پہلی بارمیں نے بھی جب پاک ٹی ہائوس میں قدم رکھا تھا توسامنے کی دیوار کے صوفوں پر جناب اسرار زیدی کے پاس بیٹھا تھا۔جی ہاں اس درگاہ کے حقیقی '' مجاور ‘‘ اسرار زیدی ہی تھے۔انتظار حسین نے اسرار زیدی کے حوالے سے بجالکھا ، وہ اقتباس آپ بھی پڑھ لیں :
'' وہ جو دیوار سے متصل نشست سے چپکے ایک بزرگ بیٹھے ہیں،چھریرا بدن،کمر قدرے جھکی ہوئی، جانے کب سے یہاں جمے بیٹھے ہیں ،کتنے زمانے سے انہیں اسی نشست پر اسی انداز سے بیٹھا دیکھتا آرہا ہوں۔شاید اتنے زمانے سے بیٹھے بیٹھے تھوڑی پھپھوندی بھی لگ گئی ہو،یہ اسرار زیدی ہیں۔ نہ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے کھیلتے ہیں۔پھر بھی ان میں کوئی جادوتو ہے کہ عقیدت مند دُور دُور سے کھنچ کر ان کے پاس بیٹھے ہیں۔ان کی ٹیبل سمجھو کہ ''آستانہ عالیہ‘‘ ہے، بندگان ِدرگاہ ٹی ہائوس میں داخل ہو کر پہلے پہلے اِسی آستانے پر ماتھا ٹیکتے ہیں ۔جسے نظر بھر کر دیکھ لیتے ہیں اسے حلقہ میں اقتدار مل جاتا ہے۔اس لئے حلقے کے الیکشن کے دنوں میں ان کے گرد زیادہ جمگھٹا رہتا ہے‘‘
درج بالا سطور سے سبھی سو فیصد اتفاق کریں گے۔ کچھ روز قبل ، میں ایک عرصے بعد ٹی ہائوس گیا تو میری آنکھیں سامنے کی دیوار کی نشستوں اور پھر ان پر براجمان اسرا رزیدی کو تلاش کرتی رہیں، کچھ لمحوں کے لیے میں ماضی کی دھندلکوں میں کھو گیا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا لاہور آیا تھااور پاک ٹی ہائوس اہلِ قلم کے لیے ''گوشہ عافیت ‘‘ ہوا کرتا تھا۔قریب ہی چائینیز لنچ ہوم ،کیپری ریسٹورنٹ بھی ہوتے تھے۔ٹی ہائوس کی لائٹ آف ہوتی تو بیٹھنے والے سمجھ جاتے کہ یہ ٹی ہائوس سے کوچ کرنے کا اشارہ ہے۔دھیرے دھیرے ٹی ہائوس کی میزیں خالی ہو جاتیں۔ پھر بھی کچھ دیر دروازے پر ہی جمگھٹا رہتا اور پھر آہستہ آہستہ ادیب شاعر کچھ گھروں کو اور کچھ کیپری یا پرانی انارکلی کے چائے خانوں کو نکل جاتے۔
پاک ٹی ہائوس تو دن میں بھی کھلا رہتا تھا مگر چار، پانچ بجے ادیب شاعر کشاں کشاں ٹی ہائوس کی طرف چلے آتے۔آغاز میں جو دوشخص یہاں قدم رکھتے اُن میں زاہد ڈار اور اسرار زیدی ہوا کرتے تھے جو پانچ سے رات ساڑھے نو بجے تک برابر، ٹی ہائوس میں موجود رہتے۔
اسرار زیدی آتے ہی سیدھے سامنے کی دیوار کے ایک کونے میں اپنی نشست پر جا بیٹھتے ،وہ خاموشی سے سگریٹ پیتے رہتے۔کوئی ملنے والا آجاتا تو مختصراََ حال احوال بھی پوچھتے اور پھر خاموش ہو جاتے ۔ان کے پاس ہجوم بھی ہوتا تو بھی زیادہ بات چیت نہیں کرتے تھے۔ٹی ہائوس بند ہونے کے بعد وہ دھنی رام روڈ انار کلی کی طرف چل پڑتے۔ وہ اسی سڑک پر ایک چوبارے میں رہتے تھے۔اسرار زیدی ایک ہفت روزہ میں لاہور کی ادبی ڈائری بھی لکھتے اور بہت کم ایسا ہوتا کہ ان کی ڈائری میں حلقہ ارباب ذوق کے ہفتہ وار اجلاس کی کارروائی شامل نہ ہو۔
اسرار زیدی 6 نومبر 1925 ء میں مشرقی پنجاب کے ایک دُور افتادہ قصبے حسین پور میں پیدا ہوئے ۔وہ بتا یا کرتے کہ اُن کے جدِ امجد سید رحمت علی ،ریاست گوالیا ر کے گورنر جبکہ دادا سید غلام حسین زیدی اسی ریاست کے محکمہ پولیس کے چیف تھے ۔قیام پاکستان کے وقت ان کا خاندان ساہیوال میں آباد ہوا۔ان کے والد ممتاز احمد زیدی محکمہ ڈاک میں ملازم ہوئے اور چیف پوسٹ ماسٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔اسرا ر زیدی نے اینگلو عریبک کالج دہلی سے بی اے کیا۔شاعری اور صحافت کے شوق نے انہیں سرکاری ملازمت سے ہمیشہ دُور رکھا ۔وہ زمانہ طالب علمی ہی میں دہلی کے روزنامہ ''جمہور ‘‘ اور ماہنامہ '' جمالستان ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔پاکستان بننے کے بعد ساہیوال میں روزنامہ '' خدمت ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو گئے۔1958ء کے مارشل لاء میں جب '' خدمت ‘‘ بند ہوا تو اسرار زیدی لاہور آگئے، یہاں انہوں نے روزنامہ احسان، ہلال پاکستان، امروز اور آزاد میں صحافتی خدمات سر انجام دیں۔ پھر1970ء میں کراچی کے ہفت روزہ سے ادبی کالم نگار کے طور پر منسلک ہو گئے۔
اسرار زیدی ایک ترقی پسند شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔بتایاکرتے کہ : '' ٹی ہائوس میں فیض صاحب اگر کبھی تشریف لاتے تو یہیں میرے پاس تشریف رکھتے تھے۔ ‘‘
ایک بار کسی انگریزی اخبار کے ایک کالم نگار نے غلطی سے ، اپنے کالم کے آخر میں اسرار زیدی کی اچانک رحلت کا ذکر کردیا، سب سے پہلے ادبی جریدہ ''تخلیق ‘‘ کے مدیر اظہر جاوید کو پتہ چلا،انہوں نے کئی لوگوں سے رابطہ کیا‘ آخر کسی نہ کسی طرح حقیقت کھل گئی۔انتقال کی خبر غلط تھی۔اسرار زیدی کو گھر سے ''تخلیق‘‘ کے دفتر میں لایا گیا۔کوئی کیک لایا ،کوئی پھول اور سبھی خبر غلط ہونے کی خوشی میں اسرار زیدی کو اپنے قریب پا کر خوش ہوئے ۔اظہر جاوید نے تجویز دی کہ باقاعدہ تقریب منعقد کی جائے تاکہ سب دوستوں کو اس میں مدعو کر کے چھپنے والی خبر کی تردید کی جائے۔مال روڈ پر شیزان ،اُس وقت ادبی تقریبات کے لیے بہت مشہور تھا‘ سو وہا ں اسرار زیدی کے لئے باقاعد ہ تقریب منعقد ہوئی جس میں شہر بھر کے اہل ِقلم شریک ہوئے۔
اسرار زیدی اور پاک ٹی ہائوس لازم و ملزوم تھے مگر جب پاک ٹی ہائوس ، ٹائروں کی دکان میں تبدیل ہوا تو اہل قلم میںسے، سب سے زیادہ متاثر اسرار زیدی اور زاہد ڈار ہوئے۔انتظار حسین اور ان کے احباب شاکر علی میوزیم جا بیٹھے۔بہت سے پرانی انار کلی اور کئی ناصر باغ کیفے چلے گئے۔حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس ٹی ہائو س کے فٹ پاتھ پر بھی ہوتا رہا۔کبھی کبھی اشرف سلیم ، سلمان صدیق، اشفاق رشید ،اسرار زیدی کو ناصر باغ لے آتے ۔ وہ اکثر ٹی ہائوس کی بندش کے دکھ کا اظہار کیا کرتے۔ذاتی نام و نمود سے بے نیاز درویش منش اسرار زیدی نے زندگی بھر قلم سے رشتہ برقرار رکھا۔انہوں نے چار شعری مجموعے تخلیق کرنے کے علاوہ علامہ اقبال کی شاعری کی شرح بھی لکھی۔
اسرار زیدی مزید زندہ رہتے تو آج کے ٹی ہائوس کو دیکھ کر افسوس کرتے۔نیا ٹی ہائوس،نام کا پاک ٹی ہائوس ہے۔اب نہ وہ پہلے سا ماحول ہے نہ چائے نہ وہ لوگ۔ٹی ہائوس کے بند ہونے پر کتنے ہی کالم لکھے گئے۔اکثر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ٹی ہائوس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ آتا رہتا ہے۔جس کے سبب، حکومت نے خود اسے پہلے سے زیادہ '' آرائشی ‘‘ کرد یا ہے۔میڈیا کے سبب ، ٹی ہائوس اب نئی نسل میں بھی کافی مقبول ہو چکا ہے۔اب یہاںنوجوان لڑکے لڑکیاں زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔اہلِ قلم تو زیادہ تر،اتوار کے روز ہی نظر آتے ہیں۔ ان دنوں،غافر شہزاد حلقہ ارباب ذوق کا ہفتہ وار اجلاس بھی یہاں منعقد کرنے لگے ہیں، اِس سے اتوار کے روز پاک ٹی ہائوس میں اچھی خاصی چہل پہل ہوتی ہے البتہ ادیب، شاعر یہاں کی مہنگی چائے پر کڑھتے رہتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو ٹی ہائوس کا اوپر والا حصہ صرف اور صرف تقریبات کے لیے مختص کر دیا جائے۔پھر اس چھوٹے سے ہال کو اسرار زیدی کے نام سے منسوب کر دیا جائے۔