ظلم رہے اور امن بھی ہو؟

لائقِ تحسین ہیں خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کہ وہ مظفرگڑھ کے علاقے بستی کنڈی پتافی جتوئی میں زیادتی کا شکارہونے اور پھر انصاف کے لیے خود سوزی کرنے والی بچی آمنہ کے گھر پہنچے اور نہ صرف یہ کہ سوگواران کو تسلی دی ،ان سے تعزیت کا اظہار کیا بلکہ قانون کے رکھوالوں اور ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم بھی دیا۔میاں شہباز شریف اس سے قبل بھی ایسے مواقع پرکبھی پیچھے نہیں رہتے۔ وہ مظلوموں کی داد رسی میں خلوصِ دل سے پیش پیش رہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے آمنہ کی والدہ کو دلاسہ دیا ، انہیں پانچ لاکھ روپے کا چیک اور آمنہ کے بھائی کو ملازمت دینے کا فیصلہ بھی کیا۔ یہ سب کچھ بجا لیکن کیا میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ جیسا سوچتے ہیں ویساہو بھی جائے گااور یہ کہ ملزمان کو قرارِواقعی سزا بھی مل جائے گی۔ عام آدمی اب اِن سارے دعوئوں اور فیصلوں پراعتماد نہیںکرتا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ایسے سانحات میڈیا میں آنے تک ہر جگہ کچھ نہ کچھ ہلچل رہتی ہے ،افسران معطل بھی ہو جاتے ہیں،بعض کچھ عرصہ جیلوں میں بھی گزار لیتے ہیں، لیکن اس سے آگے کے بھی کئی مراحل ہوتے ہیں ،ان مراحل تک ہمارے تیز رفتار میڈیا کی نگاہ نہیں جاتی۔ میڈیا اگر کسی واقعے کو آخری دم تک اپنی نگاہ میں رکھے اور انجام تک پہنچائے تو اور بات ہے لیکن سرکاری افسران، جن میں خاص طور پرمحکمہ پولیس کے اہلکارشامل ہیں ''پیٹی بھائیوں‘‘ کاخیال رکھتے ہیں۔ اسی کو پنجابی میں کہتے ہیں : بھرا بھرانواں دے، چچڑ کانواں دے ۔ یا پھر۔۔۔ مجاں مجاں دیاں بھیناں ہوندیاں نیں ، یعنی بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوا کرتی ہیں۔ قانون و انصاف کے محکمے سے وابستہ سبھی لوگ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔
پرانا واقعہ یاد آرہاہے : کالج کے ایک پرنسپل کوتھانیدار نے تھپڑ دے مارا ۔ بات بڑھی تو ایس پی صاحب نے فوراً متعلقہ افسر کو معطل کر دیا۔طلبا اور اساتذہ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ پرنسپل صاحب بھی خوش کہ پولیس کے اعلیٰ افسر نے بروقت کارروائی کر کے اُن کی لاج رکھ لی ، لیکن ہوا کیا؟ دو چار دن بعد ہی تھانیدار بحال کر دیاگیا۔ یہ نئی بات نہیں بلکہ ایک روٹین ہے۔ معطلی اور بحالی میں دیر کتنی لگتی ہے۔
اب تو عوام الناس بھی جان چکے ہیںکہ ایسے فیصلے محض دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ بدعنوان افراد کم ہی اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ میڈیا پر آنے والے واقعات پر ہی زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔آپ کسی بھی وزیر، مشیر یا اعلیٰ افسر کے دفتر کی فائلیں چیک کر لیں،انصاف کے لیے ہزاروں درخواستیں پڑی ہوں گی۔ فریاد کرنے والوں کی فائلیں، دفاتر میں گرد کے ڈھیر میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ایسے واقعات توہرروزرونما ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟کتنے واقعات کا اعلیٰ عدلیہ نوٹس لیتی ہے اور پھر نوٹس کے بعدکے مراحل پرکتنا دھیان دیا جاتا ہے؟ہمیشہ یہی کچھ ہوتا ہے اور پھر آخرکار سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔
مختاراں مائی جیسی کتنی خواتین اِس معاشرے میں موجود ہیں۔کتنے لوگ انصاف کے لیے خود سوزی کرتے ہیںمگرکیا انہیں انصاف مل جاتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سماج کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ غور کریں توعدالتوں میں ایسے کئی مقدمات انصاف کے منتظر ہیں۔ہم نے کسی کرپٹ وزیر، مشیر یا صاحب ثروت ، اثرو رسوخ والے شخص کو سخت سزا پاتے نہیں دیکھا۔
تھرکے سانحے کو ہی لے لیں،اس میں سندھ کے بااختیار لوگ غفلت کے مرتکب پائے گئے ہیں۔انہیں فقط کچھ عرصے کے لیے منظر سے ہٹا دیا گیاہے۔کیا محترم امین فہیم یا آصف زرداری اپنے قریبی لوگوں کو سزا دے سکتے ہیں؟ہرگز نہیں ۔ مخدوم امین فہیم کے اکائونٹ میں رقم کا قصہ جوں کا توں ہے۔اس کا کیا ہوا؟ کیامیڈیا اور نیب اِس کی تہہ تک پہنچے ہیں؟سچی بات یہ ہے اگر بد عنوانی کے مرتکب افراد کو عدالتیں بر وقت انصاف کر کے عبرت کا نشان بنانے والی سزائیں دیںتو عین ممکن ہے ایسے افراد ڈر کر باز آجائیںکیونکہ لاتو ں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اگر ظلم و زیادتی کرنے والوں ،کرپشن ،ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ کرنے والوں اور راشی افراد میں سے صرف دوچار ہی کو چوکوں میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔ میاں شہباز شریف اس سلسلے میں اگر اپنے ارکان اسمبلی کے دبائو کے بغیر،اثرورسوخ والے چند بد عنوان افراد کو اپنی نگرانی میں انجام تک پہنچا دیں تو ہمارا سارا نظام درست ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر محکمہ پولیس کواسی طرح بہتر بنا دیا جائے تو دوسرے محکموں کے اہلکارخود بخود ٹھیک ہوجائیں گے ۔ نااہل، غیر ذمہ دار اور راشی افراد سے محکمہ پولیس کو پا ک کر دیا جائے تو آئندہ کوئی غریب آمنہ خود سوزی پر مجبور نہیں ہوگی۔ پھر وزیر اعلیٰ کو خود کہیں جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔عام آدمی تھانے جاتے ہوئے اِسی لیے خوفزدہ ہوتاہے کہ وہاں شائستگی سے بات سننے والا بھی کوئی نہیں ہوتا ۔کانسٹیبل کی رعونت ہی دیدنی ہوتی ہے، افسران تو خودکو 'خدا‘ سمجھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اگر حاکم ِوقت اِن افسران کی کڑی نگرانی رکھے تو سبھی ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن جب آپ ظلم کرنے والوں کو سزائیں نہیں دیتے یا ہمارے نظام میں موجود خرابیوں کے سبب وہ سزا سے بآسانی بچ جاتے ہیں تو پھر صوبے کاحاکم ہمیشہ یہ کہتا رہے گا کہ ''آمنہ کی ہلاکت،انصاف، انسانیت اور اِس سسٹم کے منہ پر طمانچہ ہے‘‘۔
اگر خادمِ اعلیٰ خود کو جواب دہ سمجھتے ہیںتو اس سارے نظام کو درست کرنے کے لیے انہیں اپنے اردگرد دیانتدار اور نڈر ہونے کے ساتھ ساتھ خدا ترس افسران بھی رکھنے پڑیں گے جو اپنی ذمہ داریا ں بلاخوف و خطر اورکما حقہ پوری کریں۔ آمنہ کے کیس میں جس طرح مظفر گڑھ میں متعلقہ افسران کوگرفتارکرنے کے احکامات دیے گئے ہیں اسی طرح دیگر شعبوںکے بھی کرپٹ اور غیر ذمہ دار افسران سے باز پر س کی جائے تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وزیر اعلیٰ کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن ِپارلیمنٹ کی سفارش نہ مانیں ۔ عموماًََ دیکھا یہی گیا ہے کہ کوئی شخص پکڑا جاتا ہے تواس کے سرپرست حرکت میں آجاتے ہیں اور اگرملزم اپنی ہی پارٹی کا ہو تواس کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ ناجائز تجاوزات سے لے کر ٹیکس چھپانے اورذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ تک کے سلسلے میں ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، قانون کو آزادانہ کام کرنے نہیں دیا جاتا۔کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے جب تک وہاں سب سے پہلے مجرموں کی سرپرستی کرنے والوں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا۔ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب بے لوث اور بے خوف قیادت ہوجو کسی سیاسی اورا خلاقی مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر قانون کو اپنا کام کرنے دے۔ چیک اینڈ بیلنس کے بغیر گڈ گورننس کبھی قائم نہیں ہو سکتی ۔ آپ شاعر حبیب جالب سے پیار کرتے ہیں اور اس کی نظمیں بھی پڑھتے ہیں، اسی جالب نے کہہ رکھا ہے :
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے! تم ہی کہو؟
اگر یہی حال رہا تو پھر بقول شاد عارفی
دیکھ لینا کہ ہر ستم کا نام
عدل ہو گا کسی زمانے میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں