مشاعروں کی روایت اور ہمارا آج

لگ بھگ 1940ء کے ابتدائی دنوں کی بات ہے،سینٹ ہال پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کُل ہندمشاعرہ جاری تھا۔ایک سے بڑھ کر ایک نامی شاعر اپنا کلام پیش کر رہا تھا۔ایک بڑی بڑی مونچھوں والا ہندو شاعر اپنی باری پر کلام سنانے آیا تو اس کی غزل کی زمین کچھ یوں تھی :
آفت ِجاں ہیں مری جاں یہ تمہاری آنکھیں
مطلع کے بعد واہ واہ کا شوراٹھا، اسی شور میں ایک شخص نے تقریباًچلّا کر ردیف کو یوں بدل دیا: تمھاری مونچھیں ، یعنی: 
آفت ِجاں ہیں مری جاں یہ تمہاری مونچھیں
اب شاعراپنا شعرپڑھتا تومجمع سے آواز آتی: یہ تمہاری مونچھیں۔مت پوچھیے کس بے بسی سے شاعر اپنی غزل ادھوری چھوڑکر سٹیج سے اترگیااورہال میں قہقہوں کے شور میں بہت دیر تک ہڑ بونگ مچی رہی ۔
مشاعروں میں اس طرح کے واقعات اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔اب تو پبلک مشاعروں کا وہ سلسلہ نہیںرہا۔ میڈیا کی یلغار نے تفریح کے بے پناہ ذرائع پیدا کر دیے ہیں وگرنہ مشاعرہ بھی ایک اچھی خاصی تفریح ہواکرتا تھااوراس سے ذوق کی تسکین ہوتی تھی۔ مشاعرے ہمیشہ ہماری ادبی وتہذیبی روایات کا حصہ رہے ہیں۔آج بھی مشاعرے کی روایت تو زندہ ہے مگر یہ عموماً تہواروں پر منعقدکیے جا تے ہیں۔ جشن ِبہاراں،یوم پاکستان یا پھر یومِ آزادی کے مواقع پر مشاعرے قدرے محدود پیمانے پر برپاکیے جاتے ہیں۔سرکارکو دیگرکاموں سے فرصت نہیں،اگر ہو بھی تو زیادہ تر ''یوتھ فیسٹیول‘‘ کھیلوں یا موسیقی پر بے بہا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ہاں اگر کسی ضلعے کا ڈپٹی کمشنر یاکوئی اہم افسر ادبی ذوق رکھتا ہو یا پھر وہ خود بھی شعرکہتا ہوتو کسی نہ کسی بہانے مشاعرے کا موقع نکال لیتا ہے۔
ادبی ذوق کے حامل افسران انگلیوں پرگنے جا سکتے ہیں،ان میں مرتضیٰ برلاس،طارق محمود،افسرساجد ، سید شوکت علی شاہ، فیاض تحسین ، جواد اکرام اورکچھ دیگر نمایاں ہیں۔ان میں سے بیشتر سبکدوش ہو چکے ہیں مگر اپنی ملازمت کے دنوں میںیہ افسران جہاں جہاں تعینا ت رہے،انہوں نے ادبی حوالے سے تقریبات اور مشاعروں کی روایات کو ہمیشہ زندہ رکھا۔مرتضیٰ برلاس خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں، سو انہوں نے مشاعروں پر خصوصی توجہ دی۔ایک زمانے میں انہوں نے وہاڑی میں ''شب مہتاب‘‘ مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا تھاجو ایک عرصہ تک جاری رہا۔ یہ مشاعرہ چاند کی چودھویں رات، چاندنی میں وسیع سبزہ زار میں منعقد ہوتا تھا۔اِن دنوں برلاس صاحب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور تقریبات میں بہت کم جاتے ہیں۔افسری اور اقتدار بھی عجیب معاملہ ہے ، انسان جب تک صاحب ِاختیار ہوتا ہے،خوشامدیوں کا جمِ غفیر اس کے اردگردہوتا ہے مگرکرسی سے الگ ہوتے ہی سایہ بھی ساتھ چھوڑدیتا ہے۔آج بھی کئی بیوروکریٹ اہم لکھاریوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ان کی کتابوں کی تقریبات اوران پردھڑا دھڑ مضامین بھی شائع ہورہے ہیں۔ایسے افسر لکھاریوں کو خوشامدی، انفرادیت کے بانس پرچڑھا دیتے ہیں اوردلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ساری عمراسی''سولی‘‘ پرٹنگے رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ادب میں اہمیت صرف اور صرف ''زندہ حرف‘‘کی ہوتی ہے۔ خود پرکتابیں لکھوانے والے اختیارات کی کرسیوں سے الگ ہوتے ہی کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔کچھ یہی حال علمی،ادبی، ثقافتی اداروںکے سربراہوںکا بھی ہوتا ہے،اگر وہ جینوئن ادیب نہیںاور محض عہدے کی بیساکھی سے ہر جگہ نمایاں ہیں تو عہدے سے الگ ہوتے ہی ان سے کوئی سلام تک نہیں لیتا۔ جب صرف پاکستان ٹیلی ویژن ہوا کرتاتھا، ہمارے بہت سے پروڈیوسردوست ہوامیںاُڑاکرتے تھے، لیکن ملازمت سے سبکدوش ہو نے کے بعدانہیں ادبی حلقوں میںکوئی پوچھنے والا نہیں ۔ یہ باتیں لکھنے کا مقصدکسی کی دل آزاری ہر گز نہیں، ہم صرف ان اصحاب ِ اختیار حضرات کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ کرسیاں ہمیشہ نہیں رہتیں۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔!
بات مشاعروں سے چلی تھی۔ لاہور میں تو اب اِکا دُکا مشاعرے ہوتے ہیں۔ پلاک میںادبی رونق ہے، معروف شاعرہ ڈاکٹرصغرا صدف سے اہلِ قلم مطمئن ہیںکہ وہ کسی کی حق تلفی نہیںکرتیں۔ یہ درست ہے کہ شاعروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث سب کو مدعوکرنا دشوارہوتا ہے مگر سرکاری تقریبات میں جینوئن اور نہایت متحرک اہل ِقلم کو نظراندازکرنا، سرا سرناانصافی ہے۔اور جب کسی سرکاری ادارے میں ایسا ہوتا ہے تو احتجاج بھی ہوتا ہے۔ جہاں تک مشاعروں کی شاندار روایات کا تعلق ہے، اس سے شہریوں کا ادبی ذوق پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ادبی سرگرمیوں سے نوجوانوں میں مثبت سوچ اجاگرہوتی ہے۔اب تو یونیورسٹی اورکالجوں میں بھی ایسی تقریبات کم کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لے دے کے خواتین کالجوں میں مشاعروںکو نہایت سلیقے سے منعقدکرنے کی روایت باقی ہے۔ پچھلے کچھ روز سے چند علمی ادبی تقریبات اور خاص طور پر مشاعرے دیکھنے کو ملے جن میں ایجوکیشن کالج بینک روڈ ،گرلز کالج وحدت روڈ ،ایف سی کالج لاہوراورگورنمنٹ کالج برائے خواتین گلبرگ کے مشاعرے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔گلبرگ کالج میں ممتاز شاعرہ فرح زہرہ گیلانی کی آمد سے ادبی رونقیں بحال ہوگئی ہیں۔انہوں نے اپنی پرنسپل فرزانہ سلیم صاحبہ کی ہدایت پرایک بہت ہی عمدہ مشاعرہ منعقدکیا جس میں مسز ریحانہ الطاف، شازیہ فیاض ، بنت الخورشید،مسرت کلانچوی، طاہر ابدال،ڈاکٹر اشفاق ورک ، سعید الفت، صوفیہ 
بیدار، ڈاکٹر صغرا صدف ، ڈاکٹرایوب ندیم ،صدر محفل ڈاکٹر یونس احقر اور راقم نے کلام پیش کیا۔اسی طرح حلقہ ارباب ذوق کی رونقیں ڈاکٹر غافر شہزادکی قیادت میں پاک ٹی ہائوس میں جاری ہیں۔اس بار یوم ِپاکستان کی مناسبت سے خصوصی محفل ِمشاعرہ کا انعقادکیا گیاجس کی صدارت ممتاز ماہر تعلیم ،محقق ،نقاد اور شاعرڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کی۔اسی روز ان کی 74ویں سالگرہ بھی تھی۔یہاں خواجہ صاحب اور یار عزیزباقی احمد پوری کی سالگرہ کے کیک بھی کاٹے گئے۔مشاعروں میں حفظِ مراتب کے معاملات پر شکر رنجیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ بعض جونیئراورنو وارد شعرا وشاعرات اِس سلسلے میں باقاعدہ منصوبہ بند ی سے خودکو سینئر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ مشاعرہ شروع ہونے سے قبل نظامت کرنے والے پردبائو ڈلواتے ہیں کہ انہیں سینئر شعراء کے بعد پڑھوایا جائے۔ کاش وہ جان سکیں کہ ایڑیاں اٹھانے سے کوئی قدآور نہیں بن سکتا۔ بہر حال شاعروں کی آپس کی نوک جھونک کوئی نئی بات نہیں، چلتے چلتے ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی کے لئے : 
کسی مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سناتے سناتے مولانا چراغ حسن حسرت سے مخاطب ہوئے: ''حسرت صاحب ! مصرع اٹھائیے! عرض کیا ہے...‘‘
اور حسرت ، حفیظ کا مصرع سننے سے پہلے ہی نہایت بے چارگی سے بولے: '' فرمائیے حضرت! شوق سے فرمائیے، اپنی تو عمر ہی غزلوںکے مصرعے اٹھانے اور مُردوں کوکندھا دینے میں کٹ گئی ہے‘‘۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں