دلدار پرویز بھٹی کی انیسویں برسی پر

’’ میرا خاندان بہت مختصر تاریخ رکھتا ہے۔ میرے بزرگ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے نہ شاہوں کی اولاد تھے۔ ہم نے قائداعظم سے کبھی ملاقات نہیں کی، نہ ہی انہوں نے یا کسی مرد قلندر نے ہمیں خواب میں بشارت دی۔ ہم نے پاکستان بالکل نہیں بنایا نہ اس کے لیے کوئی قربانی دی بلکہ یہ ہمیں بنا بنایا مل گیاتھا۔ تایا فوج میں تھے‘ سو ہمارا قافلہ لٹنے پٹنے سے بچ گیا۔ (افسوس) یہاں آکر مزے سے پراٹھے کھائے اور گھر الاٹ کرالیا ۔ اداکار میں بچپن ہی سے تھا۔ بس اشارے کی دیر تھی ،بیٹا آنکھ مارو۔ انگریز کیسے سگریٹ پیتے ہیں ؟ شیر کیسے گرجتا ہے ؟سردی کیسے لگتی ہے ؟چھوٹے چھوٹے اشاروں پر فوراً عمل کرتا ،کان مروڑنے پر فوراً ریڈیو بن جاتا۔ خرابی وہاں پیدا ہوتی جب نہ بتانے والی باتیں بھی باہر آنا شروع ہو جاتیں۔ یہ اصل میں دنیا کا سچا ترین ریڈیو تھا اس لیے زیادہ نہ چل سکا۔ ورنہ آکاش وانی اچھا تھا کہ جنگِ ستمبر میں بارڈر بند ہے، ڈاک کا نظام معطل ہے اور وہ پاکستانی سامعین کے خطوط کے جواب دے رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی فرمائش پر گیت بھی سنوا رہا ہے یا پھر اپنا ریڈیو کہ جناب ایوب خان نے ایک گولی نہ چلائی اور بہترین اسلامی فیلڈ مارشل یحییٰ خان نے ملک بچا لیا ۔ بھٹو صاحب نے آدھا محفوظ کر لیا ، ضیاء الحق صاحب خدائی خدمت گار بن گئے ، جونیجو صاحب نے پانچ نکات دیے …ہمارا ریڈیو C-130 میں مرنے والے صدر کو شہید قرار دیتا ہے( حالانکہ صدر کے بس میں ہوتا تو شہید کی بجائے ’’غازی‘‘ بننا پسند فرماتے ) پھر پھانسی پر خوشی منانے والے اسی ریڈیو نے ریکارڈ درست کیا اور بھٹو صاحب کو شہید قرار دے دیا‘‘۔ یہ طویل اقتباس بہت ہی پیارے کمپیئر،اداکار،استاد اور کالم نگار دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری خودنوشت سے لیے گئے ہیں ۔آج 30اکتوبر کو ہم سے بچھڑے انہیں انیس برس پورے ہورہے ہیں ۔ دلدار پرویز بھٹی واقعتاً ایک نہایت نفیس اور دردمند انسان تھے ۔ انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1975ء میں ٹی وی پروگرام’’ ٹاکرا‘‘ سے کیا جو بعد ازاں میلہ اور پنجند کے نام سے بھی نشر ہوا ۔ ان کا پروگرام ’’جواں فکر ‘‘بھی مقبول ٹی وی شو ثابت ہوا۔ آخری ایام میں کالم نگار کے طور پر بھی وہ قارئین سے محبتیں سمیٹ رہے تھے ۔ ان کے کالم میں ہمارا معاشرہ سانس لیتا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ انگریزی میں نظمیں بھی لکھتے اور اردو شاعری کے تراجم بھی کرتے ۔ میرے دوسرے شعری مجموعے ’’ یہ آغازِ محبت ہے ‘‘ کی تقریب ِ رونمائی میں دلدار پرویز بھٹی نے نہ صرف نظامت کی بلکہ کتاب کے حوالے سے مضمون بھی پڑھا جو بعد میں کالم کی صورت میں شائع ہوا ۔ ان کی ادھوری خودنوشت اگر مکمل ہو جاتی تو بہت دلچسپی سے پڑھی جانے والی کتابوں میں شمار ہوتی۔ اپنے سکول کے زمانے کا تذکرہ کرتے ہوئے آج کل کے انگریزی سکولوں کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ اب تو گھر گھر انگریزی سکول کھل گئے ہیں ۔ میٹرک فیل ماہر تعلیم ان کو چلا رہے ہیں ۔ ڈبل فیس پر بچے ، آ دھی تنخوا ہ پر استانیا ں ۔ ایک آدھ اچھی سی استانی سے دوسری شادی اور دنو ں میں لکھ پتی… اب کوئی اِ ن سکولوں کے خلاف نہیں بولتا ۔ جو اس وقت حسرت بھری نظروں سے دیکھتے تھے اب ان کے بچے وہ حسرت پوری کر رہے ہیں۔ ہر کلاس میں چار بچے اول ، پانچ بچے دوم ، چھ سوم اوردس بچے سپیشل پوزیشن لیتے ہیں ۔ہر ماں باپ خوش۔ تقسیم ِانعامات کسی اَن پڑھ ایکٹر سے کرا دی یا کرپٹ کونسلر سے ، جو اپنی سمگلنگ کی دولت سے چندہ بھی دے دے‘‘۔ دلدار پرویز بھٹی کے کالموں سے چند اقتباسات بلا تبصرہ ملاحظہ کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ دلدار کا مشاہدہ کس قدر گہرا اور اندازِ تحریر کتنا رواں اور پُر اثر ہے۔ ’’ ہمارے مبلّغ صرف یہی سبق دیتے نہیں تھکتے کہ حضورﷺ کھانے کی رکابی پوری طرح صاف کر دیتے تھے اور انگلیاں تک چاٹ لیتے تھے مگر کوئی یہ نہیں بتا تا حضورپاک ﷺ اپنی رکابی میں خوراک کتنی مقدار میں انڈیلتے تھے۔ کیا وہ کلو ڈیڑھ کلو مرغن غذا سے رکابی بھر لیتے تھے؟جی نہیں وہ صرف چند لقمے لیتے تھے‘ اس کو بھی ضائع ہونے نہ دیتے تھے ۔ سادہ خوراک، سادہ سی چٹائی پر بیٹھ کر کھانے اور ساری رات جاگ کر عبادت کرنے والے آقا ئے دو جہاںﷺ پیٹ بھر کر کھا ہی نہ سکتے تھے کہ عبادت پر نیند حاوی ہو جاتی ۔ بھوک رکھ کر کھانے سے مدینہ منورہ میں کسی حکیم وید کا کام نہ چلتا تھا ۔ سب ان کی تقلید کرتے ، کم کھاتے اور محنت زیادہ کرتے ۔ ہے کوئی جرنیل جو سپاہیوں کے ساتھ مل کر خود اپنے ہاتھوں سے خندق کھودے ، غلام کو بھی سوار ہونے کا موقع دے اور خود اپنی باری پر پیدل چلے؟ جی نہیں ‘‘۔ دلدار پرویز بھٹی ایک اور کالم میں رقم طراز ہیں: ’’پاکستان میں سب سے پکی نوکری چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی ہے ۔ ذرا اور طرح کی پکی نوکری صدرِ مملکت کی ہے۔ بالکل پکی اور خاموش نوکری سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ خفیہ پکی نوکری حکومت بنانے اور بگاڑنے والے خفیہ ہاتھوں کے انفارمرز کی ہے ۔ مگر سب سے کچی نوکری بیچارے وزیراعظم کی ہے ۔ ہم نجانے کیوں لٹھ لے کر وزیر اعظم کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں ۔‘‘ حلال و حرام کے عنوان سے دلدار پرویز بھٹی ایک کالم میں تحریر کرتے ہیں: ’’اللہ غریقِ رحمت کرے اپنے پیر صاحب قبلہ صاحب زادہ فیض الحسن ،سجادہ نشین درگاہ آلو مہار‘ بڑے مزے کے آدمی تھے ۔ پنجاب سے جو شعلہ بیاں مقرر پورے ہند میں اپنی پاٹ دار آواز ، مدلل اندازِ بیاں اور مرصع و مسجع منظر نگاری کی بنا پر مقبول ہوئے ان میں قبلہ شاہ صاحب کا نام ِ نامی زریں الفاظ میں لکھا جائے گا۔ ایک بار فرمانے لگے: ’’ بھیڑ کے بچے دو اور کتیا کے بارہ ، بھیڑ کھائی جاتی ہے کتا کھایا نہیں جاتا ۔ ارے تم منگل اور بدھ کے ناغے کرتے ہو، گوشت کی کمی دور ہو جائے گی ۔جائو کتے کا گوشت کھا جائو۔جائو آج میں نے فتویٰ دیا۔ ‘‘ مجمع پر سناٹا چھا گیا اوپر کی سانس اوپر رہ گئی‘ الفاظ حلق میں اٹک گئے، صاحب زادہ فرمانے لگے:’’ارے حیران کیوں ہو ؟ رشوت کھاتے ہو؟ سود لیتے ہو؟ ناجائز قبضے کرتے ہو؟ بیوہ کا مال ہڑپ کرتے ہو؟ تنخواہ لیتے ہو اور کام نہیں کرتے ؟ تو جائو پھر کتے کا گوشت بھی کھا جائو!‘‘ کچھ علمی ، فلمی کالم کے عنوان سے تحریر کردہ کالم میں لکھتے ہیں :’’ ہماری وہ جز وقتی اداکارہ جسے جب موقع ملے اداکاری کر لیتی ہے ۔ باقی وقت اپنے امریکی شوہر کے ڈیپارٹ مینٹل سٹور سے کھیلتی ہے ، جس کامالک بھی اب تھوڑا مینٹل ہو گیا ہے ۔ اداکارہ سے مل کر پہلے تو بندہ سینٹی مینٹل اور پھر جائیداد گروی رکھ کر رینٹل سروس کے پیسوں کا انتظار کرتا ہے ۔ آخر میں یا تو پہلی جوان اولاد سے جوتے کھا کر راہ ِراست پر آ جاتا ہے یا پھر پہلی بیوی بھی گنوا کے اور دوسری بھی بھگوا کے مینٹل ہو جاتا ہے۔‘‘ اقتباسات تو اور بھی بہت سے ہیں مگر کالم میں گنجائش نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انیس برس بعد بھی دلدار پرویز بھٹی کی باتیں اور کالم تروتازہ اور زندہ ہیں ۔ ان کی یاد کی خوشبو سے ان کے چاہنے والوں کے دل آج بھی روشن ہیں ۔ ـ ؎ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں