امریکی صدر کی کتب بینی اور ہم

پاکستانی اخبارات نے امریکی صدر اوباما کی کتب بینی کو خبر کے طور پر شائع کیا ہے۔بات صرف اتنی سی تھی کہ '' تھینکس گِونگ ڈے ‘‘ پر وہ اپنی صاحبزادیوں کے ساتھ واشنگٹن کے ایک بُک سٹور پر گئے اور حسبِ عادت کتب خریدنی شروع کر دیں۔ امریکیوں اور اہلِ یور پ کے لیے مطالعے کی عادت یا کتب کی خریداری کوئی خبر نہیںکہ یہ ان کی زندگی کا معمول ہے۔ ا ن کے ہاںکمپیوٹر ،انٹرنیٹ،اور سوشل میڈیا کی بے پنا ہ ترقی کے باوجود مطالعہ کی عادت ماند نہیں پڑی ۔وہ سفر کے دوران بھی کچھ نہ کچھ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں ۔ہمارے ہاں اخبارات بھی ڈھنگ سے پڑھنے کی عادت فروغ نہیں پا سکی۔بیشتر لوگ حجام کی دکان پر یا چائے خانوں میں بیٹھے اخبارات اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیتے ہیں ۔ باقاعدہ کتب بینی کی عادت بے حد کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اگر عام لوگوں کا یہ حال ہے تو بیچارے حکمران یا سیاستدان اپنی بے پناہ مصروفیت میں سے کتب بینی یا مطالعے کے لیے وقت کیسے نکال سکتے ہیں؟ لہٰذا ہمارے لیے امریکہ جیسے ملک کے صدر کا کتابیں خریدنا بھی بڑی خبر ہے ۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ صدر اوباما تو مطالعے کے بے حد شوقین ہی نہیں خود لکھنا بھی جانتے ہیں ۔گویا صاحب ِ مطالعہ ہی نہیں صاحبِ کتاب بھی ہیں۔ مغربی معاشرے میں مطالعے کی عادت ، لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے لیکن اگر آپ اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں اور سروے کرائیں تو حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے ہاں بیشتر
سیاستدانوں میں سے کالج سے نکلنے کے بعد شاید ہی کسی نے کتاب کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔ہمارے سیاستدا ن، اخبارات پڑھنے ہی کو مطالعہ سمجھتے ہیں اور حکمرانوں کے پاس تو اخبارات کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے۔انہوں نے اخبارات پڑھنے کے لیے باقاعدہ ''ملازمین ‘‘ رکھے ہوئے ہیںجو اخبارات کے تراشے یا اُن تراشوں کی بھی ''سمریاں ‘‘ بنا کر فائل کی صورت میں پیش کرتے ہیں کہ کون کون سے اخبارات میں کیا کیا خبریں ان کے متعلق شائع ہو ئی ہیں۔اب آگے اُن کی صوابدید یا فرصت پر منحصر ہے کہ وہ فائل بھی دیکھیں یا نہ دیکھیں ۔آج کل تو ٹیلی ویژن کا دو ر ہے، سو ٹی وی سکرین پر چلنے والی '' پٹیاں ‘‘ ہی اگر نظر میں آجائیں تو بندہ کم از کم اِرد گرد کے واقعات سے با خبر ہو جاتا ہے،بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔کتب بینی تو ایک سنجیدہ مشغلہ ہے ۔بلکہ ادب کا مطالعہ تو اِس سے بھی زیادہ سنجیدہ ۔ ہمارے ہاں توادب کو کسی کھاتے میں شمار نہیں کیا جاتا ۔ادبی کتب خود ادیب شاعر ہی پڑھتے ہیں۔ ان میں سے بھی بیشتر کتاب خرید کر پڑھنے کو زحمت ہی سمجھتے ہیں ۔ہمارے ہاں ادب عوام کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ کسی سیاسی جماعت سے اگر دو چار ادبی ذوق رکھنے والے وابستہ ہو جائیں تو اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت اپنے انہی ادبی ذوق رکھنے والوں کی پذیرائی کرکے اور انہیں ملکی وادبی ثقافتی اداروں کا سربراہ بنا کر یہ سمجھ لیتی ہے کہ گویا ادب کا فریضہ بھی ادا ہو گیا ۔ اب تو ہر سیاسی پارٹی کے لئے اپنا اپنا '' فخر زمان ‘‘ بھی ضروری ہوتا ہے ۔ (فخر زمان کو یہاں استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے) ویسے اب تو اہل قلم بھی ادبا ء شعرا کو کم ہی سمجھا جاتا ہے ۔اب اہلِ قلم بھی صرف اور صرف اینکر پرسنز، صحافیوں یا کسی حد تک کالم نگاروں ہی کوگردانا جاتا ہے۔یہ نمایاں ''اہل قلم ‘‘ بھی اپنے اپنے ''مفاد ات ‘‘ کے لیے '' تُو تکار ‘‘ پر اُترے دکھائی دیتے ہیں۔غور کریں تو ہر لکھنے والے کا سچ بھی اپنا اپنا ہوتا ہے ۔اس کا نظریہ اس کے '' مفادات ‘‘ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔کوئی ''امن کی آشا ‘‘ کے لیے ایک دوسرے پر پھنکارتا ہے تو کوئی اپنی پارٹی یا ادارے کی سیاست میں پھنسا نظر آتا ہے۔انسان اور انسانیت، زندگی کی حقیقت اور دوسروں سے محبت اور فلاح ِعام کو اجاگر کرنے میں خود عملی نمونہ بن کر، صداقت کے 
لیے مرنے کی تڑپ خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔جب دانش ور اور دوسروں کو راہ دکھانے والے خود نام و نمود، حرص و ہوس اور '' دنیا داری ‘‘ میں ناکو ں ناک ڈوبے ہوں تو پھر عام لوگوں یا اپنے سیاستدانوں ،حکمرانوں سے آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟امریکی صدر کی طرح ہمارے کتنے صدور یا وزرائے اعظم مطالعے کی عادت رکھتے ہیں ۔سبکدوش ہونے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں بتا یا جاتا ہے کہ وہ باقاعدہ مطالعے کے خوگرہیں۔چلیں فوجیوں میں ہی سہی کسی کو مطالعے کی عادت تو ہوئی۔اب صدر زرداری ،مولانا فضل الرحمن ،عمران خان یا میاں صاحبان جیسی مصروف ترین شخصیات سے توقع رکھنا کہ وہ '' راجہ گدھ ‘‘ ، '' اداس نسلیں ‘‘یا '' دشتِ سُوس ‘‘یا ''ماضی کے مزار ‘‘ جیسی کتب پڑھنے لگ جائیں توسراسر نادانی ہوگی۔ آپ یہ کہیں گے ہمارے سیاست دان کتب پڑھتے نہیں ، لکھتے تو ہیں ناں۔ ''چاہِ یوسف ‘‘ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی خود نوشت ہے ،اسی طرح پرویز مشرف یا دیگر سیاستدانوں کی خود نوشتوں کی مثالیں بھی پیش کریں گے تو عرض یہ ہے کہ ایسی کتابوں کا لکھاری بننے کے لئے پہلی اور آخری شرط پیسہ ہے۔ہمارے ہاں قلم کان پر رکھ کر '' کتاب لکھوالو کتاب ‘‘ کی صدائیں لگانے والوں کی کمی نہیں ،اور تو اور 
دوسروں کے لیے کالم لکھنے والے بھی عام دستیاب ہیں ۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ لکھنے والے تو بھلے کچھ نہ کچھ ملتے ہیں، پڑھنے والے پہلے سے بھی کم ہو گئے ہیں۔اب تو کالجوں ،یونیورسٹیوں میں بھی طلبا کا تمام تر انحصار، انٹر نیٹ پر ہو چلا ہے۔طلبا بھی کتا ب سے دُور ہو رہے ہیں۔ہمیں کانفرنسوں اورسیمیناروں میں کتاب دوستی اور کتب بینی کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔الیکٹرانک میڈیا کو فروغ ِ کتب کے لئے زیادہ سے زیادہ پروگرام پیش کرنے پڑیں گے۔کیونکہ کتاب سے بڑھ کر دُنیامیں کوئی اچھا دوست نہیں۔ ہمیں شہروں اور قصبوں میں، لائبریریوں کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ ، فوڈ سٹریٹس کی بجائے بُک سٹریٹس بنانی ہوں گی تاکہ ہم ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں ،جس کے وزیر اعظم اپنی گفتگو اور تقاریر میں نئی آنے والی کتب کے حوالے دیتے نظر آئیں ، وزیر مشیر کتابوں کی باتیں کرتے دکھائی دیں۔گٹار،بندوق یا کلاشنکوف کی بجائے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب دینا ضروری ہے۔اسی سے برداشت ،رواداری ،امن اور محبت فروغ پاسکے گی۔ورنہ بے روزگار نوجوان ، ڈاکے ڈالتے ، بھتہ لیتے اورکالجوں ،یونیورسٹیوں کے طلبا سڑکوں پر بسوں کو آگ لگاتے یاون ویلنگ کرتے نظر آتے رہیں گے۔جب کتب بینی ہماری زندگی کا مکمل حصہ بن جائے گی تو کسی امریکی صدر کی کتب بینی ہمارے لیے خبر نہیں ہو گی۔آئیں اور کتابوں سے دوستی شروع کریں۔کیا خیا ل ہے آپ کا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں