تلونڈی بھنڈراں کے بابا رانجھا سے ملاقات

چاچی تارو، پیر صاحب سے اپنے گھر والے کی شکایت کر رہی تھی : ’’ پیر جی !اب وہ مجھ پر ہاتھ بھی اٹھانے لگا ہے،میں ڈاہڈی(بہت) تنگ ہوں،ذرا ذرا سی بات پر مارنے لگتا ہے‘‘۔ پیر صاحب نے تعویذ لکھ دیا اور پانی میں گھول کر خاوند کو پلانے کی تلقین کرتے ہوئے بولے: ’’ اب یا تو وہ اندھا ہو جائے گا یا پھر اس سے تمہاری ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی‘‘۔ چاچی تارو نے تین پراتیں شکر اور کچھ چاندی کے روپے پیر صاحب کو پیش کیے اور وہ گھوڑی پر بیٹھ کر رخصت ہو گئے۔میں جو ساری باتیں سن رہا تھا بولا: ’’چاچی، میں چاچے سردار کو بتا دوں گا کہ تُو جلد اندھا ہونے ولاہے‘‘ ۔ اب چاچی لگی میری منتیں کرنے ۔میں بھاگ کر گھر آگیا ، چاچی تعاقب میں ماں کے پاس آگئی ۔اب وہ دونوں مجھے پیار سے سمجھانے لگیں،طرح طرح کے لالچ دیے گئے لیکن مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔آخر چاچی تارو نے دوپٹے سے تعویذ کھول کر گھر کے قریب بہنے والے نالے میں بہا دیا اور بولی : ’’ ویکھ پتررانجھے ! اب تو تم چاچے سے پیر والی باتیں نہیں کہوگے، اب تومیں نے تعویذ بھی ضائع کر دیا ہے‘‘۔ میں ہنستا ہوا کھیتوں کی طرف بھاگ گیا۔ بابا رانجھااپنے ماضی کی یہ باتیں سنا رہا تھاجس سے میری ملاقا ت ایک سفر کے دوران ہوئی تھی۔تلونڈی بھنڈراں کے ملحقہ گائوں سے تعلق رکھنے والے اِس بابے کی عمر سو برس سے کچھ کم ہے۔عمر کے اِس حصے میں بھی اُس کی زبردست یادداشت پر حیرت ہوتی ہے۔بابے کے ساتھ اُس کا ایک چیلہ صادق عرف ماجھا بھی تھا۔جو بتا رہا تھا کہ وہ پچھلے تیس برس سے بابے کی خدمت میں مصروف ہے ۔بابا رانجھا ٹھہر ٹھہر کر بولتا ہے،اس کی گفتگو سادہ اور ’’لوک دانش‘ ‘سے معمور ہوتی ہے۔بابا رانجھا اپنی یادوں کی راکھ میں دھیر ے دھیرے انگلیاں پھیر رہا تھااور راکھ سے کئی کہانیوں کی چنگاریاں روشن ہو رہی تھیں۔تقسیم کے وقت بابے رانجھے کی عمر پچیس سال تھی۔اسے بٹوارے میں لوگو ں کی ہجرت کا ایک ایک منظر یاد ہے۔بابے کا والد اپنے گائو ں کا چودھری تھا اور رانجھا اپنے باپ کی اکلوتی اولاد۔لاڈ پیار نے اسے کسی حد تک خود سر بنا دیا تھا۔وہ گھڑ سواری ،نیزہ بازی اور وزن اٹھانے کے علاوہ گتکے کا ماہر بھی تھا۔بابے نے بتایا کہ ان دنوں علاقے کے بدمعاش بوٹا سنگھ کی سارے علاقے میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور بوٹا سنگھ میرے والد چودھری لدھا کا جگری یار تھا۔سکھوں کی بستی میں مسجد ضرور تھی مگر وہاں اذان دینے کی کسی کو جرأت نہ تھی۔چودھری لدھا نے ایک دن بوٹا سنگھ سے بات کی۔بوٹا اپنی تیز دھار چھوّی (کلہاڑی کی ایک قسم) لے کر مسجد کے دروازے پر بیٹھ گیا ۔اُس نے اعلان کروایاکہ ’’ آج مسجد میں اذان دی جائے گی،میں مسلمان نمازیوں کے ساتھ ہوں اور مسجد کے باہر بیٹھا ہوں ،جس میں ہمت ہے روک لے‘‘ ۔ مسلمانوں نے (جو اس وقت اقلیت میں تھے)پہلی بار اذان دے کر نماز ادا کی۔سکھوں کی ہمت نہ ہوئی کہ بوٹا سنگھ کا سامنا کر سکیں۔بابا رانجھا ماضی کے اوراق پلٹ رہا تھا ۔وہ آہستہ آہستہ بولتا ،درمیان میں کبھی کبھی ماجھا کود پڑتا:’’ ایک زمانے میں بابے کی شہ زوری اور جی داری کی دھوم ہوا کرتی تھی۔پھر اچانک ایک روز ہمارے گائوں کے باہر ایک درخت کے نیچے ایک درویش نے ڈیرہ لگایا اور لوگوں میں مقبول ہونے لگا ۔بابا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ دوستوں نے کہا کہ درویش کے ڈیرے کا لنگر کھلائو تو تمہیں مانیں گے ۔وہ ساتھیوں سمیت ڈیرے کی طرف چل پڑا ۔ڈیرے پر پہنچتے ہی انہیں بغیر مانگے لنگر پیش کر دیا گیا ۔ رانجھا بت بنا ایک طرف کھڑا رہا اور کچھ نہ کھایا ۔ اب بابے رانجھے نے بات آگے بڑھائی : ’’اگلی رات میں کمرے میں نیم غنودگی کی حالت میں بستر پر لیٹا ہوا تھا ، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک کونے میں وہی درویش بیٹھا ہے۔میں بستر سے اٹھ بیٹھا ، آنکھیں ملیں ،لالٹین جلائی مگرکونا خالی تھا۔دوبارہ بستر پر دراز ہوا تو وہ درویش دوسرے کونے میں کھڑامسکر ا رہا تھا۔مگر کچھ ہی دیر میں وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔مجھے کچھ ہوش نہ رہا، اسی طرح دروازہ کھول کر درویش کے ڈیرے کی طرف روانہ ہوگیا۔پیچھے سے آواز دے کر میری گھر والی نے پگڑی اور کرتا میرے حوالے کیا، میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوادرویش کے ڈیرے پر پہنچ گیاتھا۔بس، آگے کیا بتائوں،اس کے بعد واپس گائوں پر پہنچ گیا۔رات دن درویش کی خدمت میں رہنے لگا۔ بدمعاشی ،شہ زوری اور لڑائی جھگڑے دھرے کے دھرے رہ گئے۔اسی دن سے گائوں کے باہراپنی چار ایکڑ زمین میں کٹیا ڈال رکھی ہے ۔ وہاں بجلی ہے نہ کوئی اور سہولت ۔سادہ سی زندگی اسی جنگل میں بسر ہو گئی ہے۔فطر ت کے قریب جینے میں بڑا مزہ ہے۔نلکے کاتازہ صاف پانی ،اپنے کھیتوں کی سبزیاں ، مولیاں،ساگ ،بکری کا دودھ،پرندوں کے گیت ،چاندنی راتیں اور گہری خاموشی۔۔۔۔۔کتنی نعمتیں مجھے میسر ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سخت سردی اور گرمی برداشت کرنا مشکل ہے مگر موسموں کی یہ شدت انسانوںکے لئے بہت مفید ہے۔ اسے برداشت کر کے انسان اندر سے پختہ ہوتا ہے ۔اس سے تحمل ،برداشت اور برد باری جنم لیتی ہے۔بجلی کا کیا ہے، سنا ہے اب تو شہروں میں بھی یہ جنس نایاب ہوگئی ہے۔میں نے چھوٹا سا ریڈیو رکھا ہوا ہے،ٹی وی میسر نہیں۔رات آٹھ بجے ہم سو جاتے ہیں اور تہجد کے وقت اٹھ بیٹھتے ہیں، پھر صبح تڑکے تک اللہ توبہ!قہوہ یا چائے کے دو کپ اوررات کی بچی ہوئی آدھی روٹی، بس یہی ہمارا ناشتہ ہے۔میں فراغت کو نزدیک نہیں آنے دیتا ۔کچھ نہیں تو پودینے کی کیاری میں گوڈی کرنے لگتا ہوں ۔دل میں ایک طمانیت ہے، یہی میرا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ میں نے بابے رانجھے سے زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ پوچھا تو اس نے حقے کا لمبا کش لگاتے ہوئے کہا : ’’ ہاں،ایک بار سائیں جی کا میلہ تھا،کسی نے سائیں جی کی چٹائی کے نیچے سے پیسوںوالا بٹوا اٹھا لیا۔بات دور تک نہ جاتی مگر سید پور کی پٹھانی کو بھنک پڑ گئی۔وہ بار بار سائیں جی کو کہتی، سائیں جی چور کو پکڑیں، آخر آپ کی رقم چور ی کیسی ہو سکتی ہے ؟میں سائیںجی کے سامنے بیٹھا تھا، انہوں نے میرے منہ پر ہاتھ پھیرا۔میں نے اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں پر نگاہ ڈالی اور کہا : سائیں جی رقم میں سے بیس روپے کم ہیں ۔ پھر میں نے ایک نوجوان کو مخاطب کر کے کہا یار اپنی جیب سے رقم نکال کر مجھے دے دو۔نوجوان نے حکم کی تعمیل کی۔رقم اچانک سید پور کی پٹھانی نے اچک لی اور روپے گن کر زور سے بولی ! ہا ہائے سائیں جی رقم سے بیس روپے کم ہیں ۔لوگ خوشی سے ناچنے لگے ، میں نے سائیں جی سے کہا۔سرکار کہو تو بٹوا بھی بتائوں کہاں پڑا ہے؟سائیں نے میرے سر اور منہ پر دوبارہ ہاتھ پھیرا اور کہا : ’’ چھڈ یار کیہڑے کم لگ گئے ہو‘‘۔وہ بٹوا جو قریب ہی مٹی میں دبا مجھے دکھائی دے رہا تھا آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔اب تک پچھتاتا ہوں کہ اگر میں بٹوے کا ذکر نہ کرتا تو نہ جانے کیا کیا نظارے دیکھتا۔بس بائو جی یہی قصے اور ان کی یادیں میرا اثاثہ ہیں۔میں سوچنے لگا، ہم فطرت سے کس قدر دور ہو گئے ہیں ۔اقبال یاد آگئے : فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں