ایک عارف نے معمر پادری سے انوکھا سوال کیا :'' تمہاری عمر زیادہ ہے یا تمہاری داڑھی کی عمر؟‘‘ پادری بولا: '' اس نے میرے بہت بعد جنم لیا‘‘۔ عارف نے کہا: ''تمہاری داڑھی نے تمہارے بعد جنم لیا اور سیاہ سے سفید ہوگئی لیکن تمہاری برائیاں ویسی کی ویسی رہیں۔ گویا تمہاری داڑھی تبدیل ہوگئی مگر تم تبدیل نہ ہوئے‘‘۔ یہ حکایت مولانا روم کے حوالے سے یوں یاد آئی کہ ہم رات دن کیا کیا منظر دیکھتے ہیں مگر اثر لینے سے عاری ہیں ۔ ہم اپنی آواز خود نہیں سنتے‘ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں اور بس ، خود اپنے شب و روز پرغور نہیں کرتے۔
ایک صاحب کا خیال تھا کہ ہمارے میڈیا نے ہماری نئی نسل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ آج کل ایسے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں جن میں زندگی کی مثبت اقدارکو بہت کم اجاگر کیا جاتا ہے۔ عموماًَ منفی روایات اور عادات و اطوار کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں عام ہو رہا ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ بھلے یہ سب کچھ عام ہو رہا ہے پھر بھی لکھنے والوں کو ہمیشہ مثبت رہنا چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ مایوسی گناہ ہے اور پھر میڈیا کے اثرات بہت دُور رس ہوتے ہیں۔ فلمیں ، ڈرامے اور کتابیں اثر انداز ہوتی ہیں، سو انہیں تخلیق کرنے والوں کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ تخلیق کاری کے دوران انسانیت کی اعلیٰ اقدار و روایات کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
آج کل ٹیلی ویژن ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے ، اس کی رسائی ہر خواب گاہ تک ہو چکی ہے اور اب اسے ہرگھر کا رکن تصور کیا جانا چاہیے ۔ سو ٹی وی پروگراموں میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ، اِن دنوں ٹی وی پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے یقیناً اس کے اثرات ہمارے قلوب و اذہان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ٹی وی کے بے تحاشا چینلز پر چوبیس گھنٹے نشریات جاری رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ٹی وی ٹاک شوز بہت مقبول تھے مگر اب ان کی مقبولیت دم توڑ رہی ہے ، ان پروگراموں کے منتظمین اور اینکر پرسنزکو اس کے اسباب تلاش کرنے چاہئیں۔ لوگ یکسانیت سے جلد اکتا جاتے ہیں،اس لیے ان دنوں ڈرامے اور دیگر تفریحی پروگراموں کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے ٹی وی ڈرامے بہت مشہور ہوتے تھے،پھر بھارتی ٹی وی سوپ ہم پر غالب آگئے۔ انہی کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی طویل ڈراموں کو پذیرائی ملی ، لیکن پھر وہی بات کہ یکسانیت زیادہ دیر برداشت نہیں کی جاتی۔ جب ہر چینل پر ایک طرح کی کہانی دکھائی دے گی تو دیکھنے والے کیا کریں گے؟ بھیڑ چال اور ریٹنگ کی دوڑ میں ہم تخلیق کے اعلیٰ مقصد سے بہت دُور ہو جاتے ہیں۔آج کل ہمارے ڈراموں میں گھریلو قسم کی کہانیاں خواتین اور نوجوانوں میں بہت پسند کی جاتی ہیں ، لیکن آپ ان ڈراموں کی چند جھلکیاں بھی دیکھ لیں تو آپ کے لیے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہوگا کہ ہر کہانی ایک طرح کے کرداروں میں گھری نظر آتی ہے۔ اکثر ڈراموں میں شادی شدہ خواتین و حضرات بھی عشق لڑاتے نظر
آتے ہیں۔کہیں جذبہ رقابت موضوع ہے تو کہیں زبردستی کی محبت کا منظر نامہ ۔ سرِ دست ہم کسی خاص ڈرامے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے البتہ ہم اپنے کہانی کاروں اور ڈرامہ نویسوں سے یہ التماس ضرور کریں گے کہ کہانی کی تخلیق اور خاص طور پر مکالمے لکھتے وقت انہیں اپنی تہذیب و اقدار اور اخلاقیات کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے کیونکہ ان ڈراموں کا ہماری نئی نسل پر بے حد گہرا اثر ہو رہا ہے، ان کی عادات ہی نہیں روزمرہ کی زبان تک بگڑ رہی ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ اب نوجوان گفتگو کرتے وقت لفظ ''یار‘‘ کا استعمال کثرت سے کرنے لگے ہیں۔ان کے مدِ مقابل اور مخاطب کوئی بھی ہو وہ لفظ ''یار‘‘ سے شروع کرتے ہیں، اب نوجونواں کی یہ عادت بنتی جا رہی ہے کہ وہ ماں، بہن اور ہم جماعت لڑکی تک کو ''او یار،او یار‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔ کیا یہ کوئی بہت اچھی عادت ہے؟ اور ایک ڈرامے میں ایک نوجوان کردار اپنی ماں سے نہایت بد تمیزی سے گفتگو کرتے دکھایا جا رہا ہے۔کیا اس کا اثر ہماری نئی نسل پر نہیں پڑے گا؟اگر روزمرہ گفتگو میں ''او یار‘‘ تکیہ کلام بننے لگا ہے تو اپنے والدین یا بڑوں سے مخاطب ہونے کا یہ انداز عادت میں بھی ڈھل سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ ہم رات دن جو کچھ دیکھتے‘ سنتے ہیں‘ وہ سب ہماری عادات میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی۔ اگر ہم ایسی کہانیوں سے نوجوانوں کی اِس طرح کی تربیت کریں گے تو خود تخلیق کار اور ان کی نسل بھی اس سے نہیں بچ سکے گی۔ پیسہ کمانا ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن بعض شعبوں میں ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں اور خاص طور پر میڈیا سے متعلق افراد کی ذمہ داری اس دور میں کچھ زیادہ ہے کہ دنیا ایک گائوں کا روپ دھار چکی ہے۔ ہمیں اپنے میڈیا اور خاص طور پر ڈراموں کے پروگراموں کی تیاری میں بہت احتیاط کرنی چاہیے کہ اس کی زد میں ہم خود بھی ہیں ۔ ہمیں ایسے کہانیاں پیش کرنی چاہئیں جو ایک تو گھر بھر کے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں اور دوسرا یہ کہ جن سے زندگی کی اعلیٰ اقدارو روایات کا درس مل سکے۔اگر ڈراموں میں قتل، چوری، فراڈ، عشق کرنے اور دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے کے گُر سکھائے جائیں گے تو معاشرے میں بھی اسی رنگ اور ڈھنگ کو اپنایا جائے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ معاشرے میں ہمارے اردگرد اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر اسے میڈیا میں نمایاں کرنے سے اس کے اثرات دوچند ہو جاتے ہیں۔ موسیقی سے لے کر ادب تک سب کچھ رو بہ زوال ہے ، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایسا کیا معاملہ ہے کہ ہمارے سماج سے امن ، محبت ، ہمدردی، اخوت اوراخلاقیات کا جنازہ اٹھتا چلا جا رہا ہے؟کیا ہم الیکٹرانک میڈیا جیسے تند ہتھیار سے اس زوال سے نجات حاصل نہیں کر سکتے؟ صرف دولت اور تعیش کی خاطر ہم آنے والی نسلوں کے لیے کیا بو رہے ہیں؟ تشدد ، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کے اس ماحول میں کوئی بھی پیسے والا آخر کب تک بچ پائے گا۔ جب تک ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر نہیں چلیں گے اور سماج کو پُر امن ، خوشحال اور مثالی نہیں بنائیں گے ، ہم ان خطرات سے نہیں بچ سکتے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟