اپریل میں پھول کھلتے ہیں تو مجھے بے طرح منیر نیازی یاد آتا ہے۔ وہ اِس شہر میں زندہ تھا تو لگتا تھا کہ شہر میں شاعری کی خوشبو آباد ہے۔ وہ بہ نفسِ نفیس موجود تھا تو ایک احساس دل میں روشن رہتا کہ کوئی تو ہے جو اس شہر میں محبت اور زندگی کی تابندہ علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب تو اس شہر میں بس منیر نیازی کی یاد باقی ہے۔ اس یاد کی درگاہ پر صرف اور صرف اجمل نیازی اگربتیوں کے دھوئیں میںدکھائی دیتا ہے ۔ اس کی دستار اس قبیلے کی یاد دلاتی ہے جس کا شاعر منیر خان تھا اور جسے اجمل نیازی شاعری کاخان اعظم کہتے ہیں۔ منیر نیازی کم آباد شہروں کا قصیدہ خواں تھا۔ ہم اس ''ہجومی شہر ‘‘ کے نوحہ گر ہیں ۔ منیر نیازی آخری ایام میں کہا کرتے تھے کہ اب یہ شہر رہنے کی جگہ نہیں رہی۔ وہ دن خواب ہو گئے ہیں جب لاہور آباد تھا اور مال روڈ پر فنکار اور شاعر رات گئے تک چہل قدمی کرتے تھے۔ اب مال روڈ پر جلتے ٹائروں کا دھواں اور کانوں کو سُنّ کرنے والا شور ہے۔ لاہور میں بھیڑ بڑھی تو منیر نیازی نے کہا ،'' نیا شہر بسانا ضروری ہے‘‘۔ وہ بعض شاعروں کو دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ شاعرکو شکل و صورت سے بھی شاعر لگنا چاہیے مگر بدقسمتی سے ہمارے کئی ادیبوں کی ہیٔت بدل گئی ہے۔ان کے چہروں کو مسلسل چند ثانیے دیکھا جائے تو کیا کیا گمان گزرتے ہیں ۔ واقعتاًشاعر تو منیر نیازی تھا ، اس کے چہرے کا جلال و جمال اس کے شفاف باطن کا غماز تھا ۔ منیر نیازی کم آمیز تھے مگر چبھتا ہوا فقرہ ان کی خاص پہچان تھی ، وہ دھیمے دھیمے گفتگو کرتے تو گویا منہ سے پھول جھڑنے لگتے ۔ ان پھولوں میں بعض ناپسندیدہ اطوار افرادکیلئے کانٹے بھی ہوتے تھے مگر وہ منافقت اور لگی لپٹی کہنے والے نہیں تھے ۔ ۔ تنویر ظہور نے ''ان کی باتیں اور یادیں‘‘ ایک پوٹلی میں بند کر رکھی تھیں ان کے جانے کے بعد اس نے یہ پوٹلی کھول دی ہے ۔ ان کے انٹرویوز میں چھپے اَن چھپے فقرے تنویر نے یکجا کر دیے ہیں ۔ کچھ احباب کے مضامین کو نئے انداز سے پڑھنے کیلئے دوبارہ شائع کیا گیا ۔ منیر نیازی کی یاد کے ساتھ اسی نام ( منیر نیازی کی باتیں یادیں ) کی کتاب بھی مندر کی گھنٹیوں کی طرح پکارنے لگی ہے کہ :
''آئو اپنے شاعر کی یاد منائیں ‘‘
اس کی باتیں‘ فقرے اور زندہ جملے اور اس کے بارے میں تخلیق کاروں کے'' تحسینی پھول‘‘ مہک رہے ہیں ۔ لاہور کی بھیڑ میں ایک تنہا شاعر کو آج پھر سے یاد کیا جارہا ہے ۔ اسی کتاب میں منیر نیازی اپنے ڈھاکہ کی یاد بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ ایک اقتباس پڑھیے:
'' وہاں کے مشہور کوی جسیم الدین نے جب ہمیں اپنے گھر دعوت پر بلایا تو کھانے کے بعد فرشی نشست تھی جس میں لڑکیوں نے رقص کیا اور سماں باندھ دیا۔ ان کی ایک بیٹی کا نام کویتا اور دوسری کا جھرنا تھا ۔ اس محفل میں میرے سمیت اشفاق احمد ، قدرت اللہ شہاب اور ابن انشا بھی شریک تھے۔ جھرنا بلبل اکیڈمی میں زیر تربیت تھی مگر اس نے ایسا رقص پیش کیا کہ اس محفل میں موجود شاعر ادیب مبہوت ہو کر رہ گئے ۔ جب ہم کمرے میں واپس آئے تو ابن انشا جھرنا سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے راتوں رات جھرنا کے ساتھ اپنی شادی کا دعوت نامہ مرتب کر ڈالا ۔ تمہیں یہ سن کر حیرت ہو گی کہ جھرنا بعد میں فلمی دنیا میں آگئی اور یہ آج کی مشہور فلم سٹار شبنم ہے‘‘
تنویر ظہور کی اسی کتاب سے ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجئے :
'' یہ ایوب خان کا دور تھا اور محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھیں۔ ادیب ، مادرِملت کا کھلم کھلا ساتھ دینے سے کترا رہے تھے ۔ احمد مشتاق نے مجھے بتایا کہ ہمارے دانشور کیسے ہیں کہ فاطمہ جناح کا ساتھ نہیں دے رہے اور وہ اکیلی رہ گئی ہیں ۔ میں نے اسے کہا کہ میری طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں بیان لکھو ۔ میرے دستخط کرنے کے بعد کچھ لوگوںکو حوصلہ ہوا‘ چنانچہ بارہ تیرہ ادیبوں نے میرے بعد دستخط کر دیے ۔ محرک میں تھا ۔ ہم ایسے ہی پرائے جھگڑوں میں ٹانگ اڑا دینے والے ہیں جو گرتا ہوا نظر آیا ، اس کو حوصلہ دے دیا۔ جب حبیب جالب نے الیکشن میں حصہ لیا تو ادیبوں میں سے میں واحد شخص تھا جو اُن کے ساتھ تھا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں جب ادیبوں کو پلاٹ تقسیم ہوئے تو کیا منیر نیازی کو پلاٹ ملا؟ میں نے کسی حکومت سے کچھ نہ مانگا۔ رائٹر کالونی میری سکیم تھی مگر مجھے وہاں پلاٹ نہ ملا‘‘
منیر نیازی کو اپنے آخری چند برسو ں میں سرکاری طور پر کچھ نہ کچھ پذیرائی حاصل ہو گئی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ان کیلئے ڈرائیور سمیت گاڑی کا بندوبست بھی کیا تھا۔ ایک روز منیر نیازی کے انٹر ویو کیلئے ایک دوست گئے تو ایک شخص منیر نیازی کے گھر کی ایک ٹوٹی دیوار مرمت کر رہا تھا، بعد میں پتا چلا کہ وہ سرکاری ڈرائیور تھا ۔ منیر نیازی کہنے لگے :'' یہ ویہلیاں روٹیاں توڑتا ہے ، میں نے سوچا کہ یہ بالکل جام ہو کر نہ رہ جائے‘ اس لیے گھر کا کچھ کام اس کے ذمے لگا دیتا ہوں ۔ بس یہ گھر کی سبزی یا سودا سلف لاتا ہے یا مجھے کسی تقریب تک لے جاتا ہے ۔ ــ‘‘ ڈرائیور دروازے پر اس دوست سے ملا تو پوچھنے لگا ''آپ نیازی صاحب کے دوست ہیں ؟ تو شعیب بن عزیز سے کہہ کر میرا یہاں سے تبادلہ کرا دیں ‘‘ مجھے معلوم نہیں کہ ڈرائیور کا کیا ہوا؟ یقینا منیر نیازی صاحب نے خود ہی اس کی منشا کے مطابق اسے واپس محکمہ اطلاعات میں بھجوادیا ہو گا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
منیر نیازی ، انتظار حسین کی طرح اپنے آبائی علاقے کو ہمیشہ یاد کرتے رہے ۔ خان پور ان کے باطن میں کہیں ٹمٹماتا رہتا تھا۔ وہ اس کی یادوں کی سلگتی دھونی میں اپنا آپ تلاش کیا کرتے ۔ کشور ناہید نے درست لکھا کہ منیر نیازی نے معشوق بن کر زندگی گزاری۔ ان کے ماننے والے ، آخری دم تک ان کے '' ناز نخرے ‘‘ برداشت کرتے رہے ۔ ادبی گروپ بندیوں کے موسم میں وہ ،شہر کے ایک کونے میں روشن مینار کی طرح تھا۔ اسے لوگ گھر سے اٹھا کر اپنی تقریبات اور مشاعروں میں لے جاتے اور پھر گھر تک چھوڑ دیتے ۔
منیر نیازی پاکستان کو ایک مثالی وطن دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں ایسا شہر بسانا چاہتا ہوں جس کی حدیں آسمان سے مل رہی ہوں ، میں شہر ِ بہشت سے کم پر مطمئن نہیں ہو سکتا ۔ جب ان کا خواب پورا نہ ہوا تو انہوں نے ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر کہا:
اِس شہر ِ سنگدل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
آج کے حالات پر منیر نیازی کا یہ شعر یاد اکثر یاد آتا ہے:
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ