یہ اُس زمانے کی بات ہے جب لوگ عید قربان کیلئے بکرے ، عید الفطر کے فوراً بعد خرید لیا کرتے تھے۔پھر انھیں بڑے شوق سے پالتے ، ان کی سیوا کرتے اور پھر دو ماہ بعد قربانی کرتے۔ وہ زمانہ قدرے سستا تھا۔ ہزار پندرہ سو میں مناسب بکرامل جاتا تھا۔ عید سے ایک روز قبل بھی زیادہ سے زیادہ چار پانچ ہزار میں بکرا مل جاتا تھا۔ عید الاضحی کا چاند نظر آتے ہی گلی محلوں اور چوراہوں میں بکرے ہی بکرے نظر آنے لگتے ، بلکہ رکشوں ، موٹر سائیکلوں اور چھوٹی ویگنوں میں بھی بکرے ہی سفر کرتے نظر آتے ۔ان دنوں لوگ قربانی صرف اپنے فریج بھرنے کیلئے نہیں کرتے تھے ، بلکہ قربانی کے گوشت کو باقاعدہ عزیز واقارب کے علاوہ ہمسائیوں ،غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم بھی کیا جاتا تھا۔ اب تو بانٹنے کیلئے گائے وغیرہ میں حصہ ڈال کر اپنے لیے بکرے خرید لیے جاتے ہیںاور نمازِ عید سے جلد از جلد فارغ ہو کر بکروں پر چھری چلانے کی فکر کی جاتی ہے تاکہ فی الفور’’ کلیجی ڈش ‘‘سے ناشتہ مکمل کیا جائے۔ قاہر ہ سے واپسی کے بعد یہ ہماری پہلی بڑی عید ہے ۔ لاہور میں عید ِ قربان کی رونقیں عروج پر ہیں اور بکروں کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں ۔ ایسے میں مجھے اپنے ماضی کی ایک عید ِ قرباں یاد آ رہی ہے ۔ ان دنوں میں لاہور میں اکیلا رہتا تھا۔ ایک روز ایسے ہی گلی میں کھڑا تھا کہ ایک بیوپاری بکروں کی جوڑی لیے قریب سے گزرا ، میں یونہی بکروں کا بھا ئو پوچھ بیٹھا ۔ اس نے رقم بتائی تو میں نے ٹالنے کیلئے کہہ دیا کہ یہ تو بہت زیادہ ہے ، اس نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کیا دیتے ہیں؟‘‘ میں نے یہ سوچ کر قدرے کم دام لگائے کہ وہ ٹل جائے مگر بیوپاری شاید گلی گلی بکروں کے ساتھ پھرتے پھرتے اکتا چکا تھا، میرے کم لگائے گئے دام پر بھی جھٹ تیار ہو گیا اور بولا’’ لو بائو جی پیسے نکالیں‘‘ بادلِ نخواستہ بکرے خریدنے پڑ گئے۔ میں نے عید پر ملتا ن جاناتھا ۔ سو اُسی روز ایک دوست کو کہہ کر ریلوے کی ٹکٹیں بک کرا لیں ۔ اگلے روز بکروں کو سٹیشن تک لے جانے کا مسئلہ درپیش تھا ۔ آخر ایک چاند گاڑی ( موٹر سائیکل رکشہ) والا ہمیں اسٹیشن لے جانے پر تیار ہو گیا ۔ اب میں دو بکرو ں کو پکڑ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ راہ میں دو چار خطرناک مقام بھی آئے ، وردی والے اپنی عید بنانے کی فکر میں تھے اور مجھے عید پر ملتان پہنچنے کیلئے بروقت سٹیشن پر پہنچنا تھا۔ بالآخر کوئی پون گھنٹے میں اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ا سٹیشن پر اترتے ہی قلیوں نے گھیر لیا۔ بائو جی کون سی گاڑی پر جانا ہے؟ بتایا ملتان جانا ہے لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا سامان نہیں صرف یہی دو بکرے ہیں جو آپ اٹھانے سے رہے ، مگر ایک قلی ہر حال میں ہماری مدد کرنا چاہتا تھا بولا:’’ ایک بکرا میں پکڑ لوں گا‘ دوسرا آپ اور پھر گاڑی پلیٹ فارم پر لگتے ہی ڈبے میں سوار بھی کرا دوں گا، آپ کا جو دل چاہے دے دینا ‘‘ میرا جواب سننے سے قبل ہی اس نے آگے بڑھ کر خود ہی ایک بکرے کو کان سے پکڑ لیا پلیٹ فارم نمبر دو پر پہنچ کر میں اپنے ٹکٹ نکالنے کیلئے رُکا تو اچانک بکرے نے قریب بیٹھے پان فروش کے چھابے پر ’’منہ ماری‘‘ شروع کر دی ۔ بکرے نے پان کے پتوں کو منہ میں لیا ہی تھا کہ پان فروش نے چیخ پکار شروع کر دی۔ میں نے جلد ی سے بکرے کو کھینچا تو رسی ٹوٹ گئی اور بکرا آگے کی طرف بھاگ نکلا ۔ پان کھاتے اور دوڑتے ہوئے بکرے کو دیکھ کر سبھی ہنس رہے تھے اور پان والا میرا راستہ روکے کھڑا تھا۔ میں نے پان والے کو زرِ ازالہ ادا کر کے بکرے کا تعاقب شروع کیا۔ آخر بکرا پکڑا گیا ، میں نے اپنا مفلراس کے گلے میں ڈال دیا اور دوسرے بکرے کی طرف متوجہ ہوا۔ کچھ ہی فاصلے پر وہ سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ شاید قلی نے بھی بکرے پر اعتبا ر کر لیا تھاکہ اس کے سگریٹ سلگانے تک وہ کہیں نہیں جائے گا مگر بکرا پلیٹ فارم پر چوکڑیاں بھرنے لگا۔ دو پولیس اہلکار بھی بکرے کے پیچھے دوڑرہے تھے۔ قلی بھاگتے ہوئے ہنستا بھی جارہا تھا۔ بکرا چائے کیتلی والے لڑکے سے ٹکرایا تو اس کے ہاتھوں کی پیالیاں ٹوٹ گئیں۔ اب وہ بھی شور مچانے والوں میں شامل ہو چکا تھا۔ بکرے کا مالک کہاں ہے؟ وہ میرا نقصان پورا کیے بغیر گاڑی پر سوار نہیں ہو سکتا، سبھی لوگ چائے والے سے ہمدردی جتا رہے تھے۔ مجھے چائے والے کا نقصان بھی پورا کرنا پڑا، ، سامنے دیکھا تو دو گارڈ ہمارے بکرے کو گرفت میں لیے چلے آ رہے تھے۔ ’’یہ آ پ کا بکرا ہے؟‘‘ گارڈ نے پوچھا۔ ’’جی ،قلی نے نجانے کیوں اسے چھوڑ دیا ہے‘‘ میں نے تفصیل بتائی… گارڈ بولا: ’’اِس بکرے نے سٹیشن ماسڑ کے دفتر میں جا کر سارے ضروری کاغذ اور فائلیں خراب کر دی ہیں ، نجانے کیسے میز پر جا چڑھا ، بمشکل اسے قابو کیا ہے۔‘‘ میں نے کہا‘ ’’ہم حیران ہیں کہ اسے سٹیشن ماسڑ کے دفتر میں جانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ سبھی لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے ۔ میں اندر ہی اندر بہت شرمندہ ہو رہا تھا کہ بکروں نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ آخر گاڑی پلیٹ فارم پر لگ گئی۔ وقت کم ہونے کی وجہ سے قلی نے بکرے دھکیل کر ایک ڈبے میں سوار کرا دیے۔ مت پوچھیے میں نے گارڈ، پولیس والوں اور سٹیشن ماسٹر کو کیسے مطمئن کیا۔ گاڑی رینگنے لگی ، میں اپنی نشست کی تلاش میں بکروں کے ساتھ اگلے ڈبے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ گاڑی میں ہر کوئی بکروں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا جیسے یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ کچھ مسافر بکروں کو قریب پا کر ناک بھوں چڑھا رہے تھے ۔ عید کا رش بھی تھا ۔ سواریوں کا منت ترلا کرتے ، راستہ بناتے میں آگے بڑھ رہا تھا۔ اچانک کیا ہوا کہ ایک بکرے نے برگر کھاتے ایک بچے کا برگر سونگھ لیا۔ بچے نے برگر بکرے کے منہ ہی میں ڈال دیا۔ بچے کی ماں زور زور سے بولنے لگی’’ لوگوں کو سفر کے آداب نہیں آتے ، بکرے لے کر گاڑی کے اندر آ جاتے ہیں‘‘ ایک شخص بولا: بکروں کو سواریوں کے ساتھ سفر کرانے والوں کو پہلے بکروں کی تربیت کرنی چاہیے۔ ایک آواز آئی: لگتا ہے یہ کوئی انگریز بکرا ہے جو برگر شوق سے کھاتا ہے۔ ایک سیٹ پر ایک بڑھیا ساگ کی پوٹلی یوں سنبھالے بیٹھے تھی جیسے اس میں زیور رکھا ہو ۔ میں نے برگر والے بکرے کو سنبھالا تو دوسرے نے ساگ کے پتے چبانے شروع کر دیے۔ بمشکل میں نے بکرا ’’ دھرو‘‘ کے آگے کیا ۔ پیچھے سے کافی دیر تک بڑھیا کی ’’دعائیں ‘‘ میرے کانوں میں گونجتی رہیں: ’’اپنے بکرے وی نئیں سانبھ سکدے ‘‘ میں اگلے ڈبے تک نہیں پہنچا تھا کہ گاڑی جھٹکے سے رک گئی۔ فیصلہ کیا کہ نیچے اتر کے تیزی سے اگلے ڈبے میں اپنی سیٹ تلا ش کی جائے ۔ یہ کوٹ رادھا کشن سٹیشن تھا، اترتے وقت ایک بکرا دوبارہ ہاتھوں سے نکل گیا اور گاڑی کے الٹے رُخ بھاگنے لگا ۔ پلیٹ فارم پر میں نے ایک بکرا ایک مسافر کے سپرد کیا اور دوسرے کے تعاقب میںبھاگا اتنے میں گاڑی کی سیٹی بج گئی اور میں کھڑا حسرت سے گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ مت پوچھئے میں بکرے لے کر ملتان کیسے پہنچا!