فروری میں ہمارے تین دوست بے طرح یاد آنے لگتے ہیں۔ اظہر جاوید تو عین ویلنٹائن ڈے پر ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوئے۔ اس سے قبل افضال شاہد اور عباس نجمی کی رحلت نے ادبی حلقوں کو سوگوار کر دیا تھا۔ اِن تینوں دوستوں کی وفات پر میں قاہرہ میں کُرلاتا رہا اور ان کے جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکا۔ اظہر جاوید تو اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ان کے ادبی جریدے 'تخلیق‘ کا دفترگویا دوستوں کے لیے ایک درگاہ کی طرح تھا کہ وہاں سب کے دکھوں پر کڑھنے والا ایک مخلص انسان موجود رہتا تھا۔ افضال شاہد صحافی، کمپیئر، شاعر اور کالم نگار تھا۔ میں نے اس کے ساتھ کچھ عرصہ ایک اخبار میں گزارا، وہ میگزین ایڈیٹر اور میں ادبی ایڈیشن نکالتا تھا۔ بہت ہی زندہ دل دوست تھا مگر آخری دنوں میں پی ٹی وی والوں کے رویے کی وجہ سے بہت دل گرفتہ تھا۔ حالات ایسے ہیں کہ دنیا میں حسّاس انسان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ حساس فنکار ذرا سی ٹھیس سے پھوٹ بہتے ہیں۔ عباس نجمی ان دونوں احباب سے قدرے مختلف مزاج کا دوست تھا۔ وہ ہمیشہ کھری گفتگو کرتا اور ''لحاظ‘‘ کسی کا نہ کرتا تھا‘ مگر مدثر بٹ سے اس کی دوستی مثالی تھی۔ مصر میں مجھے عباس نجمی کی وفات کی خبر ''سوشل میڈیا‘‘ کے ذریعے ملی۔ میں نے اس خبر کو کنفرم کرنے کے لیے عباس نجمی کے ایک قریبی دوست کا صفحہ دیکھا تو وہاں ایسی کوئی اطلاع نہ تھی، پھر اسلم کولسری صاحب نے آن لائن تصدیق کر دی کہ خبر درست ہے۔ اور تو کسی کا فون نمبر نہ تھا، میں نے مدثر
اقبال بٹ سے تعزیت کی۔ بٹ صاحب، عباس نجمی کے ساتھ آخری ملاقات کا حال بیان کرتے آج بھی چھلک پڑتے ہیں۔ عباس نجمی آخری دنوںمیں قوت ِگویائی سے محروم تھے۔ مدثر بٹ انہیں ملنے گئے تو گھر میں ایک نوکرانی اور عباس نجمی کے سوا کوئی نہ تھا۔ مدثر بٹ بتاتے ہیں کہ وہ باتوں کے رسیا دوست کو چُپ دیکھ کر اشکبار ہو گئے۔ وہ اپنے یارِ عزیز کی بے بسی پر روتے رہے اورعباس نجمی انہیں دیکھ کر مسکراتا رہا۔ وقت کا پتا ہی نہ چلا اور ایک سال گزر گیا۔ اچانک مدثر بٹ کی طرف سے عباس نجمی کی دوسری برسی کا کارڈ ملا تو احساس ہوا کہ ان دوستوں کو بچھڑے ایک برس بیت گیا ہے۔ دنیا میں رشتے ناتے اور اقدار عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں زندوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں مگر مدثر بٹ مرنے والے یاروں کو بھی فراموش نہیں کرتا۔ عباس نجمی کی دوسری برسی پر اس نے چن چن کر احباب اکٹھے کئے۔ کیا زبردست تقریب تھی جس میں سجاد بری اور تیمور افغانی کے پیش کردہ عارفانہ کلام نے اسے دل سوز بنا دیا تھا۔ تقریب کی صدارت کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی نے کی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا تشریف لائے تو اجمل نیازی نشست سے کھڑے ہو گئے۔ مدثر نے کہا‘ میں بھی یہی کہنے والا تھا۔ خواجہ صاحب ہم سب کے محترم ہیں۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا،
عباس نجمی کے استاد ہی نہیں بلکہ کچھ عرصہ ہمسائے بھی رہے اور عباس نجمی شہر میں اگر کسی کی عزت کرتا تھا تو وہ ڈاکٹر خواجہ زکریا تھے۔ قدرے تاخیر سے لیکن عباس نجمی نے خواجہ صاحب کی نگرانی میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ خواجہ زکریا صاحب اپنی وضع کے ایک کھرے‘ سادہ اور درویش صفت جینوئن تخلیق کار ہیں۔ انہیں کسی عہدے، شہرت اور ایوارڈ کی طمع نے کبھی بے چین نہ رکھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عباس نجمی بھی ان کے قریب رہے۔ عباس نجمی زبان کے سخت تھے مگر دل کے بڑے نرم۔ حساس ایسے کہ ہماری آج کل کی روایتی منافقت اور ریاکاری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ خورشید رضوی صاحب سے معذرت کے ساتھ مصرعہ قدرے تبدیل کر رہا ہوں ع
وہ جو زہر خند سلام تھے اُسے کھا گئے
خواجہ صاحب نے بڑی اچھی اور فکر انگیز بات کی کہ انسان کو زندگی، اپنی من موج کے مطابق بسر کرنی چاہیے جیسا کہ عباس نجمی نے بسرکی۔ اس کے دل میں جو آئی کہہ ڈالی، کبھی دل میں نہ رکھی۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ شہرت سے فائدہ دوسرے لوگوں کو ملتا ہے، مشہور ہونے والے خود اس سے کچھ حاصل نہیں کر پاتے، بھلے ان کے مرنے کے بعد کتنا ہی نام ہو مگر انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ فائدہ ان کے پیچھے والے اٹھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی اپنی فی البدیہہ گفتگو بھی کالمانہ انداز میں کرتے ہیں، بات سے بات نکالنے کا ہنر انہی کا خاصہ ہے۔ اِسی نشست میں مجھ بے خبرے کو پتا چلا کہ آپ حمید نظامی چیئر پر تعینات ہو چکے ہیں ، مبارک خبر ہے۔ اجمل نیازی نے عباس نجمی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ دوسروںکو ناراض کرنا آسان نہیں، عباس نجمی موجود تھا تو ہم سوچتے تھے کوئی تو ہے جو دوسروں کو ناراض کر سکتا ہے ورنہ یہاں تو خوشامد کا کلچر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدثر بٹ نے اسے آخری لمحوں میں دیکھا تھا، وہ ہنستا اور مدثر روتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اسے پیلاک میں نہیں آنا چاہیے تھا، وہ یہاں ''مِس فٹ‘‘ تھا۔ بیوروکریسی سے گزارا کرنا آسان نہیں ہوتا، اسی لیے بیوروکریسی کو میں ''براکریسی‘‘ کہتا ہوں۔ حسین شاد نے کہا کہ ہماری طویل سانجھ تھی، عباس نجمی اور میں نے اکٹھے پاک ٹی ہائوس جانا شروع کیا تھا۔ وہ ایک کھرا اور سُچا انسان تھا۔ صوفیہ بیدار نے کہا کہ ہم دفاتر میں فائلوں پر انگریزی میں نوٹ لکھتے ہیں مگر عباس نجمی ایسا پنجابی تھا جو فائلوں پر بھی پنجابی میں نوٹ لکھتا تھا۔ تقریب کے مہمان خصوصی گلاسکو سے آئے ہوئے ملک غلام ربانی اور سینیٹر سجاد بخاری تھے۔ انہوں نے بھی عباس نجمی کی یادوں کے حوالے سے پُراثر گفتگو کی۔ ریڈیو سے رضا کاظمی بطور خاص تشریف لائے اور عمدہ گفتگو کی۔ صغرا صدف نے ان کی پنجابی اور ادبی حوالے سے خدمات پر روشنی ڈالی۔ آمنہ الفت بتا رہی تھیں کہ انہیں پنجابی عباس نجمی نے سکھائی۔ ڈاکٹر ظہیر بابر زمانہ طالب علمی میں، عباس نجمی کے ساتھ یونیورسٹی ہوسٹل میں اکٹھے رہتے تھے، انہوں نے پرانی یادوں کو تازہ کیا اور عباس نجمی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ افتخار مجاز نے ان کی کمپیئرنگ اور پی ٹی وی کے دنوں کی باتیں بیان کیں۔ کئی دوسرے احباب نے بھی اس نشست میں اظہار خیال کیا جس میں سعداللہ شاہ، طفیل اختر، راجا نیر اور راقم شامل تھے۔ آخر میں عباس نجمی اور دیگر مرحومین کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔ حافظ ممتاز نے دعا کرائی۔۔۔ خالد شریف ناراض نہ ہوں تو میں کہوں:
بچھڑے وہ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
کچھ لوگ سارے شہر کو ویران کر گئے