وہ کہہ رہا تھا: ''سر کیا بتائیں، ہم گائوں کے لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہیں؟ خنکی بڑھنے سے شہروں میں لوڈ شیڈنگ کم ہوئی ہو گی لیکن گائوں میں اب بھی لوڈ شیڈنگ کا وہی حال ہے جو شدید گرمیوں میں تھا۔ میں تحصیل فیروزوالہ کے ایک گائوں کا رہنے والا ہوں۔ پچھلے آٹھ روز سے ہمارے گائوں کا ٹرانسفارمر خراب ہے۔ متعلقہ ادارے والے کہتے ہیں کہ اس کے چند کوائل جل گئے ہیں، انہیں ری وائنڈ کرانا پڑے گا اور سرکاری رقم کے لیے دفاتر کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ اگر آپ جلد ٹرانسفارمر مرمت کروانا چاہتے ہیں تو گائوں کے لوگ پانچ سو روپے فی گھر جمع کرائیں تاکہ پرائیویٹ طور پر ٹرانسفامر کی مرمت کرائی جا سکے۔ اوپر سے گائوں والے بھی اب بجلی کے بغیر ایک پل نہیں رہتے۔ گائوں میں آٹے کی چکی ہو، ٹوکہ مشین یا ٹیوب ویل‘ ہر چیز بجلی پر چلتی ہے۔ گھروں میں پانی کے لیے لگی موٹریں بھی بجلی پر چلتی ہیں۔ سو ہم نے 68 ہزار روپے ٹرانسفارمر کی مرمت کے لیے متعلقہ حکام کو دیے تب کہیں ہمارے گائوں کی بجلی بحال ہوئی۔ بجلی آنے پر لائن مین اور اس کے ساتھیوں نے گائوں کے ہر گھر سے ایک ایک ٹوپہ گندم اور چاول، مٹھائی کے نام پر حاصل کیے۔ جہاں تک میٹر ریڈر کا تعلق ہے‘ وہ بھی ایک ہزار روپے فی گھر وصول کرتا ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ بجلی چاہے جتنی استعمال کر لو بل زیادہ نہیں آتا‘‘۔
میں نے نوجوان کی ساری گفتگو سنی تو اس کے گائوں کے بارے میں مزید پوچھنے لگا۔
''اچھا یہ بتائو! آپ کے گائوں میں سکول ہے؟‘‘ نوجوان نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا ''گورنمنٹ کا پرائمری سکول موجود ہے
جس میں بجلی نہیں، فرنیچر بھی نہیں ہے۔ ہر بچہ اپنی اپنی بوری گھر سے لاتا ہے۔ پانی کا نلکا کئی روز سے خراب ہے۔ بچے قریبی مسجد سے پانی پیتے ہیں جہاں بجلی ہے اور پنکھے بھی۔ ہمارے گائوں کی مسجد کے مولوی صاحب بہت ہی نیک انسان ہیں۔ گائوں والوں نے انہیں چار ایکڑ اراضی کاشت کے لیے دے رکھی ہے۔ مولوی صاحب عموماً اپنی زمینوں پر اپنی بھینسوں کے لیے چارہ کاشت کرتے ہیں۔ گائوں کے اکثر لوگ مولوی صاحب سے بھینسوں کا دودھ خریدتے ہیں۔ اپنے لیے انہوں نے بکریاں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں بکریوں کے دودھ میں بڑی شفا ہے۔ مولوی صاحب قربانی کی عید پر کھالیں بھی اکٹھی کرتے ہیں۔ گائوں کے بیشتر لوگ قربانی کی کھالیں مسجد میں جمع کرواتے ہیں۔ اس بار عید پر میں نے اپنے گھر والوں سے تکرار بھی کی کہ قربانی کی کھالیں مولوی صاحب کو نہ دی جائیں بلکہ کسی غریب مسکین کو دی جائیں مگر والد صاحب نے روک دیا۔ مولوی جی کا رابطہ شہر کے ایک شخص سے ہے۔ وہ ان دنوں میں آ جاتا ہے، مولوی صاحب اکٹھی ہونے والی ساری کھالیں اسے بیچ کر رقم جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ ہمیں بتایا یہی جاتا ہے کہ مولوی صاحب مسجد کی امامت کے لیے کوئی باقاعدہ رقم نہیں لیتے اور گائوں کے بچوں کو مفت قرآن کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ مسجد کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کے لیے ہر جمعرات کو سپیکر پر چندہ بھی مانگا جاتا ہے اور چندے کے لیے اونچی آواز میں اہلِ گائوں کو مخاطب کرکے، جنت میں اپنا گھر بنانے پر مائل کیا جاتا ہے، کوئی سو پچاس روپے دے تو کئی بار اس کا نام لے کر اسے دعائیں بھی دی جاتی ہیں۔ چندہ اکٹھا کرنے کے دوران میں، مسجد کے سپیکر کے شور میں آس پاس کے لوگ کوئی بات نہیں کر سکتے۔ میرا گھر مسجد کے قریب ہے لہٰذا میں جمعرات کو پڑھائی نہیں کر پاتا۔ مولوی صاحب کئی زمینداروں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی فوت ہو جائے تو مولوی جی قبر نکلوانے کا بندوبست بھی کرواتے ہیں۔ نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے بھی سوائے جائے نماز کے کپڑے کے، ایک پائی وصول نہیں کرتے۔
نوجوان کی بات ابھی جاری تھی کہ میں نے سوال کر دیا:'' کیا واقعی! مولوی صاحب ماہانہ وظیفے کے بغیر امامت کروا رہے ہیں‘‘۔
تو اس نے جواب دیا: ''جی بالکل‘ ماہانہ تو وہ نہیں لیتے البتہ گائوں کے ہر گھر سے، فصل پکنے پر ایک من گندم اور چاول حاصل کرتے ہیں۔ یوں کاشت کاروں سے زیادہ ان کے گھر گندم اور چاول کی بوریاں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ مسجد کے ساتھ ہی ان کا گھر ہے‘ مگر ان کی بکریاں سکول میں بندھی ہوتی ہیں۔ گائوں کا گندا پانی بھی سکول کے سامنے جمع رہتا ہے اور کسی تالاب کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ ایک بہت ہی نامور وفاقی وزیر اسی گائوں کا رہنے والا ہے لیکن اسے گائوں کے مسائل سے زیادہ ملکی وسائل کی فکر ہے۔ ویسے میں یہ سب باتیں کسی دکھ یا شکایت کے طور پر نہیں بتا رہا۔ آپ کو گائوں کی زندگی کی تفاصیل دے رہا ہوں۔ مولوی صاحب تو ہمارے معلم بھی ہیں۔ ہم سب ان کی بے حد عزت کرتے ہیں۔ مولوی صاحب کے گائوں والوں پر بڑے احسان ہیں۔ وہ لوگوں کی غمی خوشی میں کام آتے ہیں۔ جنازہ‘ نکاح پڑھانے کے علاوہ بچوں کی چھوٹی بڑی بیماریوں کے حوالے سے ''دَم دُرود‘‘ بھی کرتے ہیں۔ نکاح پر تو لوگ خوشی سے ان کی خدمت کر تے ہیں البتہ سر درد، گلے یا بخار کے لیے لوگ مسجد میں تیل کی بھری شیشی لے کر جاتے ہیں۔ یوں مولوی صاحب کے گھر سرسوں کا تیل بھی اچھی خاصی مقدار میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ ''باری‘‘ کے بخار کا تعویز بھی مولوی صاحب سے لکھواتے ہیں۔ اس کے لیے سفید مرغا پیش کرنا پڑتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ تعویز کی خیرات دینی پڑتی ہے۔ میں کچھ پڑھ لکھ گیا ہوں تو کبھی کبھی یہ سب باتیں مجھے عجیب لگتی ہیں‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان ساری باتوں کے باوجود ہم سب گائوں والے ہنسی خوشی سے رہتے ہیں۔ بھلے ہمارا ایم این اے گائوں والوں کے کام کرے یا نہ کرے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ہم ووٹ اپنی برادری کو ہی دیتے ہیں‘ لیکن اس بار ایک اپ سیٹ ہونے کو ہے اور وہ یہ کہ ہمارے مولوی صاحب نے کونسلر کا الیکشن لڑنے کا اعلا ن کر دیا ہے۔ کئی وڈیرے مولوی صاحب کو بٹھانے کے لیے ہر طرح کا دبائو ڈال رہے ہیں۔ اگلے روز ایک سرکردہ زمیندار اپنے ڈیرے پر اعلان کر رہا تھا کہ اگر مولوی صاحب نے الیکشن میں حصہ لیا تو ہم ان کا حقہ پانی بند کر دیں گے۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ مجھے مولوی صاحب کی کچھ باتوں سے اختلاف کے باوجود، گائوں والوں کا یہ فیصلہ بہت ناگوار محسوس ہوا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ہمارے گائوں کی اس صورتحال میں کون حق پر ہے؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
نوجوان طالب علم کے گائوں کے حالات سن کر میں بھی پریشان ہو گیا ہوں۔ قارئین آپ ہی کوئی فیصلہ کریں۔ گائوں کی جمہوریت کا... مجھے تو بیدل حیدری صاحب کا شعر یاد آرہا ہے:
اس نے کل گائوں سے جب عزمِ سفر باندھا تھا
بچہ آغوش میں تھا پشت پہ گھر باندھا تھا