عیدِ میلاد النبیﷺ اور ہم

عید میلاد النبیﷺ مسلمانوں کیلئے عالمی تہوار ہے ۔ ہمارے ہاں اب یہ عید پہلے سے بھی زیادہ بھرپور انداز میں منائی جانے لگی ہے بلکہ اب تو عید میلاد النبیﷺ ہو یا محرم الحرام ، چاند نظر آتے ہی محافل شروع ہو جاتی ہیں۔ البتہ ہمارے ہاں جلسے جلوسوں کا اہتمام قدرے زیادہ ہے۔ جبکہ مصر میں اسے ایک اور انداز میں منایا جاتا ہے بالکل ہمارے ہاں کی عید الفطر کی خوشیوں کی طرح... وہاںربیع الاول کے چاند کے ساتھ ہی دکانوں اور سٹوروں پر تحائف کے پیکٹ ڈھیروں میں دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ اسی طرح کے پیکٹ رمضان سے ایک ہفتہ قبل بھی دکانوںاور بازاروں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔عید میلاد النبیﷺ کے روز مٹھائیوں اور بیکری کی دکانوں پر رش دیدنی ہو تا ہے ۔ لوگ مٹھائی کے ڈبے اور کیک اٹھائے ایک دوسرے کے گھروں کو جاتے نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کو عید میلاد النبیﷺ کی مبارک باد دیتے ہیں ۔ وہاں مساجد میں قرآن خوانی اور درودوسلام کی محافل بھی ہوتی ہیں ۔مگر سڑکوں پر جلسے اور جلوسوں کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ مستحق اور غریب و مساکین کی امداد کیلئے سستے بازار بھی لگائے جاتے ہیں تاکہ ہر شخص آسانی کے ساتھ عید منا سکے۔ رمضان میں بھی بالکل یہی صورتحال ہو تی ہے۔ '' رمضانی تحفے‘‘ کے پیکٹوں میں ، گھی ، چینی ، کھجور اورڈرائی فروٹ شامل ہوتے ہیں اور ہر شخص ضرورت مندوں کے علاوہ تحفے کی صورت میں یہ ''گفٹ پیک ‘‘ پیش کرتا نظر آتا ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ کی آمد کی خوشی ، روایتی عید سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں صرف قرآن خوانی ، ذکر ،اور درودوسلام ہی نہیں نعتیہ محافل بھی کثیر تعداد میں منعقد کی جاتی ہیں ۔مگر وطن عزیز ان دنوں سکیورٹی کے بے پناہ خطرات میں گھرا ہوا ہے ۔ محرم اور عید میلاد النبیﷺ یا دیگر ایسے جلسے جلوسوں پر خودکش حملوں کے خطرات بھی ہوتے ہیں ۔ ان جلسے جلوسوں کی سکیورٹی کے حوالے سے حکومت کو جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں، حکومت کو موبائل سروس بند کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ایسے اجتماعات پھر بھی باقاعدگی سے منعقد کیے جاتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم سب غور کریں تو ایسی محافل سڑکوں گلیوں اور بازاروں کی بجائے چار دیواری تک محدود کر سکتے ہیں اور عید میلاد النبیﷺ کی خوشیاں دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کر کے دوبالا کی جا سکتی ہیں ۔ جلسے 
جلوسوں پر کئی بار خود کش حملے ہو چکے ہیں ،کتنے ہی سکیورٹی اہلکار اور شرکاء ان اجتماعات میں شہید ہو چکے ہیں مگر ایسی محافل کیلئے کوئی مناسب منصوبہ بندی یا انتظام سامنے نہیں آتا۔ ہم سب سے زیادہ محبت اپنے نبی پاک رحمتِ دوجہاں حضرت محمد ﷺ سے کرتے ہیں ، اُن کی احادیث کے حوالے بھی دیتے ہیں ،اُن پر درودوسلام بھیجتے ہیں مگر آپﷺ کے اسوۂ حسنہ کو خود پر لاگو نہیں کرتے ۔حضورﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے ۔ ہم یہ تو بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ کھانے کے بعد اپنی انگلیاں چاٹ لیتے تھے مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنی پلیٹ میں کتنا کھانا ڈالتے اور کھاتے تھے ۔ ہم ان کے طرزِ زندگی پر کبھی دھیان نہیں دیتے۔ برائلرکھا کھا کر ہمارے پیٹ باہر نکل آئے ہیں اور توندوں نے ہماری شخصیت کو بھدا کر دیا ہے ۔ مگر کھاتے ہوئے ہم اپنا ہاتھ نہیں روک سکتے ۔ فضول خرچی میں وقت سے لے کر پیسے تک میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ قناعت ، سادگی اور حق گوئی سے ہمار ا دور کا واسطہ نہیں رہا ۔ہم دن بھر تین انچ کی زبان سے چھ فٹ کے انسان کے ''بخیے ‘‘ ادھیڑتے رہتے ہیں ، ہم اپنی کہی بات پر خود کان نہیں دھرتے کہ آخر ہم منہ سے کیا کہہ رہے ہیں اور سننے والے پر کیا گزر رہی ہے۔ہم کاروبارِ حیات میںحضورﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل نہیں کرتے ۔ رمضان ہو عیدین ہو ںیا کوئی اور خوشی کا تہوار ، منافع کمانے والے پہلے سے بھی زیادہ منافع کماتے ہیں ۔ یہی نہیں جعلسازی اور ملاوٹ کے ذریعے مال بناتے ہیں اور پھر رمضان کا آخری عشرہ مدینے میں گزارتے ہیں، اِسی دولت سے ہم ہر سال حج کرتے ہیں ، خودنمائی اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کیلئے بڑی بڑی مذہبی محافل سجاتے ہیں ۔کیا یہی رقم مساکین اور غرباء کیلئے خاموشی کے ساتھ خرچ نہیں کی جا سکتی ؟ مگر ہم کبھی ایسا کرتے بھی ہیں تو فقط کیمرے کے سامنے۔ ہماری حرص و ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ درست کہا جاتاہے کہ'' بندے کا پیٹ قبر کی مٹی سے ہی بھرتا ہے ــــ ـ‘‘۔ ہمیں کیا کیا بیماریاں لگی ہوئی ہیں ۔ موت سے کس کو انکار ہے مگر پھر بھی اس دنیا کی لالچ سے 
جان نہیں چھوٹتی ۔ ہم عشق نبیﷺ میں گرفتا ر ہیں ، مگر کاش ہمیں کوئی کھاتا دیکھے ، کھانے پینے کی محفلوں میں ہماری پلیٹیں دیکھی جائیں ،ہم خوراک پر ہمیشہ دشمن کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور کس قدر ضائع کرتے ہیں ۔ کیا ایسی مرغن غذائوں کے بعد سکون سے عبادت کی جاسکتی ہے؟ جب سانس لینا دشوار ہو تو آپ رات کو عبادت کیلئے مصلے پر کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ ہسپتال بیماروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جعلی دوائیں بیچنے والوں کو اپنی موت یاد نہیں ہے... ہر کام دکھاوے کیلئے کرنے والے کعبے جاتے ہیں اور وہاں سے آکر مزید سخت دل ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑے علماء کرام کیسی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں مگر اپنے خلاف ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں اور ہمارے تقویٰ کا حال یہ ہے کہ اپنی حفاظت کیلئے باقاعدہ گارڈ رکھے ہوئے ہیں، کیا دنیا کمانے اور اس میں ناکو ں ناک دھنسے اور بے عملی کا مرقع بنے مبلغین کی بات میں تاثیر ہو سکتی ہے ؟قطعی نہیں ۔ بات طویل ہو گئی ہم عید میلاد النبیﷺ کے حوالے سے الحمرا آرٹس کونسل اور دوست کے زیر اہتمام سید شفقت شاہ کی منعقدہ نعتیہ محفل کا ذکر کرنا چاہتے تھے ۔ جہاں شعراء اور فنکاروں نے مل کر آقائے دوجہاں ﷺ کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔ اس نشست میں حسن عسکری کاظمی ، اعتبار ساجد ، پروفیسر رفیق احمد خان ، قائم نقوی، بابا نجمی ، ہمایوں پرویز شاہد ، در نجف زیبی،جاوید قاسم ، اعجاز فیروز اعجاز ، بشریٰ حزیں، صائمہ الماس اور راقم کے علاوہ راشد محمود (اداکار) نرمل شاہ ، صفدر ماہی ، ثمینہ اور نصرت فتح علی خان کے بھتیجے کالے خان بھاگ، شجاعت بوبی ،سمیع اکرم بلالی برادران شامل تھے۔ محفل میں ممتاز موسیقار قادر علی شگن ، گلوکار عنایت عابد اور سجاد بری اور دیگر ممتاز افراد نے بھی شرکت کی، اسی محفل کی مناسبت سے اپنے چند اشعار آپ کی نذر ہیں: 
رحمتِ باراں سے جب مہکی ہَوا صلِّ علیٰ
آسماں نے سات رنگوں سے لکھا صلِ علیٰ
میں سکوتِ حجرئہ دل میں مصلّے پر نہ تھا
رات کے پچھلے پہر کس نے کہا صلِ علیٰ
۔۔۔۔۔ 
آگہی کی وہ جو خیرات مدینے میں ہوئی
مجھ سے میری بھی ملاقات مدینے میں ہوئی
میں نے تو مصر میں چپکے سے کہا صل علیٰ
عرش پر گونج گئی بات مدینے میں ہوئی 
۔۔۔۔۔ 
میں گزرتا تو وہاں جاں سے گزرتا چپ چاپ 
یہ ہوا کیسے مدینے سے گزر جاتی ہے 
دھیان سے جاتا ہے غم بے سروسامانی کا 
جب مدینے کی طرف میری نظر جاتی ہے 
رات جب اُلٹے قدم آتی ہے دیدار کے بعد
چومنے آپؐ کے قدموں کو سحر جاتی ہے 
۔۔۔۔۔ 
آنکھیں سجود میں ہیں تو دل کا قیام ہے 
حیران ہوں کہاں پہ یہ اپنا قیام ہے 
سجدہ ضرور آئے گا اگلے پڑائو میں 
فی الحال تو یہ سارا زمانہ قیام ہے 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں