ادبی ثقافتی ادارے اور فنکاروں کی عزتِ نفس کا معاملہ

اگر لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے تو ان دنوں موسم خوشگوار ہورہا ہے۔ ابھی گرمی کا زور نہیں ٹوٹا ورنہ ساون اور پھر اس کے بعد موسم خاصا معتدل ہو جاتا تھا۔ مگر بجلی کے بحران نے موسموں کو بھی خاصا تلخ بنا دیا ہے۔ ایک زمانے میں ستمبر میں اچھی خاصی خنکی ہو جایا کرتی تھی اور لوگ سویٹر کا استعمال شروع کر دیتے تھے مگر ایئر کنڈیشنروں اور شہروں میں کارخانوں ،فیکٹریوں اور ٹریفک کی آلودگی نے گرمی کا دورانیہ طویل کر دیا ہے۔ موسم خوشگوار ہو تو لوگ گھرو ں سے باہر نکل آتے ہیں اور پارکوں ، باغوں اور تفریحی مقامات پر وقت گزارنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں ادبی حوالے سے (اگر امن وامان کی صورت حال بہتر ہوتی چلی گئی ) تو خاصی رونق لگنے والی ہے۔ لاہور میں عالمی ادبی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے جبکہ کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام چھٹی عالمی اردو کانفرنس بھی نومبر کے آخر میں برپا ہو رہی ہے۔ گویا ادب و ثقافت کا ماحول گرم ہونے والا ہے۔ لاہور، کراچی ادب و ثقافت کے بڑے مراکز شمار ہوتے ہیں ۔ انہی کی دیکھا دیکھی فیصل آباد ، ملتان ، بہاولپور اور سکھر میں بھی اہلِ علم و ادب کے اکٹھ ہوا کرتے تھے مگر سکیورٹی، توانائی اور معاشی بحرانوں نے ایسی ساری سرگرمیاں ماند کرکے رکھ دی ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو حالات بہتر ہو جائیں کہ اب ایک مکمل جمہوری حکومت کا دور دورہ ہے ۔ گورنر ہائو س میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گورنر پنجاب کے عہدے پر بھی ایک ادبی ذوق رکھنے والے شخص چودھری محمد سرور کو بٹھا یا تو گورنر ہائوس میں ادبی تقریبات ہونے لگی ہیں ۔ اہلِ علم و دانش کتنے خوش ہوں گے، اگر علمی ادبی اداروں کے سربراہوں کی خالی نشستیں بھی پُر کر دی جائیں ۔ سرکاری ٹی وی کو بہتر کیا جائے کہ اب لوگ وہاں پروگرام کرنے اِس لیے نہیں جاتے کہ کئی کئی ماہ انہیں چیک ہی نہیں ملتے۔ مل جائیں تو رقم نہ ہونے کے باعث چیک بائونس ہونے کے چانس بھی ہوتے ہیں۔ سرکاری میڈیا ہی نہیں دوسرے ٹی وی چینلز کو بھی صرف سیاست کی بجائے علم و ادب اور ثقافت کے فروغ کیلئے پروگرام تیار کرنے چاہئیں۔ بلکہ علم وادب و دانش اور کتاب دوستی کیلئے تو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں امن محبت اخوت ایثار اور برداشت کی فضا پروان چڑھائی جا سکے۔ علمی ا دبی اداروں میں سر کردہ اور سینئر اہلِ علم و دانش کو متعین کیا جائے ۔ اکادمی ادبیات پاکستا ن اہلِ قلم کے لیے بنا یا گیا ادارہ بھی فنڈ ز نہ ہونے کے سبب ’’سَستا‘‘ رہا ہے۔ ایک عرصے سے عالمی سطح کی اہلِ قلم کانفرنس منعقد نہیں کی گئی۔ حیرت یہ ہے کہ بچت کیلئے حکمرانوں کو ہمیشہ علمی ادبی اور ثقافتی اداروں کے سالانہ فنڈز کی کٹوتی ہی آسان اور بھلی لگتی ہے۔ وہ اپنے وزراء اور مشیروں کے غیر ملکی دوروں یا صدر اور وزیر اعظم ہائوسز کے اخراجات کم نہیں کرتے۔ مقتدرہ قومی زبان میں کچھ عرصہ ممتاز ادیب‘ محقق اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد کو لگایا گیا ، انہوں نے مقتدرہ کا ماہانہ خبر نامہ بھی باقاعدگی کے ساتھ شائع کرنا شروع کر دیا تھا مگر انہیں نہ جانے کیسے جلد ہی اس عہدے سے ہٹا دیا گیا، حالانکہ اس وقت وزیراعظم بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اب بھی مختار مسعود ، محمداظہار الحق، کشور ناہید، عبداللہ حسین، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، ظفر اقبال ، امجد اسلام امجد ، مستنصر حسین تارڑ، سحر انصاری ، اصغر ندیم سید ،اعزاز احمد آذر، یونس جاوید، پروین ملک اور دیگر ممتاز اہلِ قلم اور دانشور ایسے موجود ہیں جنہیں علمی ادبی اور ثقافتی اداروں میں تعینات کرکے اداروں کی ساکھ بحال کی جاسکتی ہے ۔ اب تک تو حال یہ ہے پاکستان کے سرکاری ایوارڈ ز کی توقیر بھی آخری سانس لے رہی ہے کہ ان ایوارڈز کے لیے کوئی باقاعدہ ’’میرٹ‘‘ کہیں نظر نہیں آتا‘ جو اپنا نام ڈلوا کر فائل کا پیچھا کرتا رہتا ہے اسے ایوارڈ کا مستحق قرار دے دیا جاتا ہے ۔ بعض اوقات تو ان ایوارڈز کے لیے قائم کمیٹیوں کے ممبران اپنے نام بھی ڈالنے سے نہیں چُوکتے۔ ہر کوئی اپنے اردگرد کے دوستوں کو ہی نوازنے میں مصروف ہے۔ جس کا جہاں دائو لگا ہوا ہے، موج میں ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی سطح پر شفافیت درکار ہے تاکہ ایوارڈز لینے والے کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو۔ ادیبوں ، فنکاروں اور شاعروں کے ماہانہ وظائف اور مالی امداد کیلئے قائم کمیٹیوں کے فنڈز بھی کچھ عرصہ سے منجمد ہیں ۔ گزشتہ روز اس خبر سے تو ہمیں بے حد افسوس ہوا کہ لوک فنکار اعجاز لوہا ر کو کرایہ ادا نہ کرنے پر اس کے مالک مکان نے سامان سمیت باہر پھینک دیا اور فنکار خیمے میں رہنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ گویا فنکاروں کی ناقدری کا حال یہ ہے کہ ہمارے فنکار فٹ پاتھ پر آ گئے ہیں ۔ اگر وطنِ عزیز میں ثقافتی پروگراموں کی فضا بہترہوتی تو کوئی بھی فنکار اس حالت کو نہ پہنچتا۔ خبر کے مطابق اعجاز لوہار سبزہ زارا سکیم میںکرائے کے مکان میں رہتا تھا مگر بے روزگاری اور اپنی اہلیہ کی علالت کے باعث کسمپرسی کا شکار ہو گیا اور پچھلے چار ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہ کر سکا ، جس پر مالک مکان نے اسے دربدر کر دیا ہے ۔ اب گلو کار نے اُدھار خیمہ حاصل کیا اور خیمہ زن ہونے کیلئے بھی مناسب جگہ تلاش کر رہا ہے ۔ حکومت پنجاب کی طرف سے فنکاروں کو ماہانہ وظائف ملتے ہیں‘ مگر کچھ عرصہ سے یہ وظائف مستحق فنکاروں کو نہیں مل رہے۔ پنجاب کی حکومت اس سلسلے میں فی الفور کا رروائی کر کے ایک فنکار کی عزت ِنفس بحا ل کرے ، ورنہ فنکا ر اسی طرح دربدر ہوتے رہیں گے اور شاعر لکھتے رہیں گے ؎ اس نے کل گائوں سے جب عزمِ سفر باندھا تھا بچہ آغوش میں تھا‘ پشت پہ گھر باندھا تھا فٹ پاتھ پر قیامِ مسلسل کے باوجود میں کیسے مان لوں کہ مرا گھر کبھی نہ تھا (بیدل حیدری) غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا (اقبال ساجد) اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا ( اسلم کولسری) میں رام سب سے بڑا ہوںاور اس زمانے میں بڑوں کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں (رام ریاض) شرمندہ جا چکے ہیں کئی بار چور بھی گھر میں اگر ہے کچھ تو لڑائی پڑی ہوئی اس کا دیا بہت ہے مگر کیا کروں شمار ہر شے ہے میرے پاس پرائی پڑی ہوئی (اختر شمار)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں