’’ سوچا تھا اٹلی گیا تو وہاں کافی ہائوس ضرور جائو ں گا ۔جب پس منظر میں کوئی خوبصورت دُھن بجتی ہو اور میں دھیرے دھیرے کافی کی چسکیاں لیتے اپنی دوست سے زندگی ، آرٹ ، محبت اور خوابوں کی ڈھیروں باتیں کروں گا۔ لیکن یہ کیا ؟ میرا یہ خواب تو اٹلی جائے بغیر پورا ہو گیا ۔ میں اِس کافی ہائوس میں ہوں ، لیکن افسوس یہاں کچھ ایسے لوگ بھی آنے لگے ہیں جن کو یہاں نہیں آنا چاہییــ‘‘ عزیز قارئین! یہ جملے میرے نہیں ہیں‘ یہ تو قاہرہ کے ایک کافی ہائوس کی دیوار پر لکھے کسی کے تاثرات کا اقتباس ہے جو فنکارانہ انداز میں پیلے اور سرخ رنگو ں سے لکھا ہوا ہے۔ قاہرہ میںتھا تو سب سے زیادہ میں نے پاک ٹی ہائوس کو مِس کیا تھا ،اُس پاک ٹی ہائوس کو جو آج سے دس پندرہ برس قبل ہوا کرتا تھا ۔ میں نے قاہرہ میں پاک ٹی ہائوس تلاش کرنے کی کوشش کی تو بہت سے کیفے ٹیریا ز ایسے ملے جہاں ادیب شاعر اور فنکار حضرات بیٹھے پائے جاتے ہیں… ایسے کیفے ٹیریاز کا ذکر میں نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’موسیٰ سے ُمرسی تک‘‘ میں نہایت تفصیل سے کیا ہے۔ قاہرہ میں بھی پاک ٹی ہائوس کے بارے میں خبریں سنتا رہتا تھا، پتہ چلا کہ حکومت نے ایک بار پھر پاک ٹی ہائوس کی تزئین و آرائش کیلئے خصوصی دلچسپی لی ہے اور اس میں جناب عطاء الحق قاسمی کی کاوشیں بھی شامل ہیں ۔ ٹی ہائوس کا باقاعدہ افتتاح میاں نواز شریف کے ہاتھوں کر ایا گیا ۔ میں نے پچھلے چار چھ ماہ میں تین چار بار اس نئے پاک ٹی ہائوس کا چکر لگایا مگر وہ پہلے والا پاک ٹی ہائوس دکھائی نہ دیا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب فرنیچر نیا ہے اور درودیوار پر چند سینئر اور نامور اہلِ قلم کی چھوٹی چھوٹی تصاویر آویزاں ہیں۔ لیکن اب نہ وہ بیرے ہیں نہ وہ ادبی ماحول… پاک ٹی ہائوس کے اوپر والے حصے میں ادبی نشستوں کی جگہ بھی نہیں ، وہاں بھی میز اور کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔ چائے اچھی نہیں البتہ مہنگی ضرور ہے ۔پاک ٹی ہائوس پر کافی خرچ کیا گیا ہے مگر اہلِ قلم اِس نئے پاک ٹی ہائوس سے مانوس نہیں ہو سکے ۔ بہت کم ادیب شاعر وہاں جاتے ہیں ۔آج بہت دنوں بعد ایک خبر نظر سے گزری، جس میں کمشنر لاہورنے پاک ٹی ہائوس کو قومی ورثہ قرار دیا اور کہا ہے کہ اس کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ بہت خوشی ہوئی اِس خبر سے کہ پاک ٹی ہائوس کو قومی ورثہ کے طور پر بحال کیا جا رہا ہے اور اِسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ قاہرہ کے جس ’’کافی ہائوس ‘‘ کا اوپر میں نے ذکر کیا ہے اس پر کیفے سے زیادہ کتب خانے کا گمان ہو تاہے۔دیوارو ں پر رنگ برنگے اقوال درج ہیں ۔ بعض دیواروں پر شیلف ہیں جن پر کتابیں بھی موجود ہیں۔ ہر میز کے ارد گرد نوجوان لڑکے لڑکیاں اور کہیں کہیں بزرگ لوگ براجمان دکھائی دیتے ہیں ۔ چاروں طرف نگاہ ڈالیں تو کسی کے ہاتھ میں کتاب ہے تو کوئی لیپ ٹاپ پر کام میں مگن ۔ بعض ٹولیاں گپ شپ میں محو اور چند ایک کونے میں الگ تھلگ لکھنے میں مصروف‘ دھوئیں کا نشان تک نہیں ۔ ہلکی ہلکی موسیقی کی ایسی دُھن جس میں آپس میں بات چیت ہو سکتی ہے، اس کیفے کی دیوار پر درج تحریر کا ایک اقتباس یاد آ رہا ہے: ’’آٹھ بجے کے بعد جانے کی جگہ نہیں ہوتی مگر آپ یہاں آسکتے ہیں ، سفر کا پہلا قدم مشکل ہوتا ہے ۔ آخر کا ر میں یہاں پہنچ گیا اور ایک کپ کافی ایک ٹرافی کی طرح مجھے پیش کی گئی ، لمبے سفر کے بعد ایوارڈ کی طرح ۔ شہر کی دھواں دار اور سست رو ٹریفک کی اذیت کے بعد اِس ’’گوشہ عافیت‘‘ نے مجھے دیکھ کر بازو کشادہ کئے اور اپنی پناہ میں لے لیا‘‘ قاہرہ کے اس کافی ہائوس میں پہلی بار میں اپنے ایک مصری دوست کے ساتھ گیا تھاپھر اکثر ہم پاکستانی دوست بھی جانے لگے۔اس کیفے کی چائے دانی پر لکھا تھا: ’’وہ جنہیں زندگی کی بھوک ہے انہیں خوش آمدید‘‘ میرا مصری دوست حمدی اِس کیفے کو اپنا دوسرا گھر کہا کرتا تھا ۔ اُس نوجوان شاعر نے اپنی کئی نظمیں اسی کافی ہائوس میں لکھیں ۔ اس کی ایک نظم کی سطریں مجھے اب بھی یاد ہیں ؎ شکاری پرندوں میں شمار ہونے سے بہتر ہے کہ میں کبوتروں میں شامل ہو جائوں میں نے لاہور واپس آ کر دیکھا تو لاہور خاصا بدلا ہوا دکھائی دیا ۔ اب نہ وہ محفلیں ہیں نہ وہ شامیں ۔ پرانی انار کلی میں بھی کوئی نظر نہیں آتا ۔اب تو اِس کی فوڈ سٹریٹ میں بھی دھماکہ ہو چکاہے۔ ادبی بیٹھک میں گنے چنے چند احباب جاتے ہیں ۔ اصل میں معاشی اور امن عامہ کے مسائل نے اہل ِقلم کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ۔ ایک شاعر دوست کا خیال درست ہے کہ دو سو روپے خرچ کر کے پاک ٹی ہائوس یا ادبی بیٹھک میں کیوں جائوں؟…جب کہ وہاں بھی تنہائی کے سوا کچھ نہیں ۔ بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ تو ایک طرف ،سڑکوں اور چوراہوں پر جگہ جگہ ناکے اور مورچے سے نظر آتے ہیں ۔ شہر کا سار ا حسن ماند پڑ چکا ہے ۔لاہور میں اے جی جوش بھی نہیں جو مہینے میں کوئی بھر پور نشست منعقد کر کے شہر کے ممتاز ادیبوں ، شاعروں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیتے تھے ،اب تو ہر شخص اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔ سینئر اہل ِقلم ٹی ہائوس یا ادبی بیٹھک میں نہیں آتے۔ ویسے بھی ادبی فضا میں اب احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد ، منیر نیازی ، قتیل شفائی ، شہزاد احمد ، اے حمید ، سہیل احمد خان، یونس ادیب، مظفر علی سید ، عباس نجمی ، خالد احمد ، اسرار زیدی، سلیم شاہد ، اظہر جاوید ، حسن رضوی ، جعفر بلوچ ، افضال شاہد ، شفقت تنویر مرزا، راجہ رسالو اور اطہر ناسک جیسے لوگ کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ شہر اداس اداس لگتا ہے۔ایسے میں پاک ٹی ہائوس کو قومی ورثہ قرار دینا اچھی خبر ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ادیبوں ،شاعروں اور فنکاروں کی طرف بھی توجہ کی جائے ۔ اکادمی ادبیات ہر ماہ ایسی تقریبات منعقد کرائے جس میں تمام سینئر اور جونیئر اہلِ قلم بیٹھنے لگیں۔ اس کے علاوہ ٹی وی چینلز پر سیاسی ٹاک شوز کے ساتھ ساتھ ادب و ثقافت اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے بھی پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ امن و محبت کو فروغ حاصل ہو ۔ اس سلسلے میں ہمار ے نئے گورنر چوہدری محمد سرور بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جہاں تک پاک ٹی ہائوس کا تعلق ہے‘ جب تک وہاں مناسب پارکنگ کا بندوبست نہیں ہوتا اس کی رونقیں بحال نہیں ہو سکتیں۔ ایک اور بات بھی ضروری ہے‘ اوپر والے حصے میں ادبی نشستوں کے لئے جگہ مختص ہونی چاہیے تاکہ ادبی تنظیمیں وہاں اپنے اجلاس منعقد کر سکیں،ممکن ہو توچائے کے نرخ بھی کم کر دیئے جائیں تاکہ احباب دوبارہ ٹی ہائوس کی طرف رجوع کرسکیں۔ ان اقدامات کے بغیر ٹی ہائوس ایک اچھا چائے خانہ تو بن سکتا ہے ادبی ٹی ہائوس نہیں بن سکتا۔