ماں بولی کانفرنس اور ہم

مسجد کو اللہ کاگھر کہا جاتا ہے مگر آپ حیران ہوں گے کہ پنجاب میں چنیوٹ کے قریب صاحباں ( جی ہاں مرزا والی صاحباں ) کے کھیوا نامی گائوں میں ایک مسجد ویران پڑی ہے اور اس کی وجہ مرزا صاحباں ہی بیان کیے جاتے ہیں۔ بچپن میں وہ اسی مسجد میں قرآن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ آگے چل کر دونوں عشق کی داستان کے لازوال کردار بنے۔ گائوں والوں کو صاحباں کا مرزا کے ساتھ بھاگنا اچھا نہ لگا۔شاید اسی رنج کا غصہ مسجد پر بھی نکالا گیا ورنہ یہ مسجد اس طرح ویران اور غیر آبا د کبھی نہ ہوتی۔ اگر صاحباں کے والد کھیو ا کے نام پر گائوں اب بھی موجود ہے اور مسجد کے آثار بھی نمایاں ہیں تو پھر مسجد اس حالت میں کیوں ہے؟مسجد کی عمارت جوں کی توں ہے مگر اس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔یہ ساری باتیں ہمیں پنجابی کے ممتاز شاعر ، محقق اور خادم پنجابی اقبال قیصر نے یا ددلائی ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ اگلے روز مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر( پلاک) کے زیر اہتمام تین روزہ ماں بولی کانفرنس 2014ء کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ ڈائریکٹر پلاک صغرا صدف کی ہمت ہے کہ صبح سے شام تک وہ ہر سیشن میں عمدہ نظامت کے لیے موجود رہیں۔ اسی کانفرنس کے ایک سیشن میں اقبال قیصر نے پنجاب کی تاریخی اور کھنڈر بنتی عمارات کا نوحہ پیش کرتے ہوئے اپنے تاریخی آثار محفوظ بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ اس پر کیا ہوتا ہے یہ تو مجھے علم نہیں اور نہ ہی کچھ یقین کہ ہم سے تو اچھے خاصے آباد ادارے سنبھالے نہیں جاتے ،یہ دم توڑتے تاریخی نقوش کس کو نظر آئیں گے اور پھر جن آثار سے پنجابی تاریخ اور زبان وادب کا کوئی تعلق ہو اس پر کون سنجیدہو تا ہے؟ پنجابی زبان کے لئے یار لوگ پریشان رہتے ہیں مگر بڑی اہم بات کی کانفرنس میں جناب مجیب الرحمان شامی نے کہ یہاں تو اردو کی جگہ کم ہو رہی ہے ، پنجابی کے لئے کون سوچے؟ پنجابی کی بات ہونی چاہیے، اس کے اخبارات رسائل کو مناسب اشتہارات بھی ملنے ضروری ہیں ، پنجابی کتب پر ایوارڈ کا سلسلہ بھی ہو نا چاہیے‘ لیکن اس کے لئے ہمیں خود بھی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ 
ہمارے گھروں میں بچے انگریزی بولتے ہیں‘ کم سے کم ہم گھروں میں تو پنجابی بولنا شروع کریں،اور آپ میں سے کون نہیں جانتا کہ جس زبان سے رزق وابستہ ہوتا ہے اسی کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ کانفرنس میں سیفما کے روح رواں امتیاز عالم کا خیال تھا کہ غیر مہذب وہ ہے جو ماں بولی کو چھوڑ کر کوئی اور زبان اختیار کرے،انہوں نے کہا کہ ہمیں غلام بنا کر ہمارا کلچر چھین لیا گیا۔ سید نور نے کہا: ہماری پنجابی فلمیں شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ فلم 'چوڑیاں‘ پچپن لاکھ میں تیا ر ہوئی مگر اس نے چالیس کروڑ کا بزنس کیا، یہ اعزاز کسی اردو فلم کے حصے میں نہیں آیا۔پنجابی کانفرنس میں ممتاز صحافیوں‘ دانشوروں اور اہلِ قلم نے بھر پور انداز میں شرکت کی۔ ہم نے پہلے روز دو سیشن میں شرکت کی۔ پنجابی زبان، فن و ثقافت اور میڈیا کے موضوع پر منعقدہ سیشن کی صدارت جناب مجیب الرحمان شامی نے کی۔ اس میں حسین نقی، نوید چودھری، سہیل وڑائچ، سید نور، امجد وڑائچ ، میاں حبیب نے بھی خطاب کیا۔مدثر اقبال بٹ پچھلے چوبیس سال سے پنجابی کا واحد اخبار '' بھلیکھا ‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ وہ از خود سٹیج پر تشریف لے آئے اور کہا کہ پنجابی کے اخبارات رسائل کے لئے طے شدہ پانچ فیصد کوٹہ بحال کیا جائے۔یہاں پنجابی ٹی وی چینلز کی بات ہوئی۔ دو پنجابی ٹی وی چینلز موجود ہیں مگر کوئی نہیں پوچھتا۔ سندھی اخبارات رسائل کو سرکاری اشتہارات سے چالیس فیصد کوٹہ ملتا ہے‘ یہاں ایسا کوئی انتظام نہیں ۔ پنجابی کے اس وقت دو اخبار نکل رہے ہیں‘ کئی ادبی رسائل بھی ہیں لیکن حکومت انہیں ریجنل اخبارات کے کوٹے سے بھی حصہ دینے پر تیار نہیں ۔کانفرنس کے دونوں سیشنز میں بہت فکر انگیز گفتگو ہوئی۔ سبھی مقررین کا خیا ل تھا کہ پنجاب میں، پنجابی زبان پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بننی چاہیے اور اگر تمام بڑے اخبارات پنجابی صفحات نکالنے لگیں تو لوگ پنجابی پڑھنے میں بھی آسانی محسوس 
کرنے لگیں گے۔ ہم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اردو اور پنجابی زبان ہی نہیں دیگر قومی زبانوں کے فروغ کے لئے بھی عملی اقدامات کیے جائیں۔ پنجابی ادارہ (پلاک) بھی ایک پنجابی اور سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کی خصوصی دلچسپی سے قائم ہوا ،اسی دور میں پنجابی اخبارات رسائل کے لئے پانچ فیصد اشتہاری کوٹہ بھی مقرر کیا گیا ۔ آج بھی پنجاب پر کسی غیر پنجابی کی حکومت نہیں ، پنجابی بیٹوں کی حکمرانی ہے تو پھر پنجابی ایک آرڈر سے پرائمری سکولوں میںنافذ کیوں نہیں کی جاتی؟ تاکہ پنجابی بچے اپنی ماں بولی میں ابتدائی تعلیم حاصل کر سکیں ۔ یوا ین او کے تحت بھی بنیادی تعلیم، بچے کو اس کی مادری زبان میں دینے کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ہم حیران ہیں کہ اس بنیادی کلیے کو پنجاب میں نافذ کیوں نہیں کیا جاتا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اردو کو دفتری زبان بنانے اور پنجابی کو پرائمری سطح پر نافذ کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری بیورو کریسی ہے۔ان دنوں انگریزی کو عام کرنے کے لئے بڑے بڑے ادبی میلے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ حیرت ہے جس معاشرے میں ہم اردو کتاب کے قارئین کا رونا روتے ہیں وہاں انگریزی زبان میں لکھے جانے والے ادب اور دیگر کتب کے فروغ لئے نہایت منصوبہ بندی سے کام ہو رہا ہے۔ کیا اردو اشاعتی ادارے اس طرح کی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے؟ لوگوں کو 
ادبی میلوں ٹھیلوں کی طرف مائل کرنے کے اقدامات نہایت ضرور ی ہیں ۔ہم انگریزی کے خلا ف نہیں‘ یہ ہمار ے عالمی رابطے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی قومی زبان اور علاقائی زبانوں کی ترقی کے لئے عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا ہو گا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اب تک ہم اپنے آئین کے مطابق وطن ِ عزیز میں اپنی قومی زبان مکمل طور نافذ نہیں کر سکے۔کانفرنس میں قاضی جاوید کی بات بھی غور طلب تھی کہ پنجابیوں کو ڈھگا کہنے والوں کو شاید یہ علم نہیں کہ پنجابیوں کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ اور اگر اردو زبان و ادب کے ذخیرے میں سے پنجابی لکھاریوں کو الگ کر لیا جائے تو باقی کیا رہ جائے گا؟ اعزاز احمد آذر کہہ رہے تھے کہ پنجاب کو ایک ان تھک وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی صورت میں میسر ہے وہ چاہیں تو ایک دن میں زبان کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دوسرے سیشن کے صدر جناب حسین شاد کی بات بھی دل کو لگتی ہے کہ صرف زبان کے دن منانے سے یا جلوس نکالنے سے کوئی زبان ترقی نہیں کر سکتی، اس کے لئے ہر سطح پر ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔پنجابی زبان میں ہمارے صوفیا کے افکار کی شکل میں ایسا خزانہ موجود ہے جسے ہم کسی بھی زبان کے ادب کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں ۔اور یہی نہیں ان افکار پر عمل کر کے ایک مثالی سماج کی تشکیل بھی کر سکتے ہیں اور آخر میں حضرت سلطان باہو کا ایک شعر بلا تبصرہ نذر قارئین :
ایہہ تن رب سچے دا حجرہ‘ وچ پا فقیرا جھاتی ہُو
نہ کر منت خواج خضر دی‘ تیں اندر آب حیاتی ہُو 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں