہ امن کے دلدادہ ہیں۔ درست‘ مگر امن کی آشا کی بجائے امن کی بھاشا کی بات بھی ہونی چاہیے۔بھارت کا میڈیا ہر الزام براہِ راست پاکستان پر تھوپ دیتا ہے۔ ہم خود تین بار بھارت جا چکے ہیں ۔ادیبو ں ،شاعروں کے وفود سے ملاقات کے دوران بھی وہاں کے صحافی عموماََ لکیر مٹانے کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ ایسے اُلٹے پلٹے سوال کر کے پاکستانی دانشوروں اور اہلِ قلم کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالنے کی بیکار کوشش کرتے رہتے ہیںتاکہ اگر کوئی پاکستانی شاعر ادیب ان کی ہاں میں ہاں ملائے تو میڈیا میں خوب تشہیر کی جا سکے کہ پاکستانی دانشور بھی برِصغیر کی تقسیم کو غلط قرار دے رہے ہیں ۔ ایک بار دلّی میںہم نے چند مسلمانوں سے سیاست پر بات کی تو بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کو کھل کر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔دلی کے بیشتر مسلمان گوشت کا کاروبار کرتے ہیں۔ اگر اُن کی مالی حالت بہتر بھی ہو تو وہ کسی ہندو کو ہی الیکشن لڑواتے ہیں ۔خود انہیں میدانِ سیاست میں پذیرائی نہیں مل سکتی اور مسلمان مجبوراََ ہندئووں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں ۔اِس کے باوجود پاکستان کرکٹ یا ہاکی میچ میں جیت ہویا ہار ،بھگتنا انڈین مسلمانوں کو پڑتا ہے اور انھیں ہندئووں کے مظالم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔اِن تمام حالات کے باوجود پاکستانی حکومت بھارت سے تجارت اور دوستی کرنا چاہتی ہے۔اسے پسندیدہ ملک قرار دینا چاہتی ہے۔صدر زرداری اپنے بھارتی دورے میں لاکھوں کے عطیات دے ڈالتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کشمیر کمیٹی کی کارکردگی صفر ہے۔ ہمیں اپنی شہ رگ کا احساس نہیں، حالانکہ ہمیں خبر ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر ہمارے پانی اور سیلابوں کے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے۔ لیکن اب بھی بھارتی وزیرِ اعظم من موہن کومحبت کے خطوط لکھے جا رہے ہیں ۔ خدا خیر کرے۔ایسا نہ ہو ہماری حالت بھی اُس میراثی کی طرح ہو جائے جس نے ایک نیک کام کیا تو ایک فرشتے نے کہا مانگو کیا مانگتے ہو؟میراثی موت سے بہت ڈرتا تھا۔ اُس نے کہا جب میری موت کا وقت آئے اور موت کا فرشتہ میری جان لینے آئے تو وہ مجھے نظر آجائے۔ اس کی دعا قبول ہو گئی ۔ایک دفعہ میراثی بیمار پڑ گیا۔ اس نے دیکھا کہ موت کا فرشتہ اس کے سرہانے کھڑا ہے۔ میراثی اٹھ کر دوسری طرف لیٹ گیا، موت کا فرشتہ دوسری طرف آگیا تو وہ پھر سرہانے کی طرف لیٹ گیا۔میراثی کے خاندان والوں نے سمجھا شاید میراثی پاگل ہو گیا ہے ۔انہوں نے اسے چارپائی سے باندھ دیا۔میراثی نے موت کے فرشتے سے کہا: ’’میں نے مرنا تو نہیں تھا مگر میرے خاندن والوں نے مجھے باندھ کر مروا دیاہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔