بھارتی فلموں اور ترکی ڈراموںکے ’’ چھابے ‘‘

اگر کوئی پاکستانی مصر کے کسی بازار سے گزر رہا ہو تو لوگ اسے دیکھ کر ہندی ہندی کی آوازیں لگانے سے نہیں چوکتے۔ میں قاہر ہ میں تھا تو کئی بار ہندی ہندی سن کر وضاحت بھی کرتا رہا کہ میں ہندی نہیں بلکہ میرا تعلق پاکستان سے ہے ۔ پاکستانی اپنی شکل و صورت اور بالوں سے فوراً پہچانے جاتے ہیں ۔ مصری پاکستانی لوگوں کے بالوں سے بے حد مرعوب رہتے ہیں اور گفتگو کے دوران میں ، برملا یہ اظہار بھی کر ڈالتے ہیں کہ آپ کے بال بہت خوبصورت ہیں ۔ بعض جگہوں پر تو پاکستانی نوجوانوں کو شاہ رخ اور امیتابھ بچن بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ یقین کیجئے یہ مبالغہ ہر گز نہیں ہے۔ درحقیقت مصری بھارتی فلمیں بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں ۔ مصر میں بھارتی اداکار بہت مقبول ہیں ۔ بیشتر مصری لوگ امیتابھ بچن کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ قاہرہ میں دیکھے جانے والے ایک ٹی وی چینل زی افلام پر چوبیس گھنٹے انڈین فلمیں چلتی رہتی ہیں ۔ اب تو یہ فلمیں اردو سے عربی میں ڈب کر کے چلائی جانے لگی ہیں مگر جن دنوں ہم وہاں تھے تو فلمیں اردو میں چلتی تھیں لیکن عربی سب ٹائیٹلز کے ساتھ… زی افلام پر بعض فلمیں کئی کئی بار چل چکی تھیں۔ فلم ’’قلی‘‘ میں امیتابھ بچن کا نام اقبا ل ہے، مصری امیتابھ بچن کو اُسی حوالے سے مسلمان سمجھتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات میں سے بیشتر بھارتی فلمیں پسند کرتے ہیں ۔ کئی طالبات تو انڈین گانے بھی یاد کر لیتی ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جامعہ الازہر گرلز برانچ کی طالبہ نجلع یونیورسٹی کے اسکندریہ کے ٹرپ میں سارے راستے انڈین گانے گاتی رہی تھی حالانکہ وہ اردو روانی سے نہیں بول سکتی تھی۔ بات مصر میں بھارتی فلموں کی مقبولیت کی ہو رہی تھی ۔ ہمیں توقع ہے کہ اگر مصر میں کوئی پاکستانی ٹی وی چینل دیکھنے کو ملے تو یقینا وہاں کے لوگ پاکستانی ڈرامے اور فلمیں بھی شوق سے دیکھنے لگیں مگر مصر میں پاکستانی ٹی وی چینل دیکھنے کے لیے خصوصی بندوبست کرنا پڑتا ہے جو وہاں کے لوگوں کے لیے خاصامہنگا ہونے کے سبب قابلِ عمل نہیں۔ مصری یونیورسٹیوں کے بہت سے طلبا و طالبات اردو سیکھنے کی خاطر ٹی وی دیکھنا پسند کرتے ہیںاوراِسی سبب اکثریت کو زی افلام پر چلنے والی، بھارتی فلموں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر ہماری حکومت یا ٹی وی چینلز کے مالکان ذرا سی خصوصی توجہ دیں اور مصر میں پاکستانی ٹی وی چینلزدکھائے جانے کا بندوبست کر دیں تو مصری مسلمان اردو سے مزید محبت کرنے لگیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ اردو کتب، ڈرامے اور پاکستانی فلمیں اگر وہاں دستیاب ہوں تو مصر میں پاکستانی زبان، ادب اور ثقافت کو فروغ دینے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ بہت سے مصری طلبا اور پروفیسر حضرات پاکستان دیکھنے کے بھی خواہش مند ہیں۔ اگر یونیورسٹیوں کی سطح پر طلبا یا پروفیسروں کے وفود کا تبادلہ ہو یا ہمارے ہاں یونیورسٹیاں مصری طلبا کے لیے اردو زبان سیکھنے کے کورسز شروع کرائیں تو بہت سے مصری طالب علم اپنے خرچ پر بھی دو تین ماہ کے لیے پاکستان آ سکتے ہیں۔ بھارت یہ سب کچھ کرتا ہے یہی سبب ہے کہ وہ وہاں ہر شعبے میں چھایا ہوا ہے۔ اگلے روز اخبار میں پڑھا کہ دبئی میں بھارتی فلموں اور ان کے اداکاروں کی پذیرائی کے لیے بہت سے منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے۔ اب تو دبئی کے بزنس مین بھارتی فلموں اور اس سے وابستہ دوسرے شعبوں میں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ بھارتی فلمی صنعت ساری دنیا میں مقبول ہور ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی کوئی فلم بھی ریلیز ہوتی ہے تو وہ وہاں کے وسیع ترین سرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان‘ یورپ اور امریکہ کے کئی شہروں میں بھی ریلیز کی جاتی ہے۔ یوں فلم کے ذریعے کروڑوں کمائے جاتے ہیں۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ فلم سٹوڈیوز ویران پڑے ہیں ۔ ہمارا ٹی وی ڈرامہ کبھی بہت مقبول ہوا کرتا تھا مگر آج بھارت کے ڈرامے شوق سے دیکھے جا رہے ہیں۔ اور تو اور اِن دنوں تو ترکی کے ڈرامے اردو میں ڈب کر کے پیش کیے جاتے ہیں جو ہماری ثقافت اور روایات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ۔ میڈیا میں ان ڈراموں کے خلاف خبریں اور دھیما دھیما احتجاج بھی مشاہدے میں آرہا ہے مگر اس ساری مخالفت کے باوجود ’’عشقِ ممنوع‘‘ جیسے ڈرامے نہایت ذوق وشوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حال ہی میں ترکی کا دورہ کیا ہے۔ اگرچہ وہاں دو طرفہ تجارتی معاہدوں خصو صاً توانائی اور مواصلات پر معاملات طے ہوئے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بزنس تو ترکی ڈرامے بھی کر رہے ہیں کچھ بعید نہیں کہ دیگر شعبوں کے علاوہ فلم پر بھی بات چل نکلے۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں ترکی ڈراموں کی خریداری کے لیے باقاعدہ کوئی معاہدہ طے پا جائے۔ ویسے تو میاں صاحبان اپنی پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے بھی کچھ کرنے کے خواہاں ہیں اور ان کے حکم پر اِن دنوں،بعض وطن دوست کوششوں میں مصروف بھی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر عزم الحق بھی عزم صمیم کے ساتھ اس حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں مگر فلمی صنعت کو قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے فلم سٹوڈیوز بحال کرنے ہوں گے۔ فلم سازوں کو آسان شرائط پر قرضے دیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ فلم سازوں کو بھی بھارت کی نقل کرنے کی بجائے نئی کہانیوں ، موسیقی اور شاعری پر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور بھیڑ چال کی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ ویسے یہ بھیڑ چال تو اب ٹی وی چینلز پر بھی نظر آنے لگی ہے۔ کسی ایک ٹی وی چینل پر جو موضوع شروع ہوتا ہے دیگر چینلز پر بھی اسی موضوع اور انہی شخصیات کو دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ صبح کی نشریات میں آج کل عجیب و غریب پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہر جگہ (بیشتر چینلزپر) یا توشادیوں کے جمگھٹے ہیں یا جعلی حکیموں، عاملوں، نجومیوں وغیرہ کی دکانیں چمکائی جا رہی ہیں۔ علم و ادب کے لیے کہیں کوئی جگہ نہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ میڈیا کے ذمہ دار افراد اِس یکسانیت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ سرکاری ٹی وی کا تو اِس سے بھی برا حال ہے ، یعنی وہاں حالات بڑے دگرگوں ہیں۔ اگر کوئی پروگرام کر لیا جائے تو اس کے چیک ہی نہیں ملتے۔ ہاں سرکاری سرپرستی میں ہونے کے سبب، اس ادارے میں ہر حکومت اپنے بند ے کھپانے کی ضرور کوشش کرتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ بالکل ایک شخص کی جائیداد میں اضافے کی طرح: ’’ایک صاحب نے دوستوں کو عشائیہ دیا ،کھانے کے بعد بے تکلفانہ گفتگو شروع ہو گئی ۔میزبان کی بیگم نے کہا :جب میری شادی ہوئی تھی، میرا وزن 98پائونڈ تھا۔ بالکل درست… شوہر نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’یہ میری واحد جائیداد ہیں جس میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں