چند برس پہلے ہم نے فیض کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا ۔ ہوا یوںتھا کہ ماڈل ٹائون قبرستان میں واقع فیض کی قبر کی تصویر شائع ہوئی تھی۔نجانے فوٹو گرافر قبرستان میں کیا لینے گیا تھا؟ممکن ہے قبرستانوں کے محقق ہمارے دوست ایم آر شاہد نے اُسے بھیجا ہو، ایم آر شاہد قبرستانوں کی قبروں اور کتبوں پر تحقیق میں اچھا خاصا نام کما چکے ہیں۔ یار لوگ انہیں '' قبرستانی محقق ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہاں تو جب فیض کی قبر کی خستہ حالی اور اس پر جانوروں کے پھرنے کی تصاویر شائع ہوئیں تو ہم نے محبانِ فیض کو یاد دلا یا تھا کہ شاعر کے میلے اور دن منانے کے ساتھ ساتھ اس کی مرقد کا خیال بھی رکھا جائے۔ممکن ہے اب فیض کی مرقد کے ارد گرد کوئی باڑ لگوا دی گئی ہو مگر اُس وقت تک فیض کی قبر کی حالت واقعتاً نا گفتہ بہ تھی۔انہی دنوں روسی سکالر ڈاکٹر لڈ میلا اے سیلوا بھی آئی ہوئی تھیںاور الحمر ا میں فیض کے حوالے سے ایک یاد گار تقریب منعقد کی گئی۔ صدارت‘ مرحو م حمید اختر کر رہے تھے۔ڈاکٹر لڈمیلا اے سیلوارشین اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل سٹڈیز کے شعبہ مشرقی ادب سے بطور سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ تھیں۔اس تقریب میں ڈاکٹر لڈ میلا بے نظیر بھٹو کے لہجے میں، مگر قدرے بہتر اردو بول رہی تھیں۔حاضرین اُن کے لب و لہجے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔فرما رہی تھیں:
''علامہ اقبال مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے۔اور مشاعرے میں ایک نوجوان شاعر اپنے استاد صوفی غلام مصطفی تبسم کی وساطت سے '' اقبال‘‘ کے عنوان سے نظم پڑھ رہا تھا۔اس وقت کسی کو خبر نہ تھی یہ شر میلا اور کم گو نوجوان اپنے وقت میں عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کے نام سے جانا جائے گا، یہ تھا، فیض کی شاعری کا آغاز‘‘۔ آگے چل کر ڈاکٹر لڈ میلا فیض اور اقبال دونوں کو الگ الگ نظریاتی شاعر ثابت کرنے لگیں۔ ڈاکٹر لڈ میلا نے کہا۔ ''روس میں فیض کے کلام کاترجمہ اس لیے زیادہ مقبول ہوا کہ وہاں بولنے پر پابندی تھی اور ادیب و شاعر حکومت کے خلاف بولنے سے قاصر تھے؛ جبکہ فیض‘ نظریاتی حوالے سے‘ روس کے حکومتی حلقوں میں پسند کیے جاتے ہیں۔سو روس کے شعرا نے دھڑا دھڑ فیض کا کلام روسی زبان میں ترجمہ کر کے گویا اپنے دل کی خوب بھڑا س نکالی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ فیض کی شاعری روسی عوام کے دلوں کی ترجمان بن گئی اورفیض روس میں مقبول ہو گئے۔ اب توکئی لوگ فیض کو روسی شاعر سمجھتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر لڈ میلا ہماری معلومات میں اضافہ کر رہی تھیں‘ '' فیض اور ایلس کا نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا اور یہ وہی نکاح نامہ تھا جس پر علامہ اقبال نے نظر ثانی کی تھی۔وہ یوں کہ ایم ڈی تاثیر کی بہن کی شادی کا نکاح فارم علامہ اقبال کا نظر ثانی شدہ تھا۔اسی نکاح نامے سے فیض بھی شادی شدہ ہو گئے۔‘‘
ہمیں یاد ہے ڈاکٹر لڈ میلا کا وہ لیکچر نہایت پر اثر تھا، لاہور کے چنیدہ ادیبوں اور شاعروں کا اجتماع ہمہ تن گوش تھا۔ اصولاََ توکسی صدارتی خطبے کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر صدارت فیض کے دوست حمید اختر کریں تو وہ چپ کیونکر رہیں۔مرحوم حمید اختر بھی اپنے دوست کی انسان دوستی، امن پسندی اور بڑائی پر کافی دیر بولتے رہے ،کہا: ''فتح محمد ملک نے فیض کے خلاف کے کئی مضامین لکھے مگر فیض ایسے انسان تھے کہ جب پاکستان تشریف لائے تو ہم نے دیکھا فتح محمد ملک فیض صاحب کے قدموں میں بیٹھے ہیںاور فیض صاحب ان کے لیے کوئی سفارشی ٹیلی فون کر رہے ہیں۔یہ تھی فیض کی انسان دوستی۔وہ اپنے مخالفین کے لیے بھی محبت کے جذبات رکھتے تھے‘‘
عزیز قارئین ! آج اگر فیض صاحب زندہ ہوتے تو فتح محمد ملک کے صاحب زادے طارق ملک کے خلاف راتوں رات کارروائی نہ ہوتی اور اگر ہو بھی جاتی تو فیض صاحب جھٹ وزیراعظم کو فون کرتے کہ طارق ملک کے پیٹ پر لات نہ ماری جائے۔ اب اِس قد کاٹھ کا کوئی ادیب و شاعر بھی نہیں ہے کہ پروفیسر فتح محمد ملک کے بیٹے اور نادرا کے چیئرمین کے لئے اپنی آواز بلند کر سکے ۔کالم لکھنے والے تو لکھ رہے ہیں مگر کالم سے شاید اداروں کے سربراہ ہٹائے یا لگوائے نہیںجا سکتے۔ایچ ای سی کے سابق چیئرمین جاوید لغاری کے لئے عطاالحق قاسمی کالم لکھ چکے مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔بات فیض صاحب سے ہوتی ہوئی قدرے دور نکل آئی ہے۔حال ہی میں فیض صاحب کی محبت میں بھارت سے ممتاز اداکار نصیر الدین شاہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔انہوں نے یہاں ڈرامے پیش کیے اور فیض ہائوس کا دورہ بھی کیا۔معلوم نہیں وہ فیض کی آخری آرام گاہ پر تشریف لے گئے یا نہیں۔فیض جس روز اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے وہ دن احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ کا دن ہے۔کبھی فیض کی یاد میں ''فیض امن میلہ‘‘ بڑی دھوم دھام سے منعقد کیا جاتا تھااور اِس میں دیگر ممالک اور پاکستان کے ہر شہر سے اہلِ قلم از خود تشریف لاتے۔مگر کچھ عرصہ یہ میلہ لگتا رہا،پھر نہ جانے کیوں اجڑ گیا۔ عجیب وقت آ پڑا ہے کہ مرنے والوں کو یاد کرنے کے لیے بھی کسی کے پاس وقت نہیں۔ فیض امن میلے کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ کا پروگرام بھی ہوا کرتا تھامگر قاسمی صاحب کی وفات کے بعد وہ سالگرہ کا جشن بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔سوائے منیر نیازی کے، اہم ادیبوں شاعروں کی برسیاں خاموشی سے گزر جاتی ہیں۔عدم ،قتیل شفائی ،ظہیر کاشمیری ،سیف الدین سیف،مظفر وارثی ،احمد فراز ،شہزاد احمد اور دیگر بہت سے نامور شعرا کی یاد میں شاید ہی کوئی بڑی تقریب منعقد کی جاتی ہو۔ اہلِ خانہ اپنے اپنے گھروں میں مرنے والوں کو ضرور یاد کرتے ہوں گے۔مگر شاعروں کو یاد رکھنے کے لیے اور نہیں تو حکومتی سطح پر ایسی تقریبات ضرور ہونی چاہئیں لیکن کیا کریں، ہماری حکومتیں تو قومی شاعر علامہ اقبال
کے لیے بھی کوئی ڈھنگ کی سرکاری تقریب منعقد کرنے سے معذور رہتی ہے۔فیض کے لیے تو ان کے لواحقین بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔کم از کم فیض امن میلہ ذرا سی کوشش سے عوامی سطح پر بحال کیا جاسکتا ہے،اسی طرح حبیب جالب ،منیر نیازی ،احمد فراز اور دیگر شعرا کے لیے بھی پروگرام باقاعدگی سے منعقد کرنے کے لیے ،اکادمی ادبیات پاکستان اگر اپنے فرائض یاد رکھے تو بات بن سکتی ہے کہ آخر اکادمی کا اور کیا کام ہے؟ یہ اکادمی اگر زندہ اہلِ قلم کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم مرنے والے اہلِ قلم کو ہی بہتر طریقے سے یاد کرنا شروع کر دے۔معلوم نہیں اِن دنوں چیئر مین صاحب کون ہیں؟کیا ہی اچھا ہو کہ نادرا کے چیئر مین کو چھوڑ کر حکومت ادبی اداروں کے سربراہوں کی تعینا تی پر بھی توجہ دے اور یہاں کسی متحرک ( بھلے مسلم لیگی)ادیب یا شاعر کو لگا دیا جائے تو اہلِ ادب کا کچھ بھلا ہو جائے ۔مشکور حسین یاد تو حال ہی میں اپنے شاگردِ رشید وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مل چکے ہیں۔انہیں بھی کہیں بٹھایا جائے۔ پھر سالار ِغزل جناب ظفر اقبال کا بھی دم غنیمت ہے ، ان کی صلاحیتوں سے بھی حکومت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔اسی طرح جناب محمد اظہار الحق ،ڈاکٹر خورشید رضوی، کشور ناہید،ڈاکٹر انواراحمد ،اور دیگر بہت سے ممتاز اہلِ قلم میں سے کچھ صاحبان کوادبی ثقافتی اداروں میں تعینات کر کے ان اداروں کو فعال و با وقار بنایا جا سکتا ہے۔مگر نہ جانے حکومت کس انتظار میں ہے؟انتظار سے ہمیں شعر یاد آتا ہے ؎
میں اُس کا انتظار کروں گا تمام عمر
وہ رکھ کے بھول جائے گا چٹھی کتاب میں