اپنا ایک پرانا ہائیکو یاد آرہا ہے :
اژدھا فاختہ کے انڈوں پر
زندگی خوف کی نگاہوں میں
'' امن ـ ‘‘ تصویر تک رہے ہم
وطنِ عزیز پر دہشت گردی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔عوام نگاہوں میں امن کے خواب سجائے پھرتے ہیںمگر انہیں کہیں تعبیر ملتی ہے نہ پناہ۔عام آدمی کے ساتھ پولیس او ر فوجی جوان اور اب انصاف کرنے والے بھی محفوظ نہیں ۔کاش دہشت گردوں کے درمیان رابطہ یا ثالثی کرنے والے ہی انہیں کوئی واسطہ دیں کہ وہ بے گناہ افراد کا خون بہانا بند کریں کہ آخر یہ کون سا جہاد ہے جس میں معصوم نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔عام آدمی کی تان تو حکومت پر ٹوٹتی ہے کہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ صرف بڑا قومی پرچم بنانے اور ترانہ پڑھنے کے ریکارڈ قائم کرنے سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے انہیں روزمّرہ کی آسانیاں فراہم کی جائیںلیکن ہمارے ہاں تو لوگ بے چارے سارا دن ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں،ناکوں پر لوگوں کی نقل و حرکت کو مزید دشوار بنا دیا گیا ہے ہر جگہ پولیس ناکوں کے باوجود دہشت گرد اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس ساری فضا میں بھی الحمدللہ ہم مایوس نہیں ہیں۔ پاکستانی ان تمام خطرات کے باوجودزندگی سے نبرد آزما ہیں۔ہمیں خوشی ہے کہ اِس افراتفری کے ماحول میں بھی ادب اور کتاب میلوں پر لوگوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے۔لوگ جوق در جو ق ان پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں‘ہم عموماََ کتاب سے تعلق کٹ جانے پر آزردہ رہتے ہیں مگر ایکسپو سنٹرلاہورکے ''کتاب میلے‘‘ کی رونقوں سے تقویت ہوئی ہے کہ لوگ اب بھی کتابوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔اگلے روز صبح سے شام تک کئی پروگراموں میں حاضری لگوانی پڑی۔ ایکسپوسنٹر کے میلے میں ممتاز اشاعتی اداروں نے اپنی کتابوں کے سٹالز لگا رکھے تھے ۔میلے کا افتتاح کرکٹ کے چیئر مین نجم سیٹھی نے کیا۔یار لوگ وزیر اعلیٰ کے منتظر رہے مگر سابقہ نگران وزیر اعلیٰ سے کام لیا گیا۔لاہور علم و ادب اور ثقافت کا شہر بھی ہے ہم کتاب کلچر کے لیے کڑھتے ہیں ۔اچھی بات یہ ہے کہ اب شہریوں میں ادبی میلے بھی منعقد ہونے لگے ہیں۔انگریزی اشاعتی ادارے ،ادبی میلوں کے لیے سنجیدہ ہیں تواردو بازار اور دیگر بڑے اردو اشاعتی اداروں کو بھی اس سلسلے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئیے۔ایک تو کتاب کو سستا کیا جائے دوسرا کتاب سے محبت پیدا کرنے کے لیے نوجوانوں کو کتب بینی کی طرف مائل کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ادبی کتب میلوںکو زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے تو معاشرے میں ساز گار علمی ادبی فضا قائم ہو سکتی ہے۔
اس میلے میں کراچی سے انجمن ترقی اردو پاکستان کا سٹال بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا۔اس بار انجمن کے سیکریٹری ممتاز شاعر محقق ڈاکٹر جاوید منظر خود بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ڈاکٹر جاوید منظر کراچی کے ادبی حلقوں میں بے حد فعال ہیں۔ان سے ملاقات ہوئی تو ہمیں ان کے ساتھ کراچی اور انڈیا کے مشاعرے یاد آگئے۔انڈیا کے مشاعروں کے دورا ن پانی پت میں ہمارے لالہ موسیٰ کے ایک شاعر کاوش بٹ انتقال کر گئے تھے۔اس مشاعرے میں پاکستان سے قتیل شفائی‘ مرتضی برلاس،خالد اقبال یاسر، زاہد فخری،جاوید احمد،شاہد زمان‘ ذکیہ غزل جاوید منظر اوروصی شاہ بھی مدعو تھے۔
کاوش بٹ ہارٹ اٹیک سے پانی پت کے مشاعرے میں انتقال کر گئے تھے۔مجھے یاد ہے ہم سڑک کے راستے کاوش بٹ کی میت لے کر واہگہ بارڈر تک آئے تھے۔بات جاوید منظر کی ہو رہی تھی۔جاوید اردو نظم ،غزل میں منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں۔بابا فرید ادبی فورم کے روح ِرواں راجا نیر نے جاوید منظر کے اعزاز میں ایک ہنگامی شعری نشست کا انعقاد کیا۔ادبی بیٹھک میں ایسی نشستیں منعقد ہوتی رہتی ہیںلیکن ایسی نشستوں میں پینتیس چالیس شعراء خود ہی سامعین کا کردار بھی ادا کرتے ہیں ۔اس بار میسج پڑھ کر مشاعرے پر آنے والے موجود نہیں تھے بلکہ شعرا کو دعوتی کارڈ دے کر باقاعدہ مدعو کیا گیا تھا۔ادبی بیٹھک میں جاوید منظر کے اعزاز میں مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاصاحب نے کرنی تھی لیکن اپنی کسی عزیزہ کے انتقال کے سبب وہ تشریف نہ لاسکے تو شفیق سلیمی نے صدارت کا فریضہ انجام دیا ۔مہمان خصوصی ڈاکٹر جاوید منظر تھے۔اہم بات یہ ہے کہ یہاں سنئیر اور اہم شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔نذیر قیصر کافی عرصے بعد کسی مشاعرے میں شریک ہوئے۔اعجاز کنورراجہ بھی مشاعروں میں کم نظر آتے ہیں دونوں شعرا نے تازہ کلام پر بے حد پذیرائی حاصل کی ، دیگر شعراء میں نجیب احمد ،باقی احمد پوری ، ف ق حسرت ،حسین مجروح ،سرفراز سید،اسلام عزمی،اعجاز رضوی،غافر شہزاد ،عمران نقوی،عرفان صادق،اعظم کمال،شاہد ہ دلاور ،آفتاب خان، عاطف جاوید اور دیگر شامل تھے۔ اسی طرح کی ایک نشست پاک ٹی ہائوس میں بھی منعقد کی گئی ۔والڈسٹی اتھارٹی پرانی عمارات اور پاک ٹی ہائوس کو پرانی شکل و صوت میں بحال کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی نے پاک ٹی ہائوس میں ناصر کاظمی کی یاد میں خصوصی شعری محفل ترتیب دی۔یو ں تو ناصر کی برسی پر حسن کاظمی ہر سا ل اپنے گھر پر احباب کو مدعو کرتے ہیں مگر اس بار پاک ٹی ہائوس میں بھی ناصر کاظمی کو یاد کیا گیا۔جاوید اعوان،ساجد علی ساجد،انیس اکرام فطرت،باصر کاظمی کے وہ قریبی دوست ہیں جو ناصر کاظمی کی ہر برسی پر موجود ہوتے ہیں۔اب کے وہ ٹی ہائوس میں بھی موجود تھے۔شعری محفل کی صدار ت ڈاکٹر اجمل نیازی نے کی۔مہمانان ِخصوصی کے طور پر فرزند ِ ناصر کاظمی، حسن کاظمی اور کراچی سے آئے ہوئے مہمان ڈاکٹر جاوید منظر شامل تھے۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے ناصر کاظمی کے حوالے سے پرانی یادوں کو تازہ کیا۔حسن کاظمی نے اپنے والد کے حوالے سے اظہار ِخیال کرتے ہوئے والڈ سٹی اتھارٹی کا شکریہ ادا کیااور کہا کہ ایک زمانے میں ،پاک ٹی ہائو س میں دروازے کے ساتھ ‘ناصر کاظمی کی صوفے والی نشست ہوا کرتی تھی‘ اب یہاں کرسیاں رکھ دی گئی ہیں ،ہم چاہتے ہیں وہاں اسی طرح صوفہ رکھا جائے اور اس نشست کے ساتھ دیوار پر ناصر کاظمی کی بڑی تصویر لگائی جائے۔ اور یہ جگہ ناصر کے نام سے منسوب کی جائے ۔والڈ سٹی اتھارٹی کے ایک آفیسر آصف ظہیر نے بتایا کہ ہم پاک ٹی ہائوس میں اہل ِقلم کو خصوصی کارڈ جاری کر رہے ہیں تاکہ انہیں چائے اور کھانے پر رعایت دی جا سکے۔انہوں نے اہل قلم سے درخواست کی کہ وہ اپنے کوائف جمع کرائیں۔ اس شعری نشست میں جن شعرا نے توجہ حاصل کی ان میں باقی احمد پوری،اقبال راہی،فرحت شاہ،جواز جعفری اور راجہ نیئر شامل تھے۔ آخر میںحاضرین کی پر تکلف چائے سے تواضع کی گئی۔اس نشست کے بعد حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس بھی منعقد ہوا۔غافر شہزاد کی خصوصی دلچسپی سے حلقہ کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس نہایت کامیابی سے جاری ہیں۔اس مرتبہ صدارت محترمہ شہنازمزمل نے کی ،غزلیں برائے تنقید ، حسن جاوید اور افسانہ روحی طاہرہ نے پیش کیا۔ یہاں ہمیشہ کی طرح نہایت دلچسپ گفتگو سننے کو ملی۔ یہاں بھی اچھی خاصی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی ۔ ہمارا خیال ہے اگر شہروں میں علمی ادبی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں تو نئی نسل میں امن ،محبت اور برداشت کا کلچر فروغ پاسکتا ہے۔کاش حکومت اس طرف بھی توجہ دے۔ آخر میں جاوید منظر کا یہ شعر آپ کی نذر کرتے ہوئے اجازت:
بچھڑنا ہے تو مت الفاظ ڈھونڈو
ہمارے واسطے لہجہ بہت ہے