ملنگو ں کے درمیان ایک شام

کہا : ’’ یقین نہیں ہے توجائو ! یہ ہماری ٹوپی سر پر لے لو اور شہر میں انسان تلاش کرو،جان جائو گے کہ اب جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے اور چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی انسان نہیں ملتا۔ ‘‘ سننے والا ٹوپی پہن کر بازار نکلاتو اس نے خود کو جانوروں کے درمیان پایا ۔گلی گلی میں، گائے ،بیل ،گھوڑے ،گدھے ،کتے اوربلّے بلیاں دکھائی دے رہے تھے۔آخرشہر کے ایک کونے میں ایک بھٹیارن اپنی اصل صورت میں دکھائی دی۔وہ قریب گیا تو وہ ہنسنے لگی۔ پوچھا: ’’ اے بھٹیارن ! مجھے دیکھ کر تو کیوں ہنسی؟ بھٹیارن بولی : ’’میں بکرے کے سر پر خضر کی ٹوپی دیکھ کر ہنس رہی ہوںــ‘‘ ملنگ تمثیل مکمل کرتے ہوئے بولا : ’’ ہمارے اِرد گرد بھی انسانوں کے روپ میں جانور دیکھے جا سکتے ہیں۔جو آنکھیں کان اور عقل و خرد رکھتے ہوئے بھی ،اِن سے کام نہیں لیتے، بالکل ایسے جیسے ہارن سن کر، سامنے آتی گاڑی دیکھ کر بھی، بھیڑ بکریاں یا بھینسیں راستہ نہیں دیتیں ،جب تک کہ انہیں کسی چھڑی یا لاٹھی سے ایک طرف نہ کیا جائے۔ آج لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت قدرے کم ہو گئی ہے۔ورنہ انسانوں کی سرشت اور فطرت تو پیار، محبت اور رحم و ہمدردی ہے اور اس نادانی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہماری روزمرّہ کی خوراک اور رزق درست نہیں رہا۔‘‘ اب محفل میں ایک اور آواز آئی : ’’ صاحب ! آپ جانتے ہیں ہم مٹی سے دُور ہو تے جارہے ہیں ۔انسان مٹی کے برتن تک چھوڑ چکاہے۔مٹی کے گھڑے کا پانی ،آپ کے ’’ شہر ی فلٹروں ‘‘ اور’’ بند بوتلوں ‘‘ کے ’’ منرل واٹر ‘‘ سے بہتر ہوتا ہے کہ مٹی سے بنا ہوا گھڑا، پانی کی ساری آلودگی خود میں جذب کر لیتا ہے۔کبھی لوگ مٹی کے برتنوں میں کھایا پکایا کرتے تھے۔تب بہت سی بیماریاں وجود میں نہیں آئی تھیں۔مٹی کی بنی ہانڈی میں پکے سالن کی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔آپ شاید حیران ہوں، دیہاتی مائیں ’’مٹی کی ٹھیکری ‘‘ جلتے کوئلوں پر گرم کر کے، پھر اس پر تھوڑا سا تھوم رکھ کر، ہانڈی میں ڈال دیتیں یوں دال کو ’’ دُھونی‘‘ یا تڑ کا لگ جایا کرتا تھا۔ دھونی یا اُس تڑکے والی دال کا اپنا ’’سواد ‘‘ ہوا کرتا تھا۔آج فریج میں فریز کیے برائلر گوشت کو پریشر ککر میں پکایا جاتا ہے تو بھی مصالحوںمیں نہ وہ خوشبو نہ کوئی ذائقہ۔‘‘ چٹائیوں پر جمی اس محفل سے ایک اور شخص بولا : ’’ادرک کو ایک خاص قسم کے کیمیکل میں بھگو کر وزن بڑھایا جاتا ہے اور پھر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ادرک تو آج ٹماٹر کی، آسمان کو چھوتی قیمتوں سے بہت پہلے ہی مہنگا بک رہا ہے۔ آپ برائلر کی فیڈ پر تحقیق کر لیں ،مُردہ جانوروں کی آنتوں اور خون سے تیار شدہ فیڈ سے چھوٹا سا چُوزہ ،چند روز میں بھاری بھر کم برائلر میں ڈھل جاتا ہے۔مصالحوںکے بغیر اُس ’’ ربڑنما گوشت‘‘ کو آپ منہ تک نہ لگائیں۔ دودھ بیچنے والے بھی اصل دودھ میں ایسا کیمیکل ملاتے ہیں کہ دودھ ، گاڑھا ہی نہیں، پانی ڈالنے سے زیادہ بھی ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر وں کا کہنا ہے ایسے دودھ سے یرقان کی بیماری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کے اِس تیز رفتار دور میں لوگوں کو سب سے زیادہ توجہ اپنی خوراک اور پھر اس کی تیاری پر دینی چاہیے مگر مصروفیت انہیں اِس اہم ترین کام کے لیے بھی وقت نہیں دیتی۔لوگ بھاگتے بھاگتے ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض ناشتے کے بغیر کام پر دوڑ پڑتے ہیں،دوپہر کو بازار سے جو مل جائے، زہر مار کر لیتے ہیں۔ بے وقت کھانے اور ملاوٹ شدہ اشیا ئے خوردنی سے تیار غذا نے انسان کو ’’جانور ‘‘بنادیا ہے۔‘‘ عزیز قارئین! یہ ساری باتیں پسرور کی نواحی بستی میں، ایک مردِ درویش کے ملنگوں کے درمیان سننے کو ملیں۔ سبحان اللہ! پرالی (دھان کا بھوسہ) سے بنے کواڑوں اور چھپّر میں الائو کے اِرد گرد چٹائیوں اور بوریوں پر بیٹھنے والے زندگی کی کتنی گہری باتیں بیان کر رہے تھے۔ صدیق عرف سائیں مسکین کے چھوٹے سے ٹرانزسٹر پر محرم کے فسادات کی خبروں پر سبھی افسردہ تھے۔پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ بستی کے ایک کسان بھا طفیل نے سرد آہ بھر ی اور بولا: ’’ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے والے مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں؟ ‘‘ مردِ درویش نے کہا: ’’ خواہشوں کی غلامی نے بندے کو بندہ نہیں رہنے دیا۔ لوگ اپنا آپ فراموش کیے ’’ انھّے وا‘‘ بھاگے پھرتے ہیں۔‘‘ ایک سوال پر فرمایا : ’’ تقویٰ کا مصدر وقایہ ہے جس کے معنی حفظ اور نگہداری کے ہیں۔تقویٰ بھی اپنے آپ کو محفوظ بنانے اور اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر ہر شخص، ہر رات، اپنے دن بھر کا حساب کرنے لگے اور خود احتسابی سے گزرے تو دل آئینے کاکام دیا کرتا ہے۔خود احتسابی سے بڑھ کر کوئی لگام نہیں۔ بہ شرطیکہ کوئی خود کو اندر سے لگام ڈالنے پہ راضی ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: ’’خدا اور بندے کے درمیان ،نفس کی خواہشات سے زیادہ تاریک اور وحشت ناک پردہ کوئی نہیں‘‘ لوگوں کو موت یاد نہیں حالانکہ ہر روز لاکھوں افراد، لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ افسوس ہم زندگی کی دوڑ میں موت کو فراموش کر چکے ہیں۔‘‘ کچھ دیر کُٹیا میں خاموشی چھائی رہی پھر سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کی فکر مہکنے لگی، ایک پُر سوز اور مترنم آواز گونجنے لگی۔ سلطان باہو ؒکے اشعار دل میں اتر نے لگے: نہ میں سُنّی نہ میں شیعہ دوہاں توں دل سڑیا ہُو مُک گئے سب خشکی پینڈے دریا رحمت وڑیا ہُو کئی من تارے، تَر تَر ہارے، کوئی کنارے چڑھیا ہُو صحیح سلامت چڑھ گئے باہُو، مرشد دا لَڑ پھڑیا ہُو دین تے دُنیا سَکیاں بھیناں، عقل نہیں سمجھیندا ہُو دونویں اِکس نکاح وچ آون، شرع نہیں فرمیندا ہُو اَگ تے پانی تھاں اکے وچ، واسا نہیں کریندا ہُو دوھیں جہانیں مٹھے باہُو جنہاں دعویٰ میں دا ہُو اشعار ختم ہوئے تو ایک طرف سے آواز آئی : ’’ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے نظریہ خودی کا خلاصہ سچ ہے کہ خودی ایک نور ہے جس سے انسان میں شعور و آگہی کی شمعیں روشن ہیں بہ شرطیکہ انسان ہو۔‘‘ ایک سے ہو کے، مسلمان، نہیں بھی ہوتے یہ جو انسان ہیں، انسان، نہیں بھی ہوتے ملنگوں کے درمیان کیسی کیسی باتیں من مہکا رہی تھیں۔حرص و ہوس ،تکبر ،تعصب اور خود غرضی سے دُور یہ سادہ اور پُر اسرار بندے، دنیا سے بے نیاز رہ کر بھی دنیا کے کس قدر ’’ رمز آشنا ‘‘ ہیں۔ نجانے کیوں مولانا رومؒ یاد آئے : ’’وسوسے کی روئی کان سے باہر نکال تاکہ تیرے کانوں میں آسمانی آوازیں آنے لگیں‘‘ کیا کہنے: آدمی دیداست، باقی پوست است مگر یہ سب کچھ سوچے کون؟ بلا تبصرہ اپنا مطلع آپ کی نذر: ایسے بد دل ہیں اِس نظام سے لوگ جا رہے ہیں دعا سلام سے لوگ

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں