علامہ اقبالؒ کی یاد میں

حکیم الا مت ، علامہ محمد اقبا ل نے 21 اپریل 1938ء کواِس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔اس حوالے سے جنا ب ڈاکٹر خورشید رضوی کی نظم '' اکیس اپریل ‘‘ مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ اس میں اقبال کی '' خودی ‘‘ اور ان کے آخری لمحات کو تخلیقی پیرایۂ اظہار میںفن پارہ بنا دیا گیا ہے۔ نظم ملاحظہ ہو :
موت نے پہلے جھک کر
قدم اس کے چومے
اور اِس سرد بوسے سے یخ بستہ ہوتی ہوئی جوئے خوں میںبہی
اور اس قلب ِبیدار کے سات چکر لیے
اور اس ذہنِ برّاق کی نور ہی نور دہلیز پر آ کے ٹھٹکی
''اجازت اگر ہو
تو اس جگمگاتی مقدس امانت کو 
اِن تیرہ ہاتھوں سے چھولوں‘‘
کہا : مرحبا !
اے فرستادۂ خالقِ نیست و ہست و غیب و حضور
یہی حکم ہے تو خدو خالِ خورشید پر
پردۂ شب گرا دے
مگر ہوشیار !
آخری سانس کے ساتھ 
جب تو مرے جسمِ خاکی سے نکلے
تومیرے لبوں پر لکھی مسکراہٹ کو 
پامال کر کے نہ جانا‘‘
محمد شفیع علامہ اقبالؒ کے آخری لمحات کے بارے میں لکھتے ہیں: ''21اپریل1938ء کی صبح پانچ بجنے میں ابھی چار پانچ گھنٹے باقی تھے کہ حضرت علامہ اقبال ؒ نے فرمایا: مجھے فروٹ سا لٹ دو، میں نے فروٹ سالٹ کا ایک گلاس بنا کر پیش کیا، ابھی ایک دو منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ آپ نے اپنے دل کے پاس ہاتھ رکھ کرکہا ‘ہائے! علی بخش فوراً اپنے آقا کی پشت پر ہو بیٹھا اور انہیںاپنے بازوئوں میں تھام کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ایک لمحہ سکون ہونے پر آپ نے کہا : ''مجھے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے میرے دل میں چھری گھونپ دی ہو‘‘۔
حضرت علامہ اقبال ؒنے پھر سے آنکھیں اٹھا کر چھت کی طرف دیکھا اور اُن کی زبان پر آخری لفظ '' اللہ ‘‘ تھا۔ علی بخش نے اپنے زانواٹھا لئے، حضرت علامہ قبلہ رُخ ہوکر لیٹ گئے۔ اُن کا سر، سرہانے سے لگا تھا کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی‘‘۔ آپ فرماتے تھے کہ میں دوائیاں اِس لئے استعمال نہیں کرتا کہ میں اِس دنیا میں زیادہ عرصہ کے لیے رہنا چاہتا ہوں بلکہ یہ محض اس لیے ہے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میرا Egoبیماری کے حملے سے کمزور ہو جائے۔اگر اِس مرحلے پر میرا Ego (انا) کمزور ہو گیا تو مرنے کے بعد مجھے دوبارہ جی اٹھنے میں بہت وقت لگے گا لیکن اگر میں نے اس کو اسی طرح مضبوط رکھا تو مرنے کے بعد جلدی جی اٹھوں گا‘‘۔
یہ تھے حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ۔۔۔۔۔1938ء میں اپریل کا یہی ہفتہ تھا ، علامہ اقبال ؒ گلے کے عارضے میں مبتلا تھے۔ رفتہ رفتہ مرض کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا، صحت مسلسل گر رہی تھی۔ اسی دوران انہیں '' دم کشی‘‘ کی تکلیف بھی بڑھ گئی تھی۔ان کے حکیم محمد حسن قرشی اور ڈاکٹر سنگھ نے ان کی حالت کو تشویش ناک قرار دے دیا تھا لیکن اقبال کے حواس بالکل درست تھے اور بظاہر طبیعت میں کوئی خاص تغیر معلوم نہ ہوتا تھا۔ 20 اپریل کو اُن کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔ جاوید منزل میں ڈاکٹروںکے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام کیا گیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر رات خیریت سے گزرگئی تواگلے روز نیا طریقِ علاج شروع ہوگا۔ آخری رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔اسی رات اقبال کے شانوں میںشدید درد شروع ہوا جس کے باعث انہیں خواب آور دوا دینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور وہ بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتے۔
20 اپریل کی صبح انہوں نے حسب ِعادت چائے نوش کی، پھراخبارات پڑھواکر سُنے اور حجام کو بلواکر حجامت بھی بنوائی ۔ آگے کا قصہ محمد شفیع کے حوالے سے آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے مرتے دم تک اپنی خودی کو قائم رکھنے کی کوشش کی ۔21 اپریل آتا ہے تو ہم اقبال کو یاد کرتے ہیں ۔ان کے حوالے سے ا ب تک کتنی ہی کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں ۔ بعض لوگ ان پرتنقیدکرکے اپنے آپ کونمایاں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اقبال ،اقبال ہیں ۔
اُن کی یادوں کے حوالے سے بہت سے لوگوں نے اظہارخیال کیا۔ چراغ حسن حسرت اقبالؒکے حوالے سے لکھتے ہیں: ''ایک موقع پر ان کے پاس ایک نوجوان آیاجو خودکشی کرنا چاہتا تھا۔آپ نے پوچھا کیا واقعی تم نے خود کشی کا فیصلہ کر لیاہے؟بولا‘جی ہاں۔اچھا یہ بتائو تمہارا مذہب کیا ہے؟۔۔۔۔۔میں ہندو ہوں۔۔۔۔۔کیا تم اپنے مذہب پر یقین رکھتے ہو؟۔۔۔۔۔جی ہاں ،ایک حد تک ۔۔۔۔تم آوا گون کو مانتے ہو؟۔۔۔۔۔جی ہاں!۔۔۔۔۔پھرخودکشی کاکیا فائدہ ؟۔۔۔۔۔میں زندگی کے دکھوں سے چھوٹ جائوںگا۔۔۔۔۔اس کی امید بہت کم ہے۔ دیکھو، تمہارے عقیدے کے مطابق خود کشی کر نے کے بعد یا تو اِس سے بہتر جنم ملے گا یا اِس سے بھی بد تر، یا پھر تمہارے موجودہ جنم جیسا۔گویا بہتر ی کی امید صرف ایک تہائی ہے تو اِس حالت میں خود کشی کیوں کی جائے؟
نوجوان اقبالؒ کو نہیں جانتا تھا۔اسے اقبال ؒ کے ہاں ایک اور شخص لے کر آیا تھا؛ تاہم اسے ایسا معلوم ہوا کہ اس کے قلب سے تسکین کی ایک لہر اٹھی جو اس کی روح پر چھا گئی اوراس نے خودکشی کا ارادہ ترک کر دیا۔ یہ نوجوان دیوندر ستیارتھی تھاجس نے آگے چل کرگیت جمع کرنے اورافسانہ نگاری میں شہرت پائی‘‘۔
خواجہ عبدالوحید اپنی یادداشتو ں میں تحریر کرتے ہیں : ''ایک مرتبہ میں حضرت علامہؒ کی خدمت میں موجود تھا، ملک فیروز خان نون جو اُس وقت پنجاب کے وزیر تھے (بعد ازاں پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہے) ملنے کے لیے آئے۔ حضرت علامہؒ نے انہیں دیکھا اور اپنی جگہ سے جنبش کیے بغیر صرف اتنا کہا : ''آئیے ملک صاحب‘‘اور پھر پہلے سے موجود حاضرین سے جوگفتگوکر رہے تھے اسے جاری رکھا۔ ملک صاحب فیروزخان دروازے کے پاس ہی رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئے ، ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ آگے بڑھ کر حضرت علامہؒ سے ہاتھ ملاتے۔ ملک فیروز خان نون خاصی دیر اپنی جگہ بڑے ادب سے بیٹھے رہے اور پھر حضرت علامہ کی خیریت معلوم کرنے کے بعد رخصت ہو گئے۔ان کی رخصتی پر بھی کسی تپاک کااظہار نہ کیا گیا۔ وزیروں امیروں کے ساتھ ان کا یہی رویہ تھا۔اگرکسی پرکبھی مہربان ہوتے تو علی بخش سے کہتے جائو صاحب کو باہر تک چھوڑآئو۔ وہ خودکبھی کسی کو دروازے تک چھوڑنے نہیں گئے۔
حضرت علامہ اقبال عام طور پر پنجابی میں گفتگو کرتے تھے ؛ البتہ جب ایسے لوگ ملنے آتے جن کی مادری زبان پنجابی نہیں ہوتی تھی تو ان سے وہ انگریزی میں گفتگو کرتے تھے۔عام طور پر وہ اپنے ہم وطنوں سے انگریزی میں بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ زبان کے سلسلے میں اقبال ؒ کا یہ خیال تھاکہ پنجابی اوراردوکے ہوتے ہوئے آپس میں کسی اور زبان میں گفتگو کرنا مناسب نہیں۔ اگر کوئی ہم وطن مسلسل انگریزی میںگفتگو کرتاتو وہ اسے ناپسندکرتے تھے۔
آج کل آپ دیکھیے، ہر طرف انگریزی کی دھوم ہے۔ انگریزی بولنے والے کوہی پڑھا لکھااوردانشور خیال کیا جاتا ہے۔اقبال کی خواہش یہ بھی تھی کہ مسلم یونیورسٹی کے اندر یا کسی پر سکون مقام پر ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جہاں مسلم نوجوانوں کو اسلامی ماحول میں ریاضیات ، طبیعیات ، کیمیا ، تاریخ ، فقہ اور دینیات کی تعلیم دی جاسکے۔اس طرح مسلمانوں میں مذہبی، سیاسی، اقتصادی، قانونی ، علمی ، سائنسی اور فنی مسائل کی اہمیت کو سمجھنے کا احساس بیدارکیا جائے اوران میں صحیح رہنمائی کی اہلیت پیدا کی جائے۔ بد قسمتی سے ابھی تک کوئی ایسا ادارہ سامنے نہیں آسکاجو علامہ اقبال کے ان خوابوں کو تعبیر میں ڈھال سکے اور وطنِ عزیز میں حقیقی معنوں میں مسلم لیڈر شپ پیدا ہو سکے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں