جیل کی دنیا اور باجی صادق کی باتیں

خبر تھی کہ پنجاب میں جیلوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور موجودہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو ٹھونسا جاتا ہے۔ چند روز قبل ایک محفل میں جیل پولیس کے ایک ریٹائرڈ حوالدار سے ملاقات ہو گئی۔جس نے جیل اور قیدیوں کے حوالے سے ہماری معلومات میں بے بہا اضافہ کیا۔ سترسالہ صادق ہری پور میں مقیم ہے اور اسے چھوٹے بڑے اس عمر میں بھی نہ جانے کیوں باجی صادق کے نام سے پکارتے ہیں۔باجی صادق نہایت لچھے دار گفتگو کرتے ہیں۔ہندکو کے اپنے مخصوص لہجے میں ان کی شگفتہ باتوں سے ہر وہ محفل با رونق ہو جاتی ہے جہاں وہ بیٹھ جاتے ہیں۔وہ بتا رہے تھے:'' سچی بات یہ ہے کہ جیل میں کسی سے پیسے (رشوت ) مانگتے شرم آتی تھی اور خوشی سے کون دیتا ہے۔ پھر بھی میں نے نوکری بڑے ''دھڑلے‘‘ سے کی باوجود اس کے کہ تنخواہ بے حد کم تھی۔۔۔آپ اندازہ لگائیں 1965ء میں بطور جیل وارڈن میں صرف 70روپے ماہانہ پر بھرتی ہوا تھا۔چھ فٹ قد مضبوط ڈیل ڈول اور بدن پر بہترین وردی زیب تن ہو تو افسروں کی نگاہوں سے بچنا محال ہو جاتا ہے۔سو اسی سبب میں ہر جگہ نمایاں رہتا۔میری گفتگو سے ہر شخص گرویدہ ہو جاتا تھا۔منہ پر کھری بات کر نے کی عادت بھی تھی۔بعض لوگ مجھ سے بدکتے بھی تھے۔وجہ یہ تھی کہ رشوت نہیں لیتا تھا۔اس لیے ڈیوٹی کو ڈیوٹی سمجھ کر کرتا ۔البتہ قیدیوں سے میرا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہا۔ قیدیوں میںڈسپلن کی پابندی کے حوالے سے جو بات سخت سے سخت افسر نہ منوا سکتا میں پیار، محبت اور ہنسی مذاق سے منوالیتا۔میری ملازمت کا بیشتر حصہ پاگل اور سزائے موت کے قیدیوں کے ساتھ گزرا۔ خراب ذہنی توازن کے قیدیوں کو جیل کے اندر ہی الگ بیرک میں رکھا جاتا ہے۔پاگل قیدیوں میں کثیر تعداد پڑھے لکھے افراد کی ہوتی تھی۔عشق کی ناکامی یا گھریلوصدمات سے بھی لوگ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ایسے قیدیوں کے ساتھ میری کامیاب ڈیوٹی کا راز یہ تھا کہ میں انہیں نسوار یا سگریٹ دے کر بہلا دیتا۔وہ خاموش بیٹھے رہتے یا کبھی کبھی المیہ گانے الاپتے رہتے تھے۔آپ حیران ہوں گے کہ تھانے کی طرح ایسے قیدیوں کی بیرک میں بھی خصوصی سلامی ہوتی ۔نیا پاگل قیدی بیرک میں آتے ہی سبھی اس پر چڑھ دوڑتے۔مکو ں اور تھپڑوں سے نیا قیدی بے حال ہو جاتا ۔۔بمشکل اس کو نجات دلائی جاتی۔بس آپ مرغیوں کے دڑبے والی کیفیت سمجھیں۔ دھنائی کرانے والااگلے روز کسی اور نئے آنے والے پاگل قیدی کی ٹھکائی میں شامل ہوجاتا۔جیل میں لاوارث اور عام قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔انہیں اے اور بی کلاس قیدیوں کی خدمت کا کام بھی سونپا جاتا ہے۔مشقت تو قیدیوں کے لیے لازمی ہوتی ہے۔پڑھے لکھے اَن پڑھوں کی الگ الگ مشقت ہوتی ہے۔پڑھے لکھے قیدیوں کو دوسروں کو تعلیم دینے یا دفتری معاملات کی ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔جبکہ جیل میں قالین ،دریاں بستر کی چادریں تو لیے جائے نماز سے لے کر فرنیچر تک قیدی تیار کرتے ہیں۔باجی صادق نے بتایا کہ جیل میں منشیات جن بھوت نہیں لاتے بلکہ جیل پولیس کے لوگ ہی رشوت لے کر ہر چیز اندر پہنچاتے ہیں۔ان دنوں موبائل کی عیاشی بھی ہوتی ہے۔اثرو رسوخ اور پیسے والے موبائل کارڈز منگواتے ہیں۔ایک زمانے میں فی بیرک 60قیدی ہوتے تھے۔مگر جرائم میں اضافے کے سبب گنجائش نہ ہونے کے باوجود بیرک میں 80قیدی بھی ڈال دیے جاتے ہیں۔سیاسی قیدیوں کو اے کلاس ملتی ہے، بعض سفارش اور رشوت سے کلاسیں تبدیل بھی کراتے ہیں۔ان میں 
سے کئی ہسپتال میں داخل ہو کر کسی نہ کسی مرض کا علاج کروانا شروع کر دیتے ہیں۔بیمار قیدیوں کو اچھی غذائیں ،دودھ، مکھن،انڈے بھی دیے جاتے ہیں۔جیل میں ہر قیدی کو کھانا اچھا دیا جاتا ہے۔بھٹو کے دور میں پنکھے اور فی بیرک ایک ٹیلی ویژن سیٹ کی سہولت بھی مل گئی تھی ۔باجی صادق نے بتایا کہ اس نے عزت کی نوکری کے لیے رشوت لینے کی بجائے اپنی 95 کنال زمین بھی دائو پر لگا دی۔ظاہر ہے اچھی زندگی کے لیے پیسے کی ضرورت تو رہتی ہے ۔بہترین وردی کھانے پینے اور دوستوں پر خرچ کرنے کے لیے جیب میں رقم ہو نی چاہیے سو اپنی وضع داری میں زمین بیچتا رہا۔صادق کی ملازمت کا بیشتر حصہ سنٹرل جیل ہری پور میں گزرا۔ان دنوں ملنگوں اور درویشوں کے ڈیروں پر جانے کا چسکا بھی پڑا ۔کئی درویشوں سے ملاقات رہی۔نشے بھی کیے مگر اپنی خودداری پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔کسی کی دل آزاری کبھی نہ کی۔ایک بار میری وجہ سے جیل میں الارم بج اٹھے ،ہوا یوں کہ ایک قیدی کا پتہ چلا کہ وہ بنسری بہت اچھی بجاتا ہے۔کسی سے بنسری منگوا کر اس کے حوالے کی، اس نے بنسری بجائی تو الارم کھڑک گئے۔وجہ یہ تھی کہ اسی بنسری کے سبب وہ سلاخوں کے پیچھے تھا۔اس کی بنسری کی تان پر کسی اعلیٰ افسر کی صاحبزادی اس پر فدا ہوئی ،دونوں بھاگے مگر قانون کے لمبے ہاتھوں سے بچ نہ سکے ۔دونوں پشاور جیل میں تھے۔سڑک کے اس پار وہ لڑکی بھی جیل میں تھی۔الارم بجنے سے انتظامیہ کے دوسرے لوگ آئے تو میں نے کہایہ بنسری میں نے اسے دی ہے ۔میںدیکھنا چاہتا تھا یہ کس پائے کا فنکار ہے جس کی بنسری پر لڑکیاں گھر سے بھاگ جاتی ہیں۔واقعتاً یہ بڑا سفاک فنکار ہے اس کی بنسری پر درست بین لگا ہے۔سبھی میری باتوں میں آگئے۔اس بے چارے کی جان چھوٹ گئی ورنہ اس کی کھال ادھڑ جانی تھی۔
ایسے کئی واقعات صادق باجی نے ہمیں سنائے۔آج کل وہ سات ہزار پینشن لے کر خوش ہے جیلوں کی اصلاح کے حوالے سے تجویز دیتے ہوئے اس نے کہا: '' اگر جیلوں کا عملہ درست ہو جائے تو جیل میں '' چڑی ‘‘ بھی پر نہیں مار سکتی۔منشیات اور موبائل پر مکمل پابندی لگ جائے،قانون سخت اور سب کے لئے برابر ہوجائے تو ہمارا سارا نظام ٹھیک ہو سکتا ہے۔صادق بابا نہ جانے کیا کیا تجاویز دیتا رہامگر میں اس کی اس بات میں کھویا ہوا تھا جو اس نے آغاز میں کی تھی۔: '' (رشوت) مانگتے مجھے شرم آتی اور خوشی سے تو کوئی بھی نہیں دیتا۔‘‘کیا با اختیار لوگوں کو دئیے جانے والے تحائف لوگ خوشی سے دیتے ہیں؟ غور ضرور کیجیے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں