مجید لاہوری کی یاد میں

ایک بھاری بھرکم پروفیسر لکشمی چوک ( نزد دیال سنگھ کالج )پر کھڑے، اردو بازار جا نے کیلئے سالم تانگہ لینا چاہتے تھے، مگر کسی بھی تانگے والے سے بھائو نہیں بن رہا تھا۔ تانگے والے سواریاں بھرتے اور چل پڑتے۔ ایک تانگے والاقریب ہی چائے پی رہا تھااور کافی دیر سے بھاری بھرکم پروفیسر صاحب کو دیکھ رہا تھا۔آخر تانگے والے کو تر س آ گیا ۔اس نے تانگے میں بیٹھ کر پروفیسر کی طرف دیکھا اور کہا : ’’ سر جی ! آجائیں ،بس ذرا گھوڑے سے آنکھ بچا کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ جائیں‘‘ اگلے روز اردو ادب کے مشہور مزاح گو شاعر اور کالم نویس مجید لاہوری کی برسی تھی ۔ مجید لاہوری چوہان اپنے تخلیقی کام ہی نہیں، اپنے جسم و جثہ کے حوالے سے بھی بھاری بھرکم شخصیت کے مالک تھے۔ کراچی سے مزاحیہ جریدہ نمکدان نکالتے تھے اور ایک مقبول عوامی کالم نگار تھے۔ نئی نسل میں شاید بہت کم لوگ انہیں جانتے ہونگے۔ان کی کتب کراچی سے شائع ہوئیںاور یہاں بہت کم دستیاب ہیں ۔ اگرچہ گجرات سے تعلق رکھتے تھے مگرچند ماہ لا ہور میں رہنے کے بعد اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ لاہوری لکھنے لگے ۔ ممتاز محقق، ماہر تعلیم ،شاعر اور یئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے سابق پرنسپل اور صدر شعبہ اردو استاد محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے بقول ، مجید لاہوری اپنے ڈاکٹر وحید قریشی صاحب سے بھی زیادہ صاحب ِوزن تھے۔ ان کی ساری عمر کراچی میں بسر ہوئی ۔کراچی چلے گئے اور وہیں (1957ء میں) انفلوئینزا کے مرض کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔کراچی کے اخبار میں ان کا کالم قارئین میں بہت پاپولر تھا۔ ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب راوی ہیں: کراچی میں ایک بار مجید لاہوری صاحب گھر جانے کیلئے سٹاپ پر کھڑے تھے ۔اُن دنوں کراچی میں سائیکل رکشہ چلتے تھے۔ بھاری بھرکم مجید لاہوری کو اپنی سائیکل پر بٹھانے کیلئے بمشکل ایک دبلا پتلا شخص مان گیا۔ سائیکل رکشے والے نے مجید لاہوری کو کچھ دیر کھینچا تو اسکا سانس پھولنے لگا،مجید لاہوری نے اس سے کہا :’’ بھائی! ذرا سانس لے لو اور وہاں سامنے دکان سے میر لئے سگریٹ کی ڈبیہ لے آئو۔‘‘ سائیکل رکشہ والا سخت غصے میں تھا، بولا ’’ میں نہیں جا سکتا ۔ دکان پر…خود اتریں اور اپنے سگریٹ لے کر آئیں ‘‘ بڑی مشکل سے مجید لاہوری سائیکل سے اترے ،دھیرے دھیرے چلتے سگریٹ کے کھوکھے پر پہنچے، سگریٹ لیے اور جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو سائیکل رکشے والا سائیکل کے تیز تیز پیڈل مار رہا تھا ۔ اسے بھاگتے دیکھ کر مجید لاہوری نے آواز لگائی ’’ارے بھائی اپنا کرایہ تو لیتے جائو‘‘ سائیکل رکشے والے نے ذرا سا مڑ کر دیکھا ہانپتے اور سائیکل کو مزید تیز کرتے ہوئے بولا ’’زندہ رہا تو کسی اور سے کرایہ وصول کر لوں گا،مہربانی‘‘ اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اصل میںہم مجید لاہوری کی کتابوں کی تلاش میں پبلشنگ ادارے سنگ میل سے ہوتے ہوئے مغربی پاکستان اردو اکیڈمی جا پہنچے جہاںاِن دنوں مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ہیں ۔ خواجہ صاحب کا دم غنیمت ہے کہ اب بھی( ریٹائرمنٹ کے بعد) پنجاب یونیورسٹی کیلئے وقت نکال رہے ہیں ۔ وہ اردو ادب کی تاریخِ نظم و نثر لکھنے اور شائع کرنے کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ جس کی شاید چار یا پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی صوبائی حکومت کے تعاون سے تحقیقی کتب شائع کرنے والا ادارہ ہے ۔ یہ کافی عرصہ سے نزع کی حالت میں تھا ،ڈاکٹر صاحب جب سے یہاں تشریف لائے ہیں اسکی کتابوں کی اشاعت و فروخت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ جو اس وقت سب سے سستی کتب فروخت کرتا ہے ، تحقیق کرنے والوں کیلئے یہ ادارہ سستی کتب کی فراہمی کے حوالے سے اہم خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب ایک انتھک انسان ہیں ۔ سنجیدگی سے لکھنے پڑھنے کا کام کرنے کے علاوہ دوستوں اور طالب علموں کیلئے بھی وقت نکال لیتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ آپ بڑے آدمیوں کیلئے کی گئی تعریف پر مکمل پورے اترتے ہیں کہ : ’’ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کے پاس بیٹھ کر کوئی بھی شخص خود کو چھوٹا محسوس نہ کرے‘‘ بات مجید لاہور ی کی ہو رہی تھی کہ مجید لاہوری اپنی وضع کے ایک ذہین تخلیق کار اوراپنے وقت کے مقبول ترین کالم نگار تھے ۔ حکمران انہیں ملنا چاہتے تو ہمیشہ اکیلے ملاقات کا وقت دیا کرتے تھے ۔ اس سے بھی ان کی اہمیت اور مقبولیت کا پتہ چلتا ہے ۔ مجید لاہوری پاکستان کا قومی ترانے لکھنے والے مقابلے میں شامل تھے ، مگر بدقسمتی سے وہ کامیاب نہ ہوئے اور حفیظ جالندھری کے ترانے کو قومی ترانے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ انہی دنوں مجید لاہوری نے حفیظ جالندھری کے ترانے کی پیروڈی بھی لکھی تھی ۔ لیکن ظاہر یہی کیا تھا کہ نظم انہوں نے اپنے ایک پان فروش دوست کی شان میں کہی ہے۔ اسکا ایک مصرعہ کچھ یوں تھا: بج رہی ہے بین شاد باد میرے لال دین شاد باد لال دین پان فروش نے پوری نظم سن کر کہا مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا ، مطلب بھی سمجھا دیں تو مجید لاہوری نے برجستہ کہا:’’ یہ میرا کام نہیں ،خود سمجھتے پھرو‘‘ اس جملے میں بھی ایک طنز چھپی ہے ۔ خواجہ محمد زکریا نے مجید لاہوری کو حوالے سے بہت دلچسپ باتیں بیان کیں ۔ آپ بتاتے ہیں ’’ ان دنوں میں بھی کراچی گیا ہوا تھا ۔ وفات سے ایک روز قبل مجید لاہوری کا دو تین سطری کالم شائع ہوا تھا۔ مفہوم کچھ یہی تھا کہ ’’ قارئین! شہر میں انفلو ئینزا کی وبا پھیلی ہوئی ہے ، کالم نہیں لکھ رہا کہ یہ وبا مزید نہ پھیلے‘‘ اگلے روز پھر یہ لکھا: میں بھی انفلوئینزا کا شکار ہوں۔ بعد میں خبر چھپی کہ مجید لاہوری انتقال کر گئے ہیں۔ یوںایک عوامی شاعر ہم سے جدا ہو گیا۔‘‘ مجید لاہوری کا مزاح نہایت شستہ اور شائستہ تھا۔ وہ محض لطیفے قلمبند کرنے والے شاعر نہیں تھے۔ ان کی پیروڈیاں بہت مشہور ہوئیں۔ سیاسی اورمعاشرتی ناہمواریوں کو بے حد خوبصورتی سے موضوع بناتے ہیں۔ اگرچہ ان پر پی ایچ ڈی کی سطح کا تحقیقی کام ہو چکا ہے مگر ایسے مشاہیر کو یاد رکھنے کے لئے صرف مقالہ کافی نہیں۔ ان کو یاد کرنے کے لیے، ان کی ولادت اور وفات پر خصوصی تقریبات کا انعقاد سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ہونا چاہیے کہ یاد رکھنا بھی ملاقات کی ایک صورت ہوا کرتی ہے۔ان کے چند اشعار بلا تبصرہ آپ کی یاد دہانی کیلئے ،پڑھیے اور سر دھنیے۔ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا رہنے کو گھر نہیں ہے، سارا جہاں ہمارا انہیں تو نے بخشی ہیں کوٹھیاں، تری شان جلِ جلالہ میں ہوں لالو کھیت میں لا مکاں، تری شان جلِ جلالہ ………… ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے سندھ میں سب پناہ گیر ہوئے ہم نے بی اے کیا، کلرک بنے جو مڈل پاس تھے، وزیر ہوئے جن پہ تیری نگاہِ لطف ہوئی دیکھتے دیکھتے سفیر ہوئے ………… عید ملنے کا اک بہانہ ہوا کاٹ کر جیب، وہ روانہ ہوا میں سمجھا تھا کہ زلفوں میں پھنسا ہوں مگر مونچھوں میں الجھایا گیا ہوں پھر کسی کے شعلۂ رخسار سے ہم کو اک سگریٹ لگانا ہی پڑا اُن کے وعدے، اُف توبہ یو این او کی باتیں ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں