کوئی تو حکم ِ آسمانی ہو!

بھارتی ریاست گجرات کے شہر سُورت میں عطیۂ خون کے کیمپ کی انتظامیہ نے لوگوں کو خون کی بوتل کے بدلے ایک کلو پیاز اور ایک لٹر پٹرول دینے کا اعلان کیا تو سینکڑوں افراد خون دینے کے لئے امڈ پڑے۔ کیمپ میں 75 افراد سے خون لینے کے بعد اُن میں فی کس ایک کلوپیاز اور ایک بوتل پٹرول تقسیم کیا گیا۔ لوگ اپنے خون کی بوتل کے عوض پٹرول کی بوتل اور پیاز لے کر بہت خوش ہوئے کہ یہ چیزیں ان دنوں بھارت میں نایاب نعمتوں میں شمار ہونے لگی ہیں۔ یہ خبر بھارت سے آئی ہے‘ کچھ بعید نہیں کہ کبھی پاکستان میں بھی ایسا ہونے لگے۔ پاکستان میں ڈالروں کے عوض کئی لوگوں سے کوئی بھی کام کرایا جا سکتا ہے۔ ڈالر کی چمک سے آنکھیں جلد خیرہ ہو جاتی ہیں۔ بعض لوگ تو اپنا ایمان اور اپنے پیاروں کا خون تک بیچ دیتے ہیں۔ چند برس پیشتر غالباً میاں چنوں کے ایک شخص نے غربت کے سبب اپنی اولاد کو فروخت کرنے کیلئے بازار میں بینر لگایا تھا۔ جانے اس کے بچے فروخت ہوئے یا نہیں مگر اس تکلیف دہ واقعے سے بہت پہلے ہمارے استاد شاعر بیدل حیدری نے کہا تھا: بھوک نے جان پر بنا دی ہے لوگ بچے نہ بیچنے لگ جائیں اُس زمانے میں ایسی خبریں سامنے نہیں آئی تھیں مگر حسّاس شاعر نے آنے والے زمانے کو بھانپ لیا تھا۔ اس دور کی شاعر ی میں غربت، بھوک ننگ اور معاشرتی ناہمواریوں کی عکاسی عام ملتی ہے ۔مثلا ً اقبال ساجد کا یہ شعر اس دور کی یادگار ہے : غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا یا پھر ہمارے دوست قمر رضا شہزاد کا یہ شعر بھی کچھ عرصہ گونجتا رہا: میرے بدن سے خون کی بوتل بھی بِک گئی میں پھر بھی اپنی بہن کے کنگن نہ لا سکا اس دور میں غربت اور بھوک ننگ بھی تھی مگر ایسا ماحو ل نہ تھا۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے ہر شاعر غزل میں ایک آدھ شعر ایسا نکال لیتا تھا: چار پائی ہے مرے گھر میں نہ بستر کوئی وہ کبھی آئے تو اوڑھے یا بچھائے مجھ کو ہمارا میڈیا پچھلے پانچ برسوں کی کرپشن ،مہنگائی، بدامنی اور بے حسی پر چیختا رہا ہے ۔ عوا م پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کا ہر دن یہ سوچ کر گزار رہے تھے کہ بس اگلے چند روز میں آصف زرداری حکومت کی چھٹی ہو جائے گی اورکوئی بہتر تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت اگرچہ صرف پنجاب تک محدود تھی مگر کہا یہی جاتا تھا کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت انہیں کچھ کرنے نہیں دیتی۔ پھربڑے بڑے عوامی جلسوں میں ’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے بھی گونجتے رہے۔ لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان لانے کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی ، بے روزگاری ، بد امنی کے خاتمے کے وعدے بھی کیے گئے ‘ مگر مسلم لیگ نون کی سو دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے حالیہ سروے چاہے کچھ بیان کرتے رہیں ، عام آدمی اندر سے بد دل اور مایوس ہو چکا ہے ۔ ایک زمانے میں دیدہ ور بوٹوں کی چاپ سننے کی باتیں کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے تھے اور عوام بھی ہر آہٹ پر چونک جاتے تھے مگر اب عوام الناس صرف اور صرف آسمان کی طرف دیکھتے ہیں کہ وطن عزیز میں اُن کا کوئی پرسان ِحال نہیں ۔ ڈرون حملے تو ایک طرف ، آئے روز خود کش دھماکوں کے علاوہ پٹرول اور ڈالر کے ریٹ بڑھنے اوراقربا پروری ولاقانونیت نے پاکستان کی معیشت اور عوام کا بھرکس نکال دیا ہے اور لوگ سوچتے ہیں: ظلم حد سے گزر گیا کب کا کوئی تو حکمِ آسمانی ہو اگر بھارت میں پیاز نایاب جنس ہے تو پاکستان میں کون سا سستا ہے؟ یہی حال پٹرول کا ہے‘ بجلی ملتی نہیں مگر ماہانہ بلوں کی رقم ہر ماہ بڑھا کر وصول کی جارہی ہے۔ ہاں‘ مگر صرف اُن لوگوں سے جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ بڑے لوگ جن میں ہر طبقے کے متمول اور اثرو رسوخ والے افراد شامل ہیں ، نہ بجلی کے بل ادا کرتے ہیں نہ ٹیکس۔ سو حالات یہی بتاتے ہیں کہ اب وطنِ عزیز میں بھی عام لوگ اپنا خون بیچ کر چند کلو آلو ، پیاز ، ٹماٹر یا پٹرول حاصل کیا کریں گے۔ باقی‘ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ غریب خواب دیکھیں اور وہی خواب دیکھیں جو حکمران انہیں دکھا رہے ہیں ۔ جہاں تک حکومت کا اپنے پیاروں کیلئے اعلیٰ ملازمتیں یا انہیں مراعات دینے کا تعلق ہے‘ اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آپ صرف دعا کر سکتے ہیں کہ اپوزیشن اور ہماری موجودہ حکومت کو ان کی ’’ منشا و مرضی ‘‘ کے مطابق نیب کا کوئی ’’پارسا‘‘ چیئرمین میسر آجائے۔ منت مان لیں کہ اب کی بار دونوں سیاسی پارٹیوں کو بہترین اور باصلاحیت شخص مل جائے! تلاش تو جاری ہے‘ عین ممکن ہے ساتویں ملاقات میں یا چار چھے ماہ بعد چیئرمین نیب کا انتخاب ہو ہی جائے۔ ہم ایسے لوگ اخبار پڑھ کر کُڑھ سکتے ہیں‘ سو یہ سلسلہ نجانے کب تک جاری رہے کہ اس کے سوا ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں ع ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا اور جمہوریت کا حسن بھی ہمیں اچھا لگتا ہے۔ اب اس حسن کے گھن چکر میں ہم لوگ اگر چکرا کے رہ جائیں تو رونا کیسا: تیرے یہ ستم ڈھانے پہ ہونا تو یہی تھا ہونٹوں سے ہنسی چھین لی رونا تو یہی تھا رونے سے یاد آیا ایک بچہ کافی دیر سے رو رہا تھا۔ماں کے بار بار چپ کرانے پر بھی وہ چپ نہ ہوا تو باپ نے کہا: ’’ کیوں پڑوسیوں کی نیند خراب کرتی ہو، تم اِسے لوری سنا کر چپ کیوں نہیں کرا دیتیں‘‘ بیوی بولی: ’’ میں نے اسے لوری سنائی تھی مگر پڑوس سے آواز آئی کہ اس سے بہتر ہے اسے رونے دیں۔ ‘‘ ہم پچھلی جمہوریت پر روتے تھے‘ اب لوریاں سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔ اب تو قدرتی آفات نے بھی دکھی‘ محروم اور مایوس عوام کو تختۂ مشق بنا رکھا ہے ۔ نجانے ہمارا قصور کیا ہے کہ ہر طرف سے سزا زیادہ تر عام لوگوں کو مل رہی ہے ،چاہے ڈرون ہوں یاخودکش حملے، سیلاب ہوں یا زلزلے…البتہ: بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا اور ہم نے اِس لباس کو اُلٹا پہن لیا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں