ہا ں یہ سچ ہے!

بریگیڈئر(ر) محمد اسلم گھمن قوم کے ایسے سپوت ہیں جو آرمی کے بعد بھی کئی اہم اداروں سے وابستہ رہے ۔ اور وہاں شاندار روایات قائم کیں ۔حال ہی میںانہوں نے ایک زبر دست کتاب لکھی ہے اور اس میں بلا خوف و خطر، معا شرے کے '' ناسوروں ‘‘ کو مو ضو ع بنا یا ہے ۔ان کی خودنوشت '' ہا ں یہ سچ ہے ‘‘ میں جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے پردہ اٹھا یا ہے،وہیں معا شرے کے بد عنوان ، لالچی، حرص و ہوس میں گردن تک دھنسے ہو ئے لوگوں کو بھی بے نقاب کرنے کی اپنی سی کو شش کی ہے ۔ اگرچہ انھوں نے نام و مقامات قدرے تبدیل کر کے لکھا ہے مگر سمجھ دار کے لئے اشارہ ہی کافی ہو تا ہے ۔بریگیڈئر صاحب کی یہ کتاب پڑھنے کے بعد ہم مزید اداس ہو گئے ۔ ہمارے کالم نگا ر کرپشن کے حوالے سے کیا کیا کچھ لکھتے رہتے ہیں مگر '' کرپٹ افراد‘‘ کو '' نتھ ‘‘ یا لگام ڈالنے والا کو ئی نہیں ۔
محکمہ اینٹی کرپشن ، نیب اور دیگر احتساب کر نے والے اداروں نے چند ذمہ دار وںکے خلاف مقدمات بھی قائم کیے مگر کسی بڑی مچھلی کو تا حال سزا ملتے نہیں دیکھا گیا۔کرپشن زہر کی طرح ہماری رگوں میں پھیل چکی ہے ۔کوئی محکمہ لے لیں‘ ہر جگہ عام آدمی انصاف کے لئے مارا مارا پھرتا نظر آئے گا۔ بہت سے کرپٹ لوگ حکومتی اور بااثر افراد کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں۔ بریگیڈئر(ر) محمد اسلم گھمن نے کئی کرپشن کہانیاں اپنی کتاب میں بیان کیں ،کئی کرپٹ افراد سے قوم کی لوٹی ہوئی رقوم واپس لیں ،بعضوں کو سزائیں بھی دلوائیں ۔مگر اسلم گھمن جیسے کتنے ہیں؟ یہاں تو ایسے بہت سے لوگوں کی ضرورت ہے۔اسلم گھمن ایک کھرے اور دردمند انسان ہیں۔ ان کی کتاب میں بہت سے دلچسپ اور سبق آموز واقعات اور حقائق سادہ اسلوب میں بیان کئے گئے ہیں ۔'' ہاں یہ سچ ہے‘‘ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنے سماج کی حقیقی صورت دیکھ سکتے ہیں ۔یہ کتاب ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔ سچ بولنے والوں کو عموماًپسند نہیں کیا جاتا ،مگربریگیڈئر (ر) اسلم گھمن ایک دیانتدار اور نڈر افسر تھے۔ شاید اسی بنا پر ان کے باس بھی انہیں دبائو میں نہ لا سکے۔ '' ہاں یہ سچ ہے ‘‘میں سرکاری کرپشن کی چشم کشا داستانیں رقم کی گئی ہیںجو کئی شرفاء کی اصلیت کا پردہ چاک کرتی ہیں۔ ہم ان واقعات کو یہاں دہرانے کی بجائے صرف ایک ایسی کہانی بیان کرتے ہیں جس سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسلم گھمن لکھتے ہیں : ''ایک نیک سیرت بادشاہ کو جب اپنے ایک کرپٹ وزیر کی کرپشن کی اطلاعات ملیں تو اس نے وزیر کو طلب کیا‘ اسے کہا: میں تمہیںتین سوالات دیتا ہوں۔ اگر دو روز میں تم نے ان سوالات کے جوابات دے دئیے تو تمہیں نہ صرف معاف کر دیا جائے گا بلکہ اپنے عہدے پر بھی برقرار رکھا جائے گا۔ بہ صور ت دیگر تم وزارت سے تو جائو گے ہی‘ تمہارا سر بھی قلم کر دیا جائے گا۔بادشاہ کے سوالات درج ذیل تھے۔
دنیا کا سب سے بڑا سچ کیا ہے؟
دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کیا ہے؟
آدمی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بندے کے آگے کب جھکتا ہے؟
وزیر دو دن کی مہلت ملتے ہی دربار سے رخصت ہو گیا۔اس نے آتے ہی اپنے عزیزوں اور دوستوں کو اکٹھا کیا اور بادشاہ کے سوالات ان کے سامنے رکھ دئیے۔سب نے ان پر خوب غور کیا مگر ان میں سے کسی کے پاس ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہ تھا۔اب اس کی مدت کا آخری روز تھا ، وزیر بے حد پریشان تھا اور کسی حد تک مایوس ہوچکا تھا۔ اس نے سوچا آج آخری دن ہے اور جوابات نہ دینے کی صور ت میں وزارت تو چلی جائے گی اس کا سر بھی قلم ہو جائے گا ۔ بہتر یہی ہے جنگل کی راہ لی جائے،جواب مل گئے تو واپس آ جائو ں گا ورنہ وہیں پڑا رہوں گا کم از کم جان تو بچ جائے گی۔اب وزیر جنگل میں پیدل چل رہاتھا چند میل کے بعد ہی اس کی حالت غیر ہو گئی ، سخت پیاس سے اس کا برا حال تھا ۔اچانک اسے ایک بزرگ کسان اپنے کھیتوں میں ہل چلاتا دکھائی دیا۔اس کی جان میں جان آئی کہ اس سے پانی کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا۔قریب جا کر اس نے پانی طلب کیا ۔ کسان اس کے لباس اور حلیے کو دیکھ بولا کہ آپ شکل سے کوئی عام آدمی نہیں لگتے ، اس جنگل میں اکیلے کیا کر رہے ہیں؟ وزیر نے کہا پانی پلائو ۔پانی پی کر بولا آپ کو کیا بتائوں کچھ سوالات ہیں جو کم ازکم آپ سے حل نہیں ہو سکتے۔بزرگ نے کہا آپ بتائیں تو سہی ۔کبھی مجھ ایسے لوگ بھی پتے کی بات بتا دیتے ہیں ۔وزیر نے اپنی کہانی بیان کر کے اسے سوال بتا دئیے۔بزرگ نے کہا پہلا سوال تو بے حد آسان ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا سچ موت ہے۔ کُل نفسِِ ذائقۃ الموت۔ اگر چہ بعض انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نفی کرنے سے بھی نہیں چوکتے مگر موت کو آج تک کسی نے نہیں جھٹلایا ۔نہ ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ مجھے موت نہیں آئے گی۔ اس لئے دنیا کا سب سے بڑا سچ موت ہے۔ وزیر نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور جھٹ اگلا سوال کر دیا۔ بابا جی فوراًبتائیں دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کیا ہے؟ بابا جی نے کہا : کہ یہ زمین جس میں، میں ہل چلا رہا ہوں میرے نام پر ہے اور وہ سامنے گائوں میں سفید رنگ کا عالیشان گھر بھی میر ا ہے لیکن یہ سب کچھ میری ملکیت نہیں کیونکہ جس دن میں نے مرنا ہے یہ میرے ساتھ نہیں جائیں گے۔ یہ اگر میری ملکیت ہوتے تو میرے ساتھ جاتے ۔ قرآن بھی کہتا ہے : اللہ ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں ۔( للہ ِ ما فی السموت و ما فی الارض) اس لئے دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ملکیت ہے۔ اب وزیر نے تیسرا اور آخری سوال پوچھا تو بابا جی نے کہا اس کا جواب میرے گھر میں ملے گا ۔وزیر اس کے ساتھ گھر آگیا۔ بابا جی نے بیٹے کو ایک بڑے برتن میں دودھ لانے کو کہا، اس کے بعد اپنے کتے کو بلایا اوردودھ اس کے سامنے رکھ دیا ۔ کتا دودھ پینے لگاپھر دانستہ کچھ دودھ بچا لیا گیا ، کتا ہٹ گیا تو با با جی نے کہا وزیر صاحب نوش فرمائیے دودھ ۔ وزیر نے حیرت سے کہا‘ یہ کیا مذاق ہے؟ بھلا میں ایک کتے کا چھوڑا ہوا دودھ کیسے پی سکتا ہوں؟لیکن اس کے بغیر آپ کا آخری سوال جواب سے محرو م رہے گا ۔ باباجی نے کہا تو وزیر پریشان ہوگیا ،اس نے سوچا پہلے دونوں جواب بابا جی نے درست دئیے ہیں چلو کون سا یہاں کوئی دیکھ رہا ہے ۔وہ دودھ کا برتن اٹھانے کو جھکا تو بابا جی نے اسے روک لیا اور کہا پگلے! اپنی وزارت اور جان بچانے کے لئے کتے کا چھوڑا حرام دودھ بھی پینے کو تیار ہوگئے ہو۔دوسرے لفظوں میں میرے آگے جھک گئے ہو، یہی بادشاہ کے تیسرے سوال کا جواب ہے ۔ انسان اپنے ذاتی مفاد اور شان و شوکت کے لئے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بندوں کے آگے جھک جاتا ہے اور ،خودی اور غیرت فراموش کر دیتا ہے۔وزیر کو اپنے سوالوں کے جوابات مل چکے تھے۔!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں