آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پاہے رکاب میں
اگلے روز غالب کا دن منایا گیا،اسی مناسبت سے شعر یاد آگیا ہے۔ عمرکاگھوڑا سرپٹ دوڑ ے چلا جار ہا ہے ، ہاتھوں میں باگ ہے اور نہ پائوں رکاب میں ہیں۔ ہم اِس ہانپتی کانپتی زندگی میں رات دن کی چکی میں یوں پِسے جاتے ہیں کہ کچھ خبر بھی نہیں ہوتی۔ کچھ بھی کر لیا جائے اطمینان ، قلب کو نہیں چھوتا۔اس بھاگ دوڑ میں اعصاب شل ہو جاتے ہیںاور بندہ مَر مُک جاتا ہے۔اگلے روز ایک دوست بتا رہا تھا کہ ڈپریشن کی بیماری تیزی سے بڑھ رہی ہے اور زیادہ تر وہ لوگ اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں جو دن رات کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے جڑے رہتے ہیں یا پھر دفاترمیں حساب کتاب کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے مریضوں کے لیے کوئی بندوبست نہیںجبکہ امریکہ کے کئی ہسپتالوں میں ایسے مصروف کار افراد کی ٹینشن اور ذہنی تھکن کے لیے ایم بی ایس آر (Mindfulness Based Stress Reduction ) کے پروگرام جاری ہیں۔اس سلسلے میں اس نے ڈاکٹر جان کبَت زِن کی شہرت کا ذکرکیاجو ایسے افراد کی شارٹ کورسز کے ذریعے ٹینشن اورڈپریشن ختم کرکے انہیں ذہنی آسودگی اور مستعدی بہم پہنچاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ '' ایم بی ایس آر‘‘ پروگرام ڈاکٹر جان کبت زِ ن نے 1979ء میں شروع کیا تھا۔اب اس کے کئی مراکز کھل چکے ہیں جہاں اساتذہ اور تربیتی ماہرین 
اپنے لیکچرز اور جسمانی عملی مشقوں سے،لوگوں کو ڈپریشن سے نجات دلانے کے علاوہ ان کی ذہنی استعداد بھی بڑھاتے ہیں۔ یہ ساری گفتگو سن کر میرا دھیان اپنے صوفیانہ کلچر کی طرف جا نکلا ۔ ہمارے بابوئوںاوران کے ڈیروں پر دُکھی، پریشان اور ٹوٹے ہوئے لوگوں کی غیر محسوس طریقے سے ایسے ہی تربیت کی جاتی ہے۔ اِن درگاہوں پر دلوںکو یک گونہ سکون ملتا ہے۔ اِن ڈیروں سے ربط رکھنے والے لوگ ڈپریشن ، مایوسی اور پریشانی سے نجات پاتے ہیں، وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں فطری انداز میں انسانوں سے بے لوث محبت ، ہمدردی اور سادگی کا درس دیا جاتا ہے۔ صوفیانہ افکار دلوں میں روشن ہوں تو روح سرشار ہو جاتی ہے اور ہر قسم کا ڈپریشن تمام ہوجاتا ہے ۔ ڈاکٹر کبت زِن جیسے سائنسدان ، میسی چیو سٹ میڈیکل سینٹر امریکہ میں ہفتہ وار چھ سو پچاس ڈالر لے کر اپنے گاہکوںکو جن باتوں سے سکون پہنچاتے ہیں اور جس دھیان گیان ، مراقبے اور یوگا مشقو ں کے ذریعے ذہنی دبائوکم کرتے ہیں ، یہ سب خدمت غیر شعوری طور پر امن ، محبت ، بھائی چارے اور سادگی کا درس دینے والے ہمارے صوفیاء مفت میں سر انجام دیتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ زندگی کو ہم نے خود اجیرن بنا رکھا ہے۔ ہم اپنے اسلاف کی اقدا ر، روایات اوراخلاقیات سے بے گانہ ہو چکے 
ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق نے اپنے بیٹھنے کی جگہ دیوار پریہ عبارت کندہ کرا رکھی تھی: ''یتیم وہ نہیں جس کا باپ فوت ہوگیا ہو بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہو۔‘‘ 
آج کل علم وادب کوکسی کھاتے میں شمارنہیں کیا جاتا۔کتاب اور مطالعے کی عادت سے ہمارا دُورکا واسطہ بھی نہیں رہا اور پاک صاف زندگی گزارنے والے بزرگوں کی صحبت میں ہم بیٹھتے نہیں ۔ ہمارے ہاں لائبریریوں اورکتب خانوں کی بجائے'' کھابہ خانوں‘‘ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شام سے رات گئے تک کھانوں کے کسی بھی مرکز پر چلے جائیں، بیٹھنے کو جگہ نہیں مل پائے گی۔شام کے شاعر اور مفکرابو العلامعّری کہتے ہیںکہ : ''حیف ہے اس نفس پر جوکھانے پینے کی محبت میں ذلیل بنا ہوا ہے‘‘ 
غضب یہ ہے کہ ہمارے ہاں توکھانے پینے کی اشیاء خالص بھی نہیں ملتیں ، یعنی اگر کھانے خالص ملیں تو بھی ان سے رغبت میں اعتدال ہونا چاہیے چہ جائیکہ بندہ دو نمبر خوراک کا رسیا ہو جائے۔
بغداد میں پیدا ہونے والے عہدِ عباسیہ کے شاعر ابن الروفی کہتے ہیں:''بیشتر بیماریاں جو تمہیں نظر آتی ہیں، وہ کھانے پینے کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں‘‘۔
غورکریں، ہمارے سرکاری ہسپتال اور شفاخانے، پرائیویٹ کلینک، حکیموں کے مطب، ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی علاج گاہیں اور عطائیوں کے ڈیرے، ہرجگہ مریضوں کی کثرت ہے۔ نفسیاتی اور اعصابی مریض اس کے علاوہ ہیں۔ رات دن کی بھاگ دوڑ اور ذہنی کام کرنے والوں میں تنائو اور ڈپریشن کی شکایات نسبتاًزیادہ پائی جاتی ہیں ، مگر ہم ہیں کہ اپنی صحت پر بہت کم توجہ دیتے ہیں ، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جب پانی سر سے اونچا ہو جائے تب ہم ''چیک اپ‘‘ کے لیے نکلتے ہیں ۔ ہم اپنی روزمرہ کی خوراک پر قطعاً غور نہیں کرتے ۔اگر ہم سادہ غذا کی عادت اپنائیں، سہل پسندی اور سستی سے نجات پا لیںاوراس کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشوں کی لگامیں کھینچ کر رکھیں تو ہم کبھی ڈپریشن ، مایوسی اورتنائوکا شکار نہیں ہو سکتے اس لیے کہ ہماری خوراک کے اثرات ہماری سوچ، فکر اور مزاج پراثراندازہوتے ہیں ۔ بھگت کبیرکا شعر ہے ؎ 
جیسا اَن جل کھائیے، تیسا ہی مَن ہووے
جیسا پانی پیجئے، تیسی بانی ہووے
یعنی جیسا دانہ پانی (اناج) کھایا جائے ، دل یا مزاج بھی ویسا ہوتا ہے۔اور جیسا پانی پیا جائے وہی ہماری گفتگو بنتی ہے۔ رب ِذوالجلال سے اشیاء کی حقیقت کا علم مانگنا چاہیے۔کھانے پینے کی اشیاء بِن سوچے سمجھے اور بے دریغ استعمال کرنا دانائی نہیں ہوتی ۔کہتے ہیں تیس برس کی عمر کے بعدانسان کی بہترین غذا پھل اور سبزیاں ہیں جبکہ ہمارے ہاں گوشت خوری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، اعتدال نہ برتا جائے تو اِس میں کئی بیماریاں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ کھا کھا کہ ہمارے حواس پر پردہ پڑ گیا ہے ، آنکھیں کان رکھتے ہوئے بھی ہم دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں بلکہ احساس سے عاری ہو چکے ہیں، بظاہر ہم مکمل انسانی پیکر میں ہیں مگر ہماری عادات و خصائل جانوروں سے بھی بد تر ہوتی جا رہی ہیں، ہماری سوجھ بوجھ اور عقل کہیںگھاس چرنے گئی لگتی ہے۔یاد رہے کہ انہی صفات سے انسان ،انسان کہلاتا ہے ورنہ انسان میںاورجانور میں کچھ فرق نہیں ۔دیکھا جائے تو آج ہر طرف ایک ابتری نمایا ں ہے ، ہمیں صوفیانہ افکار کو مشعل راہ بناتے ہوئے اُن پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرور ت ہے۔ امریکی ''ایم بی ایس آر‘‘ کی تربیت گاہوں کی بجائے ہمارے پاس، ہمارے اسلاف کے بتائے ہوئے اصول موجود ہیں جن پر سختی سے عمل کر کے ہم زندگی آسان بنا سکتے ہیں ۔ ہم مسلمان کہلواتے ہیں تو ہمیں اپنے حُلیے،صحبت ،اخلاق و اطوار سے بھی مسلمان نظر آنا چاہیے۔ عالِم پر علم کے اثرات دکھائی نہ دیں توایسے علم کا کیا فائدہ ۔ علم پر عمل کیا جائے اور خود سازی پر توجہ دی جائے تو انسانی شخصیت پُرکشش اور پیکرِ محبت و اخلا ق بن سکتی ہے اوربہترین انسان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسری کوگزند نہ پہنچے، ورنہ‘ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں