کار واشنگ سٹینڈ پر اچھا خاصا رش تھا۔میں نے گاڑ ی لائن میں لگادی اور خود ایک طرف دھوپ میں بیٹھ گیاجہاں دواور آدمی اسی مقصد کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ادھر اُدھر کی رسمی باتوںکے بعد موضوعِ گفتگو حالاتِ حاضرہ پر جا ٹھہرا اور بات چلتے چلتے مہنگائی کی ہونے لگی۔ ایک صاحب تبصرہ کر رہے تھے:
'' بس جی کچھ نہ پوچھئے ! مہنگائی نے تو لوگوں کی مت مار رکھی ہے‘ اوپر سے بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ کے سبب ہر شخص کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔بارہ، بارہ گھنٹے بتی آتی ہی نہیں۔میں نے پوچھا : '' آپ کی مصروفیات کیا ہیں؟ ‘‘ تو ان صاحب نے بتایا : '' اب تو کچھ نہیں کرتا‘ ویسے میں نے الیکٹریکل ڈپلومہ حاصل کر رکھا ہے۔پانچ برس بحرین میں رہ کر کچھ عرصہ قبل ہی میری واپسی ہوئی ہے ۔پانچ برسوں میں ،دن رات محنت کر کے ایک کروڑ روپیہ کمایا۔سوچا اب تو وارے نیارے ہو جائیں گے ۔وہ تو جی پاکستان آتے ہی آنکھیں باہر آگئیں۔یہاں کی مہنگائی نے ہمیںدن میں تارے دکھا دئیے۔ بہ مشکل پچاسی لاکھ کا گھر خریدا ، باقی رقم کتنی بچتی تھی ایک چھوٹی جاپانی گاڑی ''میرا‘‘ ہی پر اکتفا کیا ۔ یہ میںاسے ہی سروس کرانے لایا ہوں۔ آٹھ لاکھ تو اسی کی قیمت ہے۔اب میرے جیسے '' نومولودکروڑ پتی ‘‘ کے پاس پٹرول کے لیے بھی پیسے مشکل سے نکلتے ہیں۔بڑی شرم محسوس ہوتی ہے جب پٹرول پمپ پر پانچ سو کا پٹرول ڈلواتا ہوں ۔ اِس سے زیادہ پٹرول افورڈ ہی نہیں ہوتا۔یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ بیٹے کی ملازمت لگی ہوئی ہے ورنہ گھر کا چولھا جلانا بھی ایسے کروڑ پتی کے لیے دشوار ہو جاتا‘‘۔
وہ بے تکان اپنا کرب بیان کیے جارہا تھا۔سر جی ! میں تو حیران ہوں جن لوگوں کے پاس کرائے کے چھوٹے چھوٹے مکان ہیں۔ بجلی ،گیس کے بغیر کیسے گزر کرتے ہوں گے۔ہم نے تو خیر '' یو پی ایس‘‘ بھی لگوایا ہوا ہے اور کم از کم موم بتی اور لالٹین سے نجات ملی ہوئی ہے۔ایک ہیٹر بھی چلا لیتے ہیں مگر وہ بے چارے جن کے پاس '' یو پی ایس ‘‘ نہیں وہ سخت سردی یا گرمی میں کیا کرتے ہوں گے؟اب ساتھ بیٹھے شخص سے نہ رہا گیا۔ جھٹ بولا : '' بھا جی ! آپ کس دور میں رہ رہے ہیں اور کون سے کروڑ پتی ہونے کی بات کر رہے ہیں؟ اِس وقت کروڑ پتی بھی غریب آدمی کہلاتا ہے۔روپے کی قدرو قیمت بالکل ختم ہو گئی ہے۔ڈالر ایک سو سات روپے کا ہو چکا ہے۔لہٰذا اگر اِس بات کو مدِ نظر رکھیں تو کروڑ روپے تیس لاکھ ہی کے برابر ٹھہرتے ہیں۔اب تو کروڑ پتی بھی بس گزارا ہی کیاکرتے ہیں۔یہ جو کرپشن کی باتیں عام ہیں۔ کرپشن نہ کریں توآخر کرپٹ لوگ اورکیا کریں؟مہنگائی میں بھی تو دو سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ آخرانہوں نے بھی اپنا سٹیٹس بحال رکھنا ہے۔سکیورٹی پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔نوکر چاکر ،پی آر پر بھی لاکھوں خرچ ہوتے ہیں۔ان
سب باتوں کے بعد وہ بھی ہماری طرح بے بسی کا رونا روتے ہیں۔جب خرچے پورے نہیں ہوتے تو وہ رشوت اور کرپشن کے دیگر ذرائع کی طرف دھیان دیتے ہیں۔ابھی الیکشن کے ٹکٹوں پر لاکھوں روپے مانگے جا رہے تھے۔اپنا خرچ کر کے الیکشن جیتنا کوئی آسان کام نہیں ہے،ہر جگہ پیسوں کی بوریاں کھل جاتی ہیں ، اتنا خرچ کر کے صرف قومی خدمت کیونکر کی جا سکتی ہے؟اور کیا پارٹی ٹکٹ مفت میں مل جاتے ہیں؟جیتنے والوں نے اپنی خرچ شدہ رقوم بھی تو دو سے ضرب دے کر واپس لینی ہوتی ہیں۔ اوپر سے میڈیا والے لٹھ لے کر سیاستدانوں کے پیچھے پڑے ہیں۔سیاستدان تو معصوم لوگ ہیںـ۔‘‘
اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ بادل نخواستہ میں نے ان سے پوچھ لیا: '' بھائی جی ! آپ کیا کرتے ہیں؟ ‘‘ بولا! میں للیانی کا رہنے والا ہوں ۔ ہم زمیندارہیں کھیتی باڑی ہی دھندہ ہے۔ ابھی ایک مقدمے کے سلسلے میں کچہری سے واپس آرہا ہوں۔سوچا گاڑی کی سروس کرا لوں۔ویسے میں ضلع کونسل کا ممبر بھی رہا ہوں۔ اب میرا بیٹا ضلع کونسل کی چیئرمینی کے ٹکٹ کے لیے میا ں صاحبان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ الحمد للہ اپنا ڈیرہ ہے۔آپ کبھی تشریف لائیں۔ ویسے جی یہ ڈیرے داریاں قائم رکھنا بھی اب کوئی آسان کام نہیں رہا۔ لوگوں کی آمد پر چائے پانی پوچھنا اور تواضع کرناتو ہماری روایات کا حصہ ہے لیکن اب مہنگائی میں یہ خاصا مشکل ہو چکا ہے بس ہم بھی اپنے بزرگوں کے نام کے لئے یہ سب کچھ جاری رکھے ہوئے ہیں ورنہ دیکھا جائے تودوسروں کو کھلانا پلانا اور ان کے کاموں کے لئے بھاگ دوڑ بہت مہنگا پڑرہا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا بھائی صاحب! وطنِ عزیز کے یہ مل مالکان، زمیندار، جاگیردار ،سرمایہ دا ر اور تاجر اسمبلیوں میں جانے کے لیے آخر کس لیے بے تاب رہتے ہیں؟ کیا اِن بے چاروں کا گزارا نہیں ہوتا؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ سوداگر لوگ ہیں کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ۔ اسمبلیوں میں بیٹھنے والے بھی اپنے مفادات کے لیے قوانین بناتے ہیں تاکہ ان کی زندگی آسان ہو سکے۔
اب توسیاست بھی اپنی اور اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کی خدمت کا نام رہ گیا ہے۔ وہ بولا ! میں آپ سے اختلاف نہیں کرتا مگر دور سے یہی کچھ نظر آتا ہے ۔ آپ ان لوگوں کے مسائل سے آگاہ نہیں ہیں ، ہم تو خیر کوئی بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے مگر میرے ایک ملنے والے سیاست دان اگلے روز بتارہے تھے کہ : '' ہمیں تو اپنی خوشیاں بھی اپنے آس پاس کے لوگوں سے چھپانی پڑتی ہیں ۔نئی گاڑی پر خود سکریچ ڈال کر پھرنا پڑتا ہے تاکہ پرانی گاڑی سمجھ کر اس پر کسی اُچکّے کی نظر نہ پڑے۔ '' برانڈڈ‘‘ کپڑے پہن کر لوگ یہی بتاتے ہیں کہ لنڈے کے استعمال شدہ ہیں۔ اگر قیمتی کوئی چیز استعمال میں لائی جائے تو میڈیا کی آنکھ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ میاں صاحب کی گھڑی کا قصہ تو آپ سن چکے ہیں ۔ اب سمجھدارسیاست دان اور با اثر لوگ یہی کچھ کرتے ہیں۔ ابھی یہ باتیں جاری تھیں کہ ''میرا‘‘ کی دھلائی کا نمبر آگیا اور وہ صاحب اٹھ گئے۔ سابقہ ضلع کونسل کے ممبر صاحب کی پجارو بھی تیار تھی۔ انہوںنے بھی اجازت لے لی اورگاڑی صاف کرنے والے نوجوان کو جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے ادائیگی کی اور گاڑی سٹارٹ کر لی ۔ کار سٹینڈ کے نوجوا ن نے کارڈ مجھے دیا کہ ذرا ان صاحب کا نام پتہ پڑھ کر بتادوں، کارڈپرلکھا تھا...
''... ڈوگر...سابقہ ممبر ضلع کونسل‘‘
وزیٹنگ کارڈ کے پیچھے درج تھا : '' ڈرائیور غلام حسین میرا ذاتی ڈرائیور ہے ،تعاون کریں۔والد ایس پی...‘‘ میں نے جان بوجھ کر نام نہیں لکھے۔تعارفی کارڈ ایک سابق ضلع کونسل کے ممبر اور کسی ایس پی کے والد کا تھا اور غلام حسین ان کا ڈرائیور تھا۔