گوجرہ سے ادب کا ’نزول‘

جس عمر میں نوجوان پتنگ اور کبوتر اُڑاتے ہیں،کتے لڑاتے ہیں،یا میلوں ٹھیلوں اور ہلّے گلے میں خوش رہتے ہیں، اُس نے کتابوں کو دوست کیا۔فنون روشنی کی طرح اُس کے ''رگ و پے‘‘ میں سرایت کرتے ہیں ۔اس نے تتلیوں کے پروں پر شاعری کے خواب لکھے اور لفظوں کی مرصّع سازی میں جینے کی ٹھانی ۔شاد اور آزاد رہنے کے لیے اس نے فنکارانہ لائف سٹائل اپنایا۔وہ ہر تین ماہ بعد ادیبوں‘ شاعروں،صحافیوں اور فنکاروں کو ایک ضخیم ادبی جریدہ، اپنے ڈاک خرچ سے ارسال کرتا ہے۔اب تک یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے‘ جی ہاں ، میری مراد گوجرہ کے سید اذلان شاہ سے ہے جو ادب کا نمائندہ سہ ماہی ادبی جریدہ ''نزول‘‘ شائع کرتا ہے۔ ادب اور فن سے ایسی کمٹ منٹ اور پھر اس مادی دور میں، کسی نوجوان کے ہاں کم ہی دیکھنے کو ملی۔اہم بات یہ ہے کہ وہ ادبی مراکز سے دُور رہ کر بھی ایک غیر متنازعہ مدیر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے ہر دھڑے کے اہلِ قلم کو پذیرائی بخشتا ہے۔آج کل ایسے دیوانے نایاب ہو چکے ہیں۔ادبی پرچہ اور اِس بے حسی کے عہد میں ،باقاعدگی سے نکالنا، سر پھروں اور دیوانوں کا کام ہے۔مگر آفرین ہے ، ہمارے سماج میں ایسے دیوانے ابھی موجود ہیںجو اپنے آپ کو پس منظر میں رکھ کر دوسروں کو شناخت دینے کے لیے مشغول رہتے ہیں۔اذلان شاہ خود بھی شعر کہتا ہے‘ کہانی اور ڈراموں کی تخلیق سے بھی وابستہ ہے۔90ء کی دہائی میں جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کا طالب علم تھا‘ تو ٹی ہائوس میں بھی دکھائی دیتا تھا۔ان دنوں وہ کئی اخبارات اور جرائد سے منسلک رہا۔ پھر کسی نے اسے مشورہ دیا کہ صحافت شاعر کو کھا جاتی ہے۔بہت سے شعرا اخباروںکی سرخیوں کی نذر ہو گئے، اہم ناموں میں عباس اطہر ،حسن نثاراور نذیر ناجی بھی شامل ہیں۔ یہ شعرا شاعری کو ویسے وقت نہ دے سکے‘ جیسے دینا چاہیے تھا۔ سو اذلان شاہ نے اخبارا ت سے کنارہ کیا ، ادب میں غرق ہوااور گوجرے سے ''نزول‘‘ کے ساتھ طلوع ہو گیا۔ آج گوجرہ سے معیاری ادبی جریدہ اس کی پہچان بن چکا ہے۔ ''نزول‘‘ کے پچھلے چند شمارے بھی میری نظر سے گزرے ہیں۔ ''نزول‘‘ کئی اہل ِ قلم کے گوشے اور نمبر شائع کر چکا ہے‘ جن میں سلیم کوثر نمبر بھی شامل ہے۔اس ادبی پرچے میں شاعری وافر مقدار میں شائع کی جاتی ہے اور اردو کے ممتازشعر ا کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ 
اِس بار جدید غزل کے سالار ظفر اقبال کی شاعر ی کے حوالے سے خصوصی گوشہ شائع کیا گیا ہے۔سر ورق پر ظفر اقبال کی تصویر ہے جبکہ ان کی شاعری کے حوالے سے ممتاز اہلِ قلم کے مضامین اور آرا کے علاوہ ان کی تقریباً پچھتر غزلیں بھی شائع کی گئی ہیں۔ظفر اقبال کے حوالے سے لکھنے والوں میں شہزاد احمد،اظہار الحق ،کشور ناہید، عبدالرشید، نذیر قیصر،ڈاکٹر ناصر عباس نیر ،ابرار احمد ،ڈاکٹر قاضی جمال الدین، حسین مجروح،سیدہ سیفو،سلیم شہزاد، زاہد حسن اور احمد حسن شامل ہیں۔پرچے میں اس کے علاوہ فتح محمد ملک ،مشکور حسین یاد،افتخا ر عارف،سمیع آہوجہ، یونس جاوید، مرزا حامد بیگ، شبنم شکیل، رضوانہ نقوی، نیئر اقبال علوی، پرویز انجم کی تحریریںاور اس عہد کے ممتاز شعرا کی غزلیں اور نظمیں بھی ''نزول‘‘ کا حصہ ہیں۔اذلان شاہ نے ادارئیے میں عہدِ حاضر کی ،علم و ادب سے دُوری کا نوحہ بھی لکھا ہے۔وہ شاعروں ادیبوں کے رویوں پر بھی کڑھتا ہے کہ ہماری ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔اسے گلہ ہے کہ بڑے شہرو ں میں ادبی اخبارات اور میڈیا پر چند مخصوص افراد کی اجارہ داری ہے‘جہاں میرٹ کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا۔ کانفرنسوں اور مشاعروں میں بھی اپنے اپنے دوستوں اور گروپوںکو اہمیت دی جاتی ہے۔ادبی جرائد کی سرکاری سرپرستی بھی نہیں کی جاتی۔اذلان شاہ کی بہت سی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ عمومی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے علمی‘ ادبی ثقافتی اداروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔حکومت یوتھ فیسٹیول جیسے ہلے گلے پر لاکھوں خرچ کر سکتی ہے مگر اپنے علمی و ادبی ثقافتی اداروں پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔ ادب و ثقافت پر بھر پور دھیان دیا جائے تو ہم ایک مثالی معاشرے کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔علم و ادب کے فروغ ہی سے سماج میں امن و محبت اور برداشت پروان چڑھتے ہیں‘ لیکن افسوس تو یہی ہے کہ اذلان جیسے ادب کے فروغ میں ہمہ وقت متحرک رہنے والے، عموماً اقلیت میں ہو ا کرتے ہیں ۔ادبی رسائل جرائد پڑھنے والے بھی صرف اور صرف اہل قلم ہو تے ہیں، ان میں سے بھی پچاس فیصد صرف اپنی تخلیقات دیکھ کر پرچہ ایک طرف رکھ دیتے ہیں ۔خود میں نے دس برس پندرہ روزہ ادبی اخبار ''بجنگ آمد‘‘ شائع کیااور پھر اہلِ ادب کو بذریعہ ڈاک ان کے گھروں تک پہنچایا مگر بعض احباب پرچہ ملنے کی رسید تک نہ دیتے تھے۔یہی حال ادبی جرائد کا بھی ہے۔لوگ تعاون کم ہی کرتے ہیں۔ہاں اگر حکومت سنجیدہ ہو جائے ، اورایسے ادبی پرچے، یونیورسٹیوں اور کالجوں سکولوں میں باقاعدگی سے خریدنے کے احکامات صادر کیے جائیں ، سرکاری اداروں میں لائبریریاں قائم کر کے کتابوں کو فروغ دیا جائے تو پھر نہ صرف ایسے ادبی جرائد خود بخود پھول پھل سکتے ہیںبلکہ لوگوں میں مطالعے کی عادت بھی فروغ پا سکتی ہے۔اس طرح ہم معاشرے میں مثبت سر گرمیوں کو بحال کر کے یہاں سے بد امنی، دہشت گردی جیسے مسائل بھی ختم کر سکتے ہیں۔ بات ادبی جریدے '' نزول ‘‘ کی ہو رہی تھی جس میں معیاری شاعری کے علاوہ عمدہ افسانے اور کتابوں پر تبصرے بھی شامل ہیں۔ ''نزول‘‘ میں سے کچھ منتخب اشعار نذرِ قارئین ہیں: 
ظفر اقبال: 
خواب میں خاک اڑانے کی طرف جانا ہے
میں نے اب اپنے زمانے کی طرف جانا ہے
آپ تو ایک طرف بیٹھ گیا وہ آ کر
اور پھر ایک طرف اس نے کیے چار طرف
سلیم کوثر : 
دھوپ تھا، اب تو صرف سایہ ہوں
میں مدینے سے ہو کے آیا ہوں
عرفان صدیقی: 
عجیب لوگ تھے مجھ کو جلا کے چھوڑ گئے
عجب دیا ہوں طلوعِ سحر پہ راضی ہوں
ریاض مجید: 
گرچہ کوئی بھی سروکار نہیں دنیا سے 
دل ابھی چلنے کو تیار نہیں دنیا سے
نجم ثاقب: 
اذنِ سخن ملا تو اسے چُپ سی لگ گئی
کچھ دیر تو سوال میں رہنا پڑا مجھے
عالم خورشید: 
وہ خوف ہے کہ حواس اپنے کھوئے جاتے ہیں
ہم اپنی کشتیاں خود ہی ڈبوئے جاتے ہیں
مقصود وفا : 
کون سمجھے یہ اشارے، یہ کنائے میرے
جانتا کوئی نہیں مجھ کو سوائے میرے
جان کاشمیری: 
دستخط کرتے ہوئے ایک حسینہ نے کہا
جائو حق مہر بھی بخشا تمہیں جوبن کی طرح
اختر شمار: 
کیا لوگ ہیں ہم لذّتِ دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
مت پوچھ کہ ہم رہتے ہیں کس کنجِ قفس میں
ہم لوگ فقط تیری تمنا سے بندھے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں