ادبی جریدہ الحمرا اور اہل ادب

پہلے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
'' گورنر جیلانی کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے سامنے چائے کا ٹرے سرو کرتے ہوئے بیرے کے سر سے پگڑی اتارکر نواز شریف کے سر پر رکھ دی۔ نواز شریف اِس حادثے کے لیے تیار نہ تھے۔ بھلا کون ایسا سوچ سکتا ہے؟ ان کا منہ گھبراہٹ سے بالکل سرخ ہو گیا ۔ دونوں ہاتھ بے اختیار اٹھے مگر سر کی طرف بڑھنے کی بجائے گر گئے۔۔۔ جائے ادب تھی، مقامِ مصلحت تھا ۔ گورنر صاحب کی بزرگی اور مرتبے کا خیال تھا، موقع کی نزاکت کا احساس تھا یا بزرگوں نے انہیں جو لحاظ و مروت کی تربیت دی تھی، اُس کا اثر تھا کہ انہوں نے کمال ضبط سے اپنا ردِعمل روک لیا ۔گورنر جیلانی ان کے محسن بھی تھے اور اس وقت باس بھی۔ انہوں نے یکایک یہ حرکت کیوں کی تھی ؟ اس کا مطلب کیا تھا ؟ یہ کوئی مذاق کا وقت نہیں تھا ، سب سے بڑے صوبے کا نوجوان وزیر اعلیٰ ان کے رُوبرو تھا۔ وہ خود قہقہے لگا کر ہنستے رہے اور بیرا اپنی جگہ حیران کھڑا رہا ۔ سچی بات ہے ، مجھے دل میں یہ حرکت بہت بری لگی۔ پھرکیا ہوا؟ میں تو چائے پیے بغیر دوسرے دروازے سے باہر نکل گئی ۔اس وقت اگر آج کی طرح میڈیا کا ماحول ہوتا تو یہ تصویر مشتہر ہو جاتی۔ شکر ہے وہاں کوئی فوٹوگرافرنہ تھا ۔ معلوم نہیں اورکون کون لوگ وہاں موجود تھے ۔کسی کو یاد بھی ہوگا کہ نہیں ۔ یہ گھبراہٹ اور تاسف مجھے گھر پر بھی رہا‘‘۔
ایک اور منظر دیکھئے:
'' ان دنوں ایک بات بہت مشہور ہوئی تھی اور میں نے بھی اسمبلی کے ارکان کے منہ سے ہی سنی تھی ۔ دروغ برگردن راوی کیونکہ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا ، اس لیے اللہ مجھے معاف کرے ۔ ایک خاتون جنرل الیکشن جیت کے آئی تھی۔ اس کا پورا گروپ اگرچہ اس کی پشت پر تھا مگرکسی طرف سے اسے وزارت کا سگنل نہیں مل رہا تھا ۔ایک صبح وہ معزز عورت جھاڑو پکڑکر جناب میاں نوازشریف کے گھر ماڈل ٹائون چلی گئی اور صبح ان کے صحن میں جھاڑو لگانے لگ گئی تھی ۔ یہی وہ وقت تھا جب محترم میاں محمد شریف صاحب فجرکی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر آتے تھے ۔ انہوں نے ایک معزز صاف ستھری عورت کو جھاڑو لگاتے دیکھا تو حیران ہوئے ۔ پوچھا: بی بی تم کون ہو ؟ کیوں جھاڑو لگا رہی ہو؟
اس نے اپنا تعارف کرایا اور رونے لگ گئی ۔ بولی: میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں، خدا کے واسطے مجھے وزارت دے دیں ۔ میں ساری زندگی آپ کی نوکرانی بن کر رہوں گی اور آپ کے صحن میں جھاڑو لگاتی رہوں گی، بعد میں اسے وزارت مل گئی تھی‘‘۔
ان اقتباسات کے لئے ماہنامہ '' الحمرا ‘‘ کا تازہ شمارہ کھولیے اور اس کے صفحہ چونسٹھ پر ''لکھی کو کون موڑے ‘‘ کی پندرھویں قسط پڑھ لیجیے ، اس کے علاوہ بھی بہت باتیں آپ کی دلچسپی کا باعث ہو نگی ۔ بشریٰ رحمٰن کی دلچسپ تحریر کا مزہ لینے کے لیے ان کی کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں ۔۔۔مگر یہ کتاب قسطوں میں جنم لے رہی ہے۔ جی ہاں، بشریٰ رحمن کی یادوں کی البم کی تصاویر آپ کو بہت بھلی لگیں گی؟ 
یہ بشریٰ رحمٰن کے اس دور کی زندگی کی جھلکیاں ہیں جب وہ صوبائی اسمبلی کی ممبر ہوا کرتی تھیں ۔ بشریٰ رحمٰن نے اور بھی واقعات تحریر کیے ہیں ۔ سیاست کے ''اندرخانے‘‘کیا کیا ہوتا ہے ، ہم ایسے عام لوگ جو سیاست کی الف بے سے بھی آگاہ نہ ہوں ایسے واقعات سن کر حیران ہو جاتے ہیں ۔ ویسے تو میڈیا کے اس دورمیں آپ جانتے ہیں کہ سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والوں یا صاحب ِاختیار لوگوں کے بارے میں کیا کیا معلومات سامنے آتی رہتی ہیں۔ہمارے صحافی ''کرپشن کہانیاں‘‘ لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ ہم بات ادبی جرائدکی کر رہے تھے، ادبی رسائل و جرائد کا حلقہ بہت زیادہ وسیع نہیں ہوتا اس لیے وہ کم پڑھے جاتے ہیں؛حالانکہ جرائد کے مضامین بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوتے۔
''الحمرا‘‘ شاہد علی خان نفاست سے شائع کرتے ہیں ۔ ادبی رسائل وجرائد کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے۔اہل قلم بھی رسالہ خریدکر نہیں پڑھتے۔ ادب اور ادیب کے بارے میں تو میں اکثر لکھتا رہتا ہوں کہ ہم ادبی رسالے میں شائع ہونے والی اپنی تخلیق(غزل ، کہانی ، مضمون) دیکھ کر رسالہ ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ بعض لوگ فہرست پڑھنا ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ ہم ادبی جرائد ارسال کرنے والو ںکو اس کی رسید تک نہیں دیتے، پھر بھی ہمت ہے ان جرائد شائع کرنے والوں کی کہ وہ باقاعدگی سے اپنے جرائد نہ صرف شائع کرتے ہیں بلکہ بذریعہ ڈاک اہل ِقلم تک پہنچاتے بھی ہیں۔ مارچ کے تازہ الحمرا میں''کشمیراداس ہے‘‘ جیسی شہرہ آفاق تصنیف کے خالق محمود ہاشمی کی وفات پر چند خصوصی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ڈاکٹر انور سدید ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور یعقوب نظامی نے محمود ہاشمی کی یادوں کے حوالو ں سے عمدہ مضامین پیش کیے ہیں جو پڑھنے کے لائق ہیں ۔ اسی طرح اشاعتی ادارہ سنگ میل کے روح و رواں نیازاحمد (مرحوم) کی یادوں کو تازہ کرنے میں ڈاکٹر اے بی اشرف نے کمال کیا ہے۔ ان کے مضمو ن میں سفر نامے کی کئی جھلکیاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ نیاز احمد بلا شبہ محنتی، مخلص اور نہایت درد مند انسان تھے ۔کتاب کی اشاعت اور فروغ کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ یا درکھی جائیں گی۔ اسی شمارے میں شفقت تنویر مرزا،احمد ہمیش اور نوجوان شاعر افتخار جعفری (مرحوم) کے بارے میں تابندہ تحریریں شامل ہیں ۔ پروفیسر حمید احمد خان کی چالیسویں برسی پر ان کی تحریروں میں سے ایک بہت عمدہ تحریر بھی شامل ِاشاعت ہے جس میں علامہ اقبال کی شخصیت کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ قسط وارسفرناموں میں خورشید رضوی ، جمیل یوسف اور ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی نگارشات بھی بہت دلچسپ اور فکر انگیز ہیں۔ شاہد علی خان مدیر الحمرا ہر ماہ ملک کے بہترین لکھاریوں کو یکجا کرتے ہیں ۔
کسی زمانے میں ادبی جریدہ ''تخلیق ‘‘کے خطوط بہت دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ ''تخلیق ‘‘پڑھنے والے سب سے پہلے اسی گوشے کو پڑھتے تھے ۔ ان دنوں الحمرا کی''محفل ِاحباب‘‘ کاگوشہ اہلِ قلم کی توجہ کا مرکز ہے ۔ ہمارے ایک دوست ادبی رسائل کے ان خطوط کوادب کی دیوار پر لکھی ہوئی تحریروں کا نام دیتے ہیں ۔ خطوط کا زمانہ اگرچہ لد چکاہے مگر رسائل وجرائد کے مدیروں کو آج بھی خطوط لکھے جاتے ہیں اوران خطوط میں ادب اور ادیب سے متعلق بہت اہم پہلو تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ان دنوں قائم نقوی بھی ایک رسالہ نمود شائع کر رہے ہیں مگر وہ صرف پرچہ خریدکر پڑھنے والے کو دکھاتے ہیں۔ نمود ِ حرف کے نام سے ایک اور ادبی جریدہ بھی حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے جس کے سر پرست ڈاکٹر تبسم کاشمیری ہیں جبکہ مدیر عرفان پاشا ہیں ۔ان پرچوں کو زندہ رکھنے کے لیے حکومت کے علاوہ ہمیں بھی تعاون کرنا چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں