کسی پرانے ماڈل کی چھکڑا سی کار ریستوران کے قریب آ کر رُکی۔ اس کی چھت ٹوٹی ہوئی تھی اور انجن سے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے ۔ کار چلانے والا نیچے اتر کر قریب کھڑے چوکیدار سے بولا: ’’بھائی ذرا اِس کا دھیان رکھنا، میں ایک ضروری فون کر کے ابھی آتا ہوں ‘‘ کار والا جب واپس آیا تو چوکیدار نے اس سے بیس روپے طلب کئے ۔ کار والا تعجب سے بولا:’’ بیس روپے تو سراسر زیادتی ہے میں نے تو پانچ منٹ بھی نہیں لگائے‘‘۔ گارڈ بولا: ’’جناب وقت کی بات نہیں ، یہ معاوضہ تو اُس شرمندگی کا ہے جو مجھے کار کے پاس کھڑے رہنے سے اٹھانی پڑی ‘‘۔ رب ِ ذوالجلال کا شکر ہے کہ ہمیں کبھی ایسی شرمندگی کا سامنا نہیں ہوا…نادان ہیں وہ دوست جو وزیراعظم پاکستان کے دورہ ء امریکہ کو ناکام قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ بعض تو میاں نواز شریف اور اوباما کی ملاقات کے منظر پر خواہ مخواہ شرمندگی محسوس کر رہے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب نے امریکی صدر سے ملتے ہوئے کاغذوں کا پلندہ کیوں اٹھا رکھا تھا۔ ارے خدا کے بندو! بعض اوقات بہت ضروری اور کہنے والی باتیں بھی ذہن سے اتر جاتی ہیں ۔نجانے منیر سیفی مرحوم کا شعر اِس وقت کہاں سے یاد آ گیا ہے ؎ بعض اوقات میں نشے میں نہیں بھی ہوتا میری ہر بات مری بات نہ سمجھی جائے یہ جو دوست دورہء امریکہ کو ناکام کہہ رہے ہیں انہیں خبر ہی نہیں کہ ِاس وقت پاکستان کو ڈالروں کی کس قدر ضرورت ہے۔ ڈالر کو ایک سو سات روپے سے نیچے لانے کیلئے ضروری تھا کہ رُکی ہوئی امریکی امداد بحال ہو جائے سو امداد کی پہلی قسط میسر آئی ۔اسحاق ڈار صاحب کو مبارک ہو کہ اب وہ پہلے سے بہتر ’’ حکمت ِعملی ‘‘کا مظاہرہ کریں گے اور ڈالر کی اِس تازہ ’’ کمک ‘‘ سے ہماری معیشت کو پڑی ہوئی ’’چُک ‘‘ میں قدرے افاقہ محسوس ہوگا۔ ہم تو حیران ہیں کہ یار لوگوں کو میاں صاحبان کی ملک و قوم کی بہتری کیلئے، رات دن کی ’’بھاگ دوڑ ‘‘کیو ں دکھائی نہیں دیتی۔ سفر تو سفر ہوتا ہے۔ یہ اچھی خاصی مشقت کا نام ہے۔ شریف خاندان غربت کے خاتمے اور پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے اپنا چین و آرام قربان کیے ہوئے ہے ۔ دُور سے یہ سفر سب کو بڑے آرام دہ ، پُرتعیش اور سیر وتفریح سے معمور نظر آتے ہیں مگر غور کریں کہ انسان مسلسل سفر سے آخر کتنا سکھی رہ سکتا ہے؟ اپنا ایک پرانا شعر یاد آ رہا ہے ؎ اب اتنی بھی نہیں آسان میری ہمسری سن لو جہاں میں ہوں وہاں پانی بھی میرے سر تک آتا ہے شریف خاندان کو اپنے لوگوں سے ہی نہیں جانوروں سے بھی بے حد ہمدردی اورپیار ہے۔ ابھی حمزہ شہباز برفانی چیتے کی نسل بچانے کیلئے منعقدہ ایک اہم بین الاقوامی کا نفرنس میں شرکت کے بعد وطن لوٹے ہیں ۔ انہوں نے جمہوریہ کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ’’گلوبل سنو لیپرڈ کنزرویشن فورم‘‘ میں شرکت کے بعد کہا ہے کہ پاکستان میں برفانی چیتے کا غیر قانونی شکار اور تجارت روکنے کیلئے قانون سازی اور موثر اقدامات کئے جائیں گے اور ہر سال 13اکتوبر کو عالمی سطح پر برفانی چیتے کے تحفظ کا دن منایا جائے گا۔ حمزہ شہباز نے بتایا کہ بشکیک ڈیکلریشن میں 2015ء کو برفانی چیتے کے بچائو کا عالمی سال قرار دیا گیا‘ جبکہ ہر سال انٹرنیشنل سنولیپرڈکنزرویشن ایوارڈ کے اجراء کا بھی اعلان کیا گیا ہے جو برفانی چیتے کے تحفظ کے سلسلے میں نمایاں کوششیں کرنے والے ملک کو دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان‘ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار برفانی چیتے کی نسل کے بچائو کیلئے کی جانے والی عالمی اداروں کی کوششوں کا بھرپور ساتھ دے گا۔ ہم حمزہ شہباز کی جانوروں کے ساتھ ہمدردی کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ ہمارے علم میں نہیں کہ پاکستان میں برفانی چیتے کہاں اورکتنی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن اگر برفانی چیتوں کی معدوم ہوتی نسل کے بچائو کیلئے قومی سطح پر قانون سازی اور چیتے کے شکار پر پابندی لگانے جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں تو اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بلند ہو گا ۔ عین ممکن ہے آئندہ سال کا ایوارڈ پاکستان کے حصے میں آ جائے… ہمیں خوشی ہے کہ مسلم لیگ نون جس کا انتخابی نشان بھی شیر ہے ، برفانی چیتوں کیلئے باقاعدہ کچھ کر گزرنے کا عملی مظاہرہ کر رہی ہے۔ میاں صاحبان جہاں لوڈشیڈنگ ، دہشت گردی اور غربت مکائو مہم کیلئے اپنا رات دن ایک کیے ہوئے ہیں وہیں انہوں نے برفانی چیتوں کی نسل بچانے کا بھی پختہ عزم کر لیا ہے اور چیتوں سے ان کا یہ جذبہ ء ہمدردی لائقِ تحسین ہے۔ ہم اپنے دانشوروں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ میاں صاحبان پر طنز کے تیر چلانے بند کردیں اور ان کی غربت مکائو مہم کو غریب مکائو مہم سے تعبیر مت کریں۔ اور بہتری کیلئے دعا کریں ۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکہ سے ہمارے تعلقات مزید اچھے ہو جائیں گے اور اگر ایک بار صدر اوباما پاکستان آئے تو میاں صاحب کی مہما ن نوازی سے ان کی سوچ ضرور بدلے گی۔ بس صدر اوباما کو ہمارا ’’ دال قیمہ‘‘ پسند آنے کی دیر ہے، امریکہ کی تمام ’’ چیتا چالبازیاں ‘‘ بھی ماند پڑ جائیں گی اور ہمیں یقین ہے ،کم از کم یہ ڈرون حملے تو مکمل بند ہو جائیں گے۔ میاں صاحبان کا ’’ نمک ‘‘ اب اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ اسے کوئی ’’حرام‘‘ کردے۔ قوم کو زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، وہ وقت قریب آنے والا ہے جب حالات بہتر ہو جائیں گے۔ غریب لوگوں کے دکھوں میں کمی ہوگی‘ شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ شور سے ہمیں ایک اور شگوفہ یاد آ گیا ہے بلا تبصرہ آ پ کی نذر ہے۔ پڑھیے اور موجاں مارئیے: ’’کانٹے میں پھنسی مچھلی نکالنے کیلئے ایک شکاری پُل کی ریلنگ کے اوپر سے جھکا اور توازن کھو کر ندی میں گر گیا، اگلے ہی لمحے وہ سطح سے بلند ہوا اور ہاتھ پائوں مارتے ہوئے چلّانے لگا: مدد،مدد۔ مدد ،میں تیرنا نہیں جانتا ۔ پُل سے گزرتے ہوئے ایک افیمی نے ریلنگ سے جھک کر کہا: ’’ تو کیا ہوا ؟ میں گٹار بجانا نہیں جانتا مگر میں اس کا اعلان تو نہیں کرتا پھرتا‘‘۔