صدا قت کی گونج

برطا نیہ سے ویسے تو لارڈ نذیر احمد پہلے بھی آتے رہتے ہیں مگر اس با ر وہ اپنی کُتب کے ساتھ تشریف لائے اورپھر یہاں احباب نے انھیں ہا تھو ں ہا تھ لیا ۔ اِس بار ایک اور تبدیلی یہ بھی تھی کہ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی اور پنجاب میں تو لارڈ نذیر احمد ہی کے ایک دو ست اور بر طا نوی ہا ئوس آف کامن کے رکن چودھری محمدسرور پنجاب کے گورنر بن چکے تھے ۔ لارڈ نذیر احمد اگر میر پور سے برطانیہ نہ جا تے تو عین ممکن ہے کبھی اتنا نام اور عزت نہ کما پاتے۔ نذیر احمد ہمیں اس لئے بھی بہت پسند آ ئے ہیں کہ وہ ایک سچے اور کھُلّے ڈلھے انسان ہیں۔ وہ عام امرا ء کی طرح آبائو اجدا د کی نام نہاد شان و شوکت اور سیاسی قد کا ٹھ یا اثرور سوخ کی داستا نوں سے اپنا ماضی مرصع نہیں کرتے بلکہ پچھلے دو چار روز سے اُ ن کے اعزا ز میں جتنی بھی تقریبات منعقد ہو ئیں ، اُن میں بھی انھوں نے صا ف بتا یا کہ اُن کے والد ایک پاکستانی مزدور تھے ۔یوں تو سیاست دان اور میڈیا کے ممتا ز افراد اُن سے اچھی طرح آشنا ہیں مگر بہت سے عام لوگوں ، لاہو ر کے ادیبوں، شاعروں اوردا نشوروں نے انھیں ،اُن کی کتابو ں کے حوالے ہی سے پہلی بار جا نا اور سمجھااور سبھی قدرے حیرا ن بھی تھے کہ بر طا نیہ کے ہا ئو س آ ف لارڈز کے پہلے مسلمان لار ڈز بن کر بھی وہ اندر با ہر سے قطعی تبدیل نہیں ہوئے ۔اپنی تقا ریر اور انٹرویوز میں انہوں نے اپنا دل نکال کر قا رئین کے سامنے رکھ دیا اور اپنے محبان سے کچھ بھی چھپا نے کی بجائے سب کچھ کتا بوں میں چھاپ دیا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد ایک فیکٹری میں مزدوری کرتے تھے۔ پھر وہ بر طا نیہ چلے گئے جس کے سبب انہیں بھی وہیں جانا پڑا۔ پرائمری تک تعلیم میرپور میںگو رنمنٹ کے اُس سکو ل میں حاصل کی جہاں بچے درختوں کی چھائوں میں پڑھتے تھے۔ قبرستا ن نزدیک ہو نے کی وجہ سے ان کی بیشتر کلاسیں قبرستان میں ہی لگتی تھیں۔ آپ گیا رہ برس کی عمر میںانگلینڈگئے اور با قی تعلیم وہیں حاصل کی ، پردیس کی زندگی کو قریب سے دیکھا ، اپنا کھا نا بھی خود بنانا سیکھا ، کالج گئے ساتھ ساتھ اور دکا نو ںپربھی کا م کیا ، پھر کا لج کے راستے ہی سے سیا ست میں آئے اور کالج کے الیکشن میں کامیا ب ہو ئے۔ آ ج 25 برس بعد اُسی کا لج میں ان کا بیٹا یونین کا صد ر ہے۔لارڈ نذیر احمد 1992ء میں سب سے کم عمر مجسٹریٹ بھی منتخب ہو ئے ۔پھر1998ء میں ہا ئوس آ ف لارڈزمیں پہلے مسلمان کی حیثیت سے دا خل ہو ئے اورہمراہ قرآن مجید بھی لے گئے۔ یوں ہائوس آ ف لا رڈز میں پہلی بار قرآن مجید پر حلف لیا۔اِس سے قبل صرف بائبل پر حلف لیا جا تا تھا۔ انہوں نے دنیا کے کو نے کونے میں مسلمانو ں کے خلاف ہو نے والے مظالم اور نا انصا فیو ں کے حوالے سے صدائے احتجاج بلند کی۔ ظلم جہاں بھی اور جس سے بھی ہو نذیر احمد خاموش نہیں رہ سکتے ۔۔جناب مجیب الرحمن شامی صحیح کہتے ہیں کہ ’’ لارڈ نذیر احمد اب ایک عالمی شہری بن چکے ہیں‘‘کسی کو شک ہو تو اُن کی تقا ریر، انٹرویوز اور بیانا ت پر مشتمل کتب کا مطالعہ کر کے دیکھ لے ۔ اُن کی کتا بیں عمران حسین چودھری نے نہایت محنت سے ترتیب دی ہیں ۔ان کتا بو ں کی پہلی تقریب پی سی ہو ٹل میں منعقد ہو ئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پہلی با ر کسی کتا ب کی تقریب کے لیے با قا عدہ وقت نکالا۔ واقعتاًوہ ایک بہت یا دگا رتقریب تھی جس میں لاہور کے ممتا ز اہل ِقلم ہی نہیں صحا فی اور شہر کے معززین بھی شریک ہو ئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور صاحبِ تقریب لارڈ نذیر کے علاوہ سٹیج پر روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے ایڈیٹر انچیف میاں عامر محمود ، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلرمجا ہد کامران، سا بق وزیر حامد سعید کا ظمی ، مجیب الرحمن شامی ، بریگیڈئر(ر)اسلم گھمن اور را جہ انو ر بھی تشریف فرما تھے۔ کسی تقریب میںخادمِ اعلیٰ پنجاب جیسی شخصیت موجود ہو تو ہرمقرر زیادہ سے زیادہ گفتگو کرنے کی خوا ہش کر تا ہے ۔ گو نظامت کے فرائض ادا کرنے والے نوا ز کھر ل نے ابتدا میں بتا دیا تھا کہ چار منٹ سے زیادہ وقت نہ لیا جا ئے پھر بھی مقررین اپنی بات مکمل کرکے ہی دم لیتے رہے، سوائے صوفیہ بیدا ر اور عمران چودھری کے۔ البتہ جناب مجیب الرحمن شامی نے سب سے دلچسپ گفتگو کی اور اُن کے پہلے جملے سے ہی پور ا ہال تا لیوں سے گونج اٹھا ، فرمایا: ’’اگر عمران حسین چودھری نہ ہو تے ہم لا رڈ نذیر احمد کی تقا ریر سے فیضیاب نہ ہو سکتے ،اگر یوسف رضا گیلانی نہ ہو تے تو ہم حامد سعید کا ظمی سے متعا رف نہ ہو تے اور آ صف زرداری نہ ہو تے تو ہم یو سف رضا گیلا نی کے جوہر سے آ شنا نہ ہو پاتے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ لا ر ڈ نذیر احمد اور میاں شہبا ز شریف ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں ۔ جو بے تا بی میاں شہباز شریف صاحب میں ہے وہی بے تابی ، لارڈ نذیر احمد میں بھی پائی جاتی ہے، جس قدر محنت اور خدمت میاں شہباز شریف نے پنجاب کے حوالے سے کی اور سیا ست کا نقشہ بدل کررکھ دیا ۔ ایسی ہی محنت اور ولولہ لارڈ نذیر کے ہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے، دونوں ان تھک ہیں ۔ نذیر احمد ایک غریب گھرا نے میں پیدا ہو ئے اور اپنی محنت، صلا حیت اور سچائی کا لو ہا ساری دنیا سے منوا یا اور پھرتا حیا ت لارڈ نذیر کہلوا ئے۔ آپ بلا شبہ بر طا نیہ میں اسلام ، پاکستان اور ہم سب کی آ واز ہیں۔ لارڈ نذیر احمد نے مقررین کا شکریہ ادا کیا اور زبردست تقریر کی ۔ انہوں نے کہا جب میری والدہ سے میرپو ر میں کسی نے مبارک دیتے ہوئے پوچھا کہ آ پ کا بیٹا کیا بن گیا ہے تو انہوں نے نہایت معصومیت سے جواب دیا ۔ ’’ شایدوہ تحصیلدار لگ گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا اوورسیز پاکستانی بھی آپ کی طرح محب وطن ہیں۔ میاں شہبا ز شریف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ ہم لار ڈ نذیر سے اِس لیے محبت کرتے ہیں کہ انہوں نے کڑے دنو ں میں ہمارا ساتھ دیا۔ لارڈ نذیر صاحب 2007ء میں میاں نوا ز شریف کے ساتھ لندن سے اس وقت پاکستان آ ئے جب میا ں نواز شریف کو زبردستی اسلام آباد سے جدہ بھیج دیا گیا تھا اور پھرلا رڈ نذیر نے اس نا انصا فی کے خلاف آ واز بلند کی۔انھوں نے کہا بلا شبہ لارڈ نذیر صداقت کی گونج کا نام ہے ،ہمیں ایسے ہی سچے لو گو ں کی ضرورت ہے۔مقررین میں حامد سعید کا ظمی نے لارڈ نذیر کی مہمان نوا زی کا ذکر کیا جبکہ مجاہد کامران نے لارڈ نذیر کی تقاریر کو بے حد سراہا اور کہا ان تقاریر پر مشتمل کتب ہمارے پارلیمنٹ ممبران کوبھی پڑھنا چاہئیں۔ کچھ ایسی ہی با تیں گور نر ہا ئو س میں منعقدہ تقریب میں بھی کی گئیں ۔ اہلِ قلم کی ایک کثیر تعدا د نے یہاں حاضری لگوائی ، ایک دوست ہمارے کان میں کہہ رہے تھے کہ ایسے لگتا ہے کہ بعض خواتین با قا عدہ بیوٹی پارلر سے سیدھی گورنر ہائوس پہنچی ہیں ۔ نئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور لا ہور کے اہلِ قلم اور معز زینِ شہر سے مخاطب ہوئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں