ایک زمانے میں کبوتروں سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔چٹھیاں ،سدھائے ہوئے کبوتروں کے پائوں میں باندھ دی جاتیں اور کبوتر انہیں منزل تک پہنچایا کرتے تھے۔ایسے کبوتر ہماری نظروں سے تو نہیں گزرے البتہ ہم نے ماضی کی یاد گارفلم ’’ نوراں‘‘ میں طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا گیت ضرور سن رکھا ہے جس کے بول تھے: ؎ واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا چٹھی میرے ڈھول نوں پُچاویں وے کبوترا یہ گیت اپنی موسیقی اوردُھن کے اعتبار سے بہت ہی شاہکار گیت تھا ۔اِن دنوں تو خطوط کا زمانہ بھی لد گیا ہے۔ پہلے لوگ اپنے پیاروں کے خطوط کے انتظار میں ڈاکیے کی راہ دیکھا کرتے تھے،اور غالب چچا تو خط کا جواب آنے سے پیشتر ہی ایک اور خط لکھ رکھتے تھے ؎ قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں اب تو ڈاکیے کی اہمیت بھی وہ نہیں رہی۔لوگ خط لکھنے کی بجائے فون کر کے خیریت دریافت کر لیتے ہیں۔بات کبوتروں سے شروع ہوئی تھی کہ حضرتِ انساں پیغام رسانی کے لیے پرندوں کو بھی استعمال میں لانے سے گریز نہ کرتا تھا۔یہ سب کچھ ہمیں ایک چھوٹی سی خبر نے یاد دلایا ہے۔ تفصیل یوں ہے کہ: ’’مصری حکام نے جاسوسی کے شبے میں ایک بگلے کو پکڑ لیا اور اُس پر نقل مکانی کے حوالے سے نظر رکھنے کے لیے نصب کردہ ڈیجیٹل چِپ کو جاسوسی کا آلہ سمجھ لیا ۔اِس خبر میں بتایا گیا کہ 2011ء میںسعودی حکومت نے بھی ایک گدھ کو اس شبہ میں ’’گرفتا ر ‘‘کیا تھاکہ شاید وہ اسرائیلی ایجنسی موساد کے لیے فضا میں اُڑ رہا ہے۔ 2002ء میں مصر کے شہر شرم الشیخ میںایک شارک مچھلی نے کئی بار تیراکوں پر حملے کیے، اس مچھلی پر نصب کردہ جی پی ایس ڈیوائس کی وجہ سے اِسے بھی اسرائیلی جاسوس سمجھا گیا ۔اسی طرح 2007ء میں ایرانی فوج نے چودہ گلہریوں کے ایک گروپ کو پکڑا جو اُس کے جوہری پلانٹ کے گرد پھرتی پائی گئی تھیں۔ایک اندازے کے مطابق فوج میں ’’چرند پرند‘‘ کا جاسوسی کے لیے استعمال 1908ء میں اس وقت شروع ہوا جب جرمنی نے پہلی بار فضا سے تصویر لینے کے لیے کبوتروں پر کیمرے نصب کیے۔امریکہ تو بلیوں اور بندروں کو بھی جاسوسی کے لیے استعمال کرتا ہے۔یہ الگ بات کہ بلیوں والا اس کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔ویسے امریکی چمگادڑوں اور ڈولفن مچھلیوں سے بھی جاسوسی کروانے میںذرادیر نہیں لگاتے۔بندرو ں کو تو باقاعدہ تربیت دے کر جنگوں میں جھونکا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی اتنی ترقی نہیں ہوئی کہ ہمارے ادارے بھی پرندوں اور جانوروں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہم پرندوں کی بجائے ابھی تک اپنے بھرتی کردہ بندوں سے ہی مخبری کا کام لیتے ہیںاور بندہ بشر تو کسی بھی وقت غلطی کر سکتا ہے۔روپے پیسے اور خصوصا ًڈالروں کی چمک سے کسی بھی بندے کی آنکھیں خیرہ ہو سکتی ہیں، کسی کا بھی ایمان ڈول سکتا ہے۔ویسے ہماری پولیس کتوں سے کچھ نہ کچھ کام ضرورلیتی رہتی ہے۔البتہ بعض اوقات اس شعبے میں بھی غیرتربیت یافتہ (جعلی) کتے پائے جانے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ البتہ انڈیا کی پولیس نے سراغ رساں کتوں کو باقاعدہ عہدے الاٹ کر رکھے ہیں۔پچھلے دنوںایک خبر میں انڈیا کے ایک سراغ رساں کتے کو ڈی ایس پی کے رینک پر ترقی دی گئی ۔خبر کے مطابق اس کتے کاماہانہ وظیفہ پچیس ہزار روپے مقرر ہے۔جب کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس کتے کی خدمت پر مامور ملازم سات ہزار روپے ماہانہ وصول کرتا ہے۔گویا حضرتِ انساں سے زیادہ کتے کو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں۔خیر یہ کوئی نئی۔بات نہیںترقی یافتہ ممالک میں کتے انسانوں سے زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔اُن کے لیے اعلیٰ خوراک اور سونے کے بہترین انتظامات کیے جاتے ہیں۔کتے کے شوقین خواتین و حضرت کی ہمارے ہاں بھی کمی نہیں ہے۔ کتوں کی قیمتیں دودھ دینے والی گائے بھینسوں سے بھی زیادہ ہوا کرتی ہیں۔کئی بڑے شہروں میں کتوں کے ’’ مقابلہ حسن‘‘ بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔اس مقابلہ حسن میں کتے اور کتیاں بڑے پروٹوکول کے ساتھ میدان میں تشریف لاتے ہیں۔تماشائیوں میں کئی دل جلے ان کتوں پر رشک کرتے ہیں جو حسین دوشیزائوں کے بازوئوں میں دکھائی دیتے ہیں۔بہر حال یہ بہت ہی اعلیٰ اورنسلی کتے ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے گلی محلے کے آوارہ کتے تواب بھی کسی قصائی کے پھٹے تلے سر چھپائے نظر آتے ہیں۔گرمیوں میں یہ مسکین کیچڑ میں دھنسے کارپوریشنی صیادوں سے بچتے پھرتے ہیں کہ لاہورکو کتوں سے پاک کرنے کے منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے۔سو اِن دنوںآوارہ کتوں کو جان کے لالے پڑے ہیں۔کاش لاہور اور دیگر شہروں کو ملک دشمن عناصر، کرپٹ افراداور بھتہ خوروں سے پاک کرنے کا کام بھی جنگی بنیادوں پرشروع کیا جائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے پولیس اور ایجنسیوں کی اُن کالی بھیڑوں کا صفایا ضرور کیا جائے جو جرائم پیشہ افراد اوردہشت گردوں کے لیے مخبری کرتے ہیںاور اپنی ذمہ داریوںسے عہدہ برآ ہونے کی بجائے ملک وقوم کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیںاور سؤر کا گوشت کھاتے ہیں۔کیا رشوت اور ناجائز مال بنانے والوں کے رزق کو حلال قرار دیا جاسکتا ہے؟ہم سے تو پرندے اور جانور اچھے ہیںکہ وہ اپنے فرض سے رو گردانی نہیں کرتے جو کچھ انہیں سکھایا جاتا ہے وہ اُسی پر کاربند رہتے ہیں۔ان کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔وہ سرکاری تنخواہوں کے ساتھ بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد سے ماہانہ لینے والوں سے بہت بہتر ہیں۔حالانکہ رشوت اور چائے پانی کی وصولی کے انگنت ہنر انہیں بھی آتے ہیں مثلاً: ’’ایک نوجوان پولیس میں نیا بھرتی ہوا تو اس کی ڈیوٹی جیل میں لگا دی گئی۔ایک دن قیدی جیل میں مر گیا۔ انسپکٹر نے اُسے بلا کر کہا ’’ لاش ورثاء کے حوالے کر آئو اور وہاں سے چائے پانی لیتے آنا‘‘۔ اُسے بڑا تعجب ہوا۔اس نے انسپکٹر سے کہا ’’ ان کا آدمی مر گیا ہے وہ چائے پانی کہاں سے دیں گے ؟‘‘ انسپکٹر نے ایک پرا نا سپاہی اس کے ساتھ بھیجتے ہوئے کہا ’’غور سے دیکھنا یہ چائے پانی کیسے وصول کرتا ہے‘‘۔ دونوں مرنے والے قیدی کے گھر پہنچے ۔پرانے سپاہی نے ورثا ء سے کہا ’’تمہارا ٓدمی جیل میں مر گیا ہے۔اس کی سزا ختم ہونے میں ابھی تین مہینے باقی ہیں۔سزا کاٹنے کے لیے اس کی جگہ اپنا آدمی دو یا پھر چائے پانی …‘‘