رنگ لائے گیہماری فاقہ مستی ایک دن

اگر چہ اسے کچھ سنائی نہ دیتا تھامگر جب اسے پتہ چلا کہ اس کا پڑوسی بیمار ہے تو اس نے عیادت کا ارادہ کر لیا۔ اس نے سوچا کہ اگرچہ میں اس کی آواز سن نہیں سکوں گا لیکن اس کے ہونٹوں کی حرکت مجھے باور کرا دے گی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔اگر میں اسے پوچھوں گا کہ بھائی تمہارا کیا حال ہے؟ وہ جواب میں کہے گا ،میں ٹھیک ہوں۔ میں کہوں گا کہ اللہ کا شکر ہے۔پھر میں دریافت کروں گا کہ کھانے میں کیا کھارہے ہو؟ وہ جواب دے گا کہ شوربہ پھلکا، تومیں کہوں گا‘ یہ بہت مناسب غذا ہے اس بیماری میں۔ پھر میں کچھ اور سوال کروں گا مثلاً کس سے علاج کرا رہے ہو؟ وہ کسی نہ کسی حکیم یا ڈاکٹر کانام لے گا۔میں اس کے جواب میں کہوں گا ‘ وہ بہتر معالج ہے ،تمہیں اس کے علاج سے ضرور افاقہ ہوگا۔
یہ ساری باتیں سوچتا ہوا وہ بیمار پڑوسی کے پاس چلا آیا اور آتے ہی پوچھا '' بھائی تمہارا کیا حال ہے؟‘‘مریض مرض کی شدت سے تنگ آیا ہوا تھا۔اُس نے جواب دیا '' مر رہا ہوں‘‘۔ بہرے نے کہا ''شکر الحمدللہ‘‘پھر بہرے نے اگلا سوال داغ دیا اور بولا ''کیا خوراک استعمال کر رہے ہوبھائی؟‘‘مریض اس کے پہلے جواب کے غصے میں تھا، جھٹ سے بولا ''زہر‘‘۔ بہرے نے کہا ''یہ نہایت مناسب غذا ہے بیماروں کے لیے‘‘۔بہرے نے ساتھ ہی ایک اور سوال کر دیا تھا تاکہ اس کے بہرے پن کا بھید نہ کھل جائے‘ بولا ''کس معالج سے علاج کرا رہے ہو؟‘‘مریض نے جل بھن کر جواب دیا '' ملک الموت سے‘‘۔ بہرا فوراََ بولا: ''وہ بہت اچھا معالج ہے۔‘‘
اس کے بعد بہرا گھر لوٹ آیا‘ اِس اطمینان کے ساتھ کہ اس نے حقِ ہمسائیگی بطریقِ احسن ادا کر دیا‘ جبکہ مریض سخت ناراض تھا کہ میرا پڑوسی ہو کر میرا خیر خواہ ہونے کی بجائے نجانے کیوں دشمن بن گیا ہے۔
اِس حکایت سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے لوگ عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالی کو راضی کرنے اور ثواب کے حصول کی امید رکھتے ہیں۔لیکن وہ حقیقت میں عبادت یا نیکی ہر گز نہیں کرتے۔بہت سا ایسا پانی جسے ہم صاف سمجھتے ہیں، اکثر صاف نہیں ہوا کرتا،بالکل اُس بہرے شخص کی مانند جسے یہ کامل یقین تھا کہ اس نے نیکی کا کام کیا حالانکہ وہ نیکی نہیں بلکہ برائی تھی کہ اس نے ایک مریض کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور اُسے آزردہ کیا۔ ہماری حکومتیں بھی بہت سے ایسے فیصلے کرتی رہتی ہیں جو ان کے خیال میں بہت مفید ہوتے ہیںمگر دراصل ان فیصلوں کا انجام آخر کو نہایت بھیانک ہوتا ہے۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں بجلی پیدا کرنے والے اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا۔اس وقت بجلی فی یونٹ پیسو ںمیں ہوا کرتی تھی۔اس وقت اخبارات میں اس اندیشے کی گونج سنائی دیتی رہی کہ واپڈا اور دیگر بجلی کے اداروں کی نجکاری سے بجلی بہت مہنگی ہو جائے گی۔ ویسا ہی ہوا۔ دیکھ لیںآج ساری قوم لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی کے عذاب میں مبتلا ہے۔غریب لوگ ہی نہیں‘ کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ بھی دوگنا بجلی بل وصول ہونے پر سیخ پا نظر آتے ہیں۔کاش مہنگائی کا براہِ راست اثر متمول لوگوں اور خاص طور پر حکمرانوں پر بھی پڑے کہ انہیں غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کی اذیت اور دکھ کا احساس ہو سکے۔ہم تو اپنے سیاستدانو ں کے بیانات پر حیران ہوتے ہیں کہ ان میں سے بہت کم مہنگائی کی مذمت کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کئی ماہ کی سر توڑ کوشش کے بعد بالآخر اپنی پسندیدہ '' چیئر مینی‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔وہ امریکہ مخالف بیان تو دیتے ہیں مگر انہوں نے بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ سبزیوں‘ دالوں کے مہنگا ہونے پر کبھی کوئی احتجاجی مظاہر ہ نہیں کیا۔عمران خان اگلے چند روز میں شاید پہلی بار مہنگائی کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کرنے والے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے دیگر ایشوز کو ایک طرف کر کے عوام الناس کے حقیقی مسائل پر احتجاج کرنا چاہیے۔پی پی کی حکومت کے اختتام پر عوام الناس پُرامید تھے کہ آنے والی حکومت لوڈ شیڈنگ ختم کرے گی، مہنگائی‘ بے روزگاری اور کرپشن کو لگام دینے پر توجہ دے گی مگر پی پی والوں نے جہاں سے کام ختم کیا تھا ،مسلم لیگ ن کی حکومت نے وہاں سے آغاز کیا ہے۔ڈالر پٹرول تو ایک طرف، ٹماٹر کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے ہیں۔اور اب نوجوانوں کی قسمت سنوارنے کا زبردست فیصلہ کیا گیا ہے اور انہیں مقروض ہونے پر تیار کر لیا گیا ہے۔قرض ایک لعنت ہے اور پھر سود کم ہو یا زیادہ ،جائز کیونکر ہو سکتا ہے؟ کروڑوں روپے امیروں کے بچوں اور عزیزوں کو دے دئیے جائیں گے جبکہ بے چارے غریب نوجوان ، ضمانت دینے والوں کو ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔پیسہ پیسے کو کماتا ہے۔ یہ قرضے بھی وہی حاصل کریں گے جن کا سیاسی اثرورسوخ ہو گااور بغیر منصوبہ بندی کے ،لاکھوں کے قرضے دینے سے کیا معیشت میں توانائی آجائے گی؟پیلی ٹیکسی اورسستی روٹی سکیم جیسے منصوبوں کا حشر سب کے سامنے ہے۔قرض ہی ضروری تھا تو سود کے بغیر دیا جاتا اور اس سلسلے میں اخوت جیسی منصوبہ بندی کی جاتی ۔ہم نے قرضہ لینے کے لیے تیار دو چار نوجوانوں سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ کسی نے کوئی پلاننگ نہیںکی۔کوئی قرضے کی رقم بینک میں رکھ کر منافع حاصل کرنے کا متمنی ہے تو کوئی ویزہ خرید کر بیرونِ ملک قیام کرنے کی آرزو رکھتا ہے۔ البتہ ایک نوجوان یہ کہہ رہا تھا کہ میں تو ماسک بنانے کا کارخانہ لگانے کا ارادہ رکھتا ہوںکہ آنے والے دنوں میں ماسک کا کاروبار چمکنے والا ہے۔ہم نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ حکومت نے دہشت گردی کے لیے بنائی جانے والی عدالتوں کے ججوں اور وکلا وغیرہ کو ماسک پہن کر عدالت لگانے کا مشورہ دیا ہے۔اس مشورے کو محض عدالتوں کے ججوں اوروکلا تک محدود نہ سمجھا جائے۔یہ ایک عمدہ آئیڈیا ہے جس سے جرائم پیشہ افراد کے علاوہ کرپشن کرنے والے ہو ں یا بھتہ مافیا کے لوگ، سبھی مستفید ہوں گے۔
آنے والا دور اپنی شناخت چھپانے کا دور ہے۔اداکار ، سیاستدان اور دیگر نامور حضرات، اپنی شناخت سے بچنے کے لیے، ماسک استعمال کیا کریں گے تاکہ وہ عوام یا کسی بھی قسم کے خودکش حملے سے محفوظ رہ سکیں۔اس ذہین نوجوان کی باتیں پہلے تو ہمیں طنز کے نشتر محسوس ہوئیں مگر غور کیا تو اس کا آئیڈیا بہت ہی معقول لگا، اصل میں یہ آئیڈیا تو ہمارے ادب دوست وزیراعظم کی طرف سے صرف ججوں کے لیے آیا تھا مگر اب اس کے کئی افادی پہلو سامنے آرہے ہیں۔اس نوجوان کو اگر قرضہ مل گیا تو یقینا وہ ماسک بنا کر جلد اس متمول ماسک پوش مخلوق میں شامل ہو جائے گاجو غریب عوام کا خون چوس کر اپنے بیرونِ ملک بینک بیلنس میں اضافہ کر رہی ہے۔ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی سیاسی لیڈر ماسک پہن کر کارنر میٹنگز اور جلسوںمیں حصہ لیا کریں گے۔اِن دنوں دیہات میں گلی گلی بلدیاتی امیدوار لوگوں کی ہمدردی اور دلجوئی کے لیے مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔اگلے روز ہم گائوں گئے تو سائیں مسکین کے ڈیرے پر بھا طفیل بتا رہے تھے کہ ہمارے قریبی علاقے کے بلدیاتی امیدوار نے پچھلے جمعہ کو جب لوگوں کا ایک اکٹھ دیکھا تو سوچا یہ گائوں بھی اپنے حلقے میں آتا ہے ، چلو فاتحہ پڑھ لیتے ہیں، اس کے ہمراہ دو تین کارکن بھی تھے۔ فاتحہ کے بعد وہ مرنے والے شخص کی خوبیا ں اور اپنے ساتھ چند ملاقاتوں کا ذکر کر رہا تھا کہ اچانک چار پائیوں پر بیٹھے لوگوں میںسے ایک آواز آئی ''چودھری صاحب ! مرنے والی حکمداد کی پھوپھی تھی‘‘ مت پوچھیے اس متوقع امید وار کا اس وقت کا کیا حال ہوا جب سوگ کی محفل میں دبے دبے قہقہے گونجنے لگے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں