دریا ئے محبت کا سفر

لاہور میں میرا پہلا پڑائو ریڈیو پاکستان تھا۔ملتان میں ہمارے ایک دوست خورشید ملک نے مشورہ دیا تھا کہ لاہور میں ان کے ایک پروڈیوسر دوست مجھے باقاعدہ پروگرام دینے میں بے حد معاون ثابت ہوں گے۔ لاہور میں صحافت کے ساتھ ریڈیو پروگراموں سے کچھ نہ کچھ گزارا کیا جا سکتا تھا۔اسی گمان میں ہم ریڈیو پہنچے تھے مگر وہ گمان کبھی یقین میں نہ بدل سکا، ان پروڈیوسر صاحب نے اتنا ضرور کیا کہ ہماری کچھ نظمیں ریکارڈ کر لیںمگر اس کا چیک بنانا بھول گئے۔ ہمیں بے روزگاری کے ان دنوں میں ریڈیوچیکس کی بہت ضرورت ہوتی تھی، کہنے کو اگرچہ ہم ایک مقامی اخبار میںبھی کام کرتے تھے مگر اس کی تنخواہ برائے نام ہی تھی۔ کیا عجیب دن تھے، ہم صبح ریڈیو جاتے پھر اخبار کے دفتر اور شام کو فلم سٹوڈیو یا پاک ٹی ہائوس پہنچ جاتے۔ ہم ملتان میں اپنے آپ کو بہت مشہور شاعر خیا ل کرتے تھے مگر لاہور آئے تو سٹی گُم ہوگئی کہ ہمیں تو پاک ٹی ہائوس میں پہچاننے والا کوئی نہ تھا، لاہور میں ملتانی پردیسیوں کو تلاش کیا۔ رضی الدین رضی ، طفیل ابن گل ہم سے کچھ عرصہ قبل لاہور وارد ہوئے تھے ، وہ بھی لاہور کا ''کشٹ ‘‘ کاٹنے میں مصروف تھے ، کچھ ماہ بعد یارِ عزیز اطہر ناسک بھی اپنا تبادلہ کرا کے اس ٹولی میں شامل ہو گیا۔ اب ہوتا کیا تھا ،اپنے اپنے معمولات سے فراغت پاتے ہی ہم شام کو اکٹھے ہوجاتے اور رات گئے تک سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے، تھک جاتے تو کسی سینما کا رخ کرتے جہاں خاص طور پر گرمی کے دنوں میں ہمارے چند گھنٹے بہت اچھے گزر جاتے۔پاک ٹی ہائوس میں ان دنوں خاصی رونق ہوا کرتی تھی، لاہور میں اس وقت ادیبوں شاعروں کی ایک کہکشاں موجود تھی،احمد ندیم قاسمی، سیف الدین سیف،منیر نیازی، احمد راہی، قتیل
شفائی، مظفر وارثی، کلیم عثمانی، شہزاد احمد،عارف عبدالمتین، انجم رومانی، ظہیر کاشمیری،اے حمید، یزدانی جالندھری، طفیل ہوشیار پوری،اور بہت سے دیگر ادبی ستارے لاہور کے ادبی افق پر دمک رہے تھے۔ بات ریڈیو کی ہو رہی تھی تو ہمارا زیادہ وقت سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں گزرتا۔ ان دنوں سلیم خاں گمی وہاں کے کنٹرولر تھے ، اعظم خان پروگرام منیجر تھے ، پروڈیوسرز میں خالد اصغر ، شاہد لطیف، ستار سید بھی تھے ، اس وقت یہاں اردو پنجابی گیت تیار ہوتے تھے ۔ ریڈیو کے پروگراموں کا معاوضہ سو پچاس روپے ہوتا تھا مگر اس میں بھی بڑی برکت ہوتی تھی۔ جیب خالی ہوتی تو ہم ریڈیو کے چیک کی تلاش میں ریڈیو پہنچ جاتے۔اب تو ہمیں ادبی پروگراموں میں بلایا جانے لگا تھا۔ریڈیو کی ضرورت کے مطابق ہم وہیں بیٹھ کر گیت بھی مہیا کر دیتے ۔ اسی دور میں زاہد بخاری سے ملاقات ہوئی تھی ،وہ درویش صفت انسان شاعر تو تھے ہی شعرا سے بے حد محبت بھی کرتے تھے ۔ ہم زیادہ تر ستار سید کے پاس بیٹھتے یا پھر زاہد بخاری کے کمرے میں ۔ شہوارحیدرانجم ان دنوں نئے نئے سی پی یو میں آئے تو ہمارا ٹھکانہ ان کا کمرہ بن گیا۔ اس دور میں ہم نے بہت سے یادگار گیت تخلیق کیے۔ پھر میری پوسٹنگ قصو رکالج میں ہوگئی تو ریڈیو کا چکر کم لگتا۔ بعد ازاں ہم پرٹی وی کا دروازہ کھل گیا تو وہاں وقت گزرنے لگا ۔ وقت کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا ، ریت کی طرح مٹھی سے نکل جاتا ہے ،خبر اس وقت ہوتی ہے جب مٹھی خالی ہو جاتی ہے۔ آج اتنے برس بعد راجا نیر نے بتایا کہ آپ کو زاہد بخاری یاد ہیں جو ریڈیو پر ہوا کرتے تھے۔
کہا: ہاں بالکل یاد ہیں ۔ بہت ہی نفیس اور عمدہ انسان تھے‘ کیا ہوا انہیں؟ راجا بولا‘ انہیں کچھ نہیں ہوا، اُن کی کتاب کا پروگرام ہے‘ جس کی صدارت آپ کو کرنی ہے۔ یہ کتاب آپ لیں اور دیکھئے ٹائم نکالنا ہے۔ زاہد بخاری کا سن کر کتنی ہی باتیں یاد آکر رہ گئیں۔ ان کا تازہ مجموعہ میں نے پڑھا نہیں صرف سونگھا ہے، اس کی خوشبو نے مجھے سرشار کر رکھا ہے۔ '' دریائے محبت ‘‘ میں گہرا اترنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ،کناروں پر ڈوبنے کا سماں ہے۔زندگی بھی شاید ایک دریا ہے جسے کیسے کیسے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ''دریائے محبت ‘‘ کو اپنے سفر میں کئی سخت مقامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر زیست محض پھولوں کی سیج تو نہیں ،اِس میں خار زار بھی ہیں اور دکھوں کے ریگ زار بھی۔آپ زاہد بخاری کی شاعری میں زندگی کی رنگا رنگی سے آشنا ہوں گے۔ جیون کی کتنی ہی متنوع تصاویر دریائے محبت کے کینوس پر دکھائی دیں گی۔
پھیلی ہیں سارے شہر میں ہر سُو اداسیاں
اب جی یہ چاہتا ہے کہ ویرانہ دیکھئے
کٹ رہے ہیں دن مرے اچھے دنوں کی آس میں 
جی رہا ہوں اب تو زاہد میں اسی امکان میں 
جی بھر کے رو لو گوشۂ خلوت میں بیٹھ کر
پھر مسکرا تے رہنا ہے یاروں کے سامنے
یقین کریں ان اشعار کو پڑھ کر دل اداس ہو گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اکیسویںصدی کا انسان انہی کیفیات سے گزر رہا ہے۔زاہد بخاری بڑی سادگی اور سچائی سے دل کے احساسات اور جذبات شعروں میں ڈھالنے پر قادر ہیں ۔ ان کے ہاں زمانے کی سرد مہری، غربت، جبر اور معاشرتی ناہمواریوں کی کئی صورتیں نمایاں ہیں ۔وہ نہ صرف انسانی رشتوں کے زوال پر نوحہ کناں ہیں بلکہ ارد گرد کی بے حسی اور انتشار پر بھی کڑھتے رہتے ہیں ۔
اس کا اُڑایا شہر کے لڑکوں نے جب مذاق
چرخہ اٹھا کے چاند پہ بڑھیا چلی گئی
یہ سانحہ ہے کہ اس دورِ زر پرستی میں 
غریب پھانسی کے پھندے پہ جھول جاتے ہیں 
یوں تو پڑھا لکھا ہے مگر پیٹ کے لئے
وہ پھول بیچتا ہے مزاروں کے سامنے
زاہد بخاری کی شاعری ایک حساس اور دردمند انسان کی شاعری ہے جس میں سچائی اور درد کا گہرا امتزاج محسوس کیا جا سکتا ہے۔ان کے شعروں میں وطنیت کا احساس بھی نمایاں ہے ، ظلم کی چاہے جو بھی شکل ہو‘ انہیں مکروہ لگتی ہے۔
دہرائی جارہی ہے وہی داستانِ ظلم
کشمیر میں‘ عراق میں‘ ارضِ سوات میں 
غیر تو دشمن تھے اب اپنے بھی دشمن ہوگئے
یا الٰہی رحم کر تو ملکِ پاکستان پر
ظلم اتنے دشت میں حیوان بھی کرتے نہیں
بڑھ گئے جتنے ستم انسان کے انسان پر 
زاہد بخاری کا شعری مجموعہ '' دریائے محبت‘‘ پڑھ کربہت لطف آیا اور مجھے ان کے باطن سے شناسائی میں مزید مسرت حاصل ہوئی ہے ۔ وہ ریڈیو سے ریٹائر ہو کر واپس اپنے شہر سیالکوٹ جا بسے ہیں ، وہاں وہ نئے لکھنے والوں کی ادبی تربیت میں بھی مصروف ہیں، ترنم سے مشاعرے بھی لوٹ لیتے ہیں۔وہ موسیقی کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ ہیں اور شاید یہ سب ممتاز موسیقار مجاہد حسین کی صحبتوں کے اثرات ہیں جن کے ساتھ وہ ریڈیو لاہور کے سی پی یو میں ایک ہی کمرے میں بیٹھتے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کی اس تقریب میں شرکت اورگفتگو سے بھی ان کے محبانہ مراسم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔زاہد بخاری کی شاعری پڑھ کر آپ بھی ہلکے پھلکے ہو سکتے ہیں‘ بالکل ان کے اس شعر کی طرح:
صاف ہو جاتا ہے یوں رونے سے مطلع دل کا
جس طرح دھوپ نکل آتی ہے برسات کے بعد

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں