زمین پر زندگی کی علامت سورج کو سمجھا جاتا ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو زمین پر تپش پہنچتی ہے۔ اسی تپش سے ہوا کا دبائو کم یا زیادہ ہوتا ہے جس سے ہوائیں چلتی ہیں۔ اسی تپش سے پانی بخارات بن کر فضا میں جاتا ہے جس کی مدد سے پہلے بادل بنتے ہیں اور پھر بارش ہوتی ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آب و ہوا کی تشکیل کا سب سے بنیادی عنصر سورج ہی ہے۔ سورج کے بعد دوسری اہم چیز پانی تصور ہوتا ہے یعنی اگر کسی فصل کو کاشت کرنا ہے تو سورج کی تپش کے علاوہ پانی ناگزیر ہے۔ دنیا کے وہ علاقے جہاں بارش نہ ہوتی ہو، صحرا تصور ہوتے ہیں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ صحرا کا مطلب ریتلی زمین نہیں ہوتا بلکے ہر وہ علاقہ جہاں سالانہ بارش دس انچ سے کم ہوتی ہے سائنس کی اصطلاح میں صحرا ہی تصور ہوتا ہے۔ آج سے تقریباً تیس سال پہلے تک پانی ایک لامحدود وسیلہ تصور ہوتا تھا یعنی پانی کم از کم پینے کی حد تک بغیر کسی قیمت کے حاصل ہو جاتا تھا اور لفظ مفت کا مترادف تصور ہوتا تھا‘ مگر دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس آبادی کے بدلتے ہوئے لائف سٹائل نے فی کس پانی کی ضرورت اور استعمال کو کئی گنا بڑھا دیا ہے‘ جس کی وجہ سے شہروں میں پانی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ قارئین یہ بات واضح رہنی چاہے کہ جو پانی ہم زمین سے نکال کر استعمال کرتے ہیں یہ کوئی قدرت کا لامحدود خزانہ نہیں بلکہ بارش کا پانی ہی ہوتا ہے‘ جو زمین میں جذب ہو کر فلٹر اور ذخیرہ ہو جاتا ہے اور ہم اسی پانی کو نکال کر استعمال کرتے
ہیں۔ گائوں کے لوگ کچے صحن، راستوں اور کھیتوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں‘ اس لئے وہاں بارش کا پانی جذب ہونے کا موقع حاصل کر پاتا ہے مگر شہروں میں سیمنٹ کی عمارتوں‘ سڑکوں اور دیگر تعمیرات کی وجہ سے بارش کا پانی زمین میں جذب ہونے کی بجائے سیورج سسٹم کا حصہ بن کر شہر سے باہر بہہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں پانی پچاس فٹ کی اوسط گہرائی کی بجائے اب ہزار فٹ کی گہرائی سے ملتا ہے‘ اور ایک مقام ایسا آتا ہے کے شہروں میں زمین سے پانی حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی، بھیانک اور برہنہ مثال کراچی شہر کی ہے جہاں پر شہری آبادی کو پانی زمین سے میسر نہیں ہوتا اور چند ایسی جگہیں‘ جہاں پر کھلا میدان ہو وہاں پر پانی کا ٹیوب ویل لگا کر پانی نکالا جاتا ہے اور قیمتاً فروخت کیا جاتا ہے۔ عرف عام میں ایسی مقامات کو HYDRANT PLANTS کہا جا تا ہے۔ پانی مافیا کے لوگ ایسی مقامات سے پانی نکالتے ہیں اور فروخت کرتے ہیں جن پر حکومت گاہے بگاہے کریک ڈائون کرتی ہے اور پلانٹس کو بند کر دیتی ہے‘ لہٰذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کراچی شہر کے لیے پٹرول سے زیادہ اہم چیز پانی ہو چکا ہے کیونکہ پٹرول کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہے مگر پانی کے بغیر ہرگز نہیں۔ کراچی والی صورت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ لوگ پانی کی تین مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ سب سے
پہلے وہ لوگ ہیں جن کو پانی تو میسر ہے مگر آلودہ۔ دوسرا وہ لوگ جن کو پانی سرے سے میسر ہی نہیں ہو پاتا۔ یہ صورت حال کچھ دیہی علاقوں میں پائی جاتی ہے جہاں لوگ روزانہ کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پینے کا پانی جوہڑوں، تالابوں یا کنوئوں سے بھر کر لاتے ہیں۔ بعض جگہوں پر جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں۔ پانی کی تیسری مشکل‘ جس کا شکار تقریباً پورا پاکستان ہے‘ صحت بخش پانی کا حصول ہے۔ مری، سیالکوٹ، گوجرانولہ کے کچھ حصے پورے ملک میں وہ واحد علاقے ہیں‘ جہاں صحت بخش پانی کسی حد تک میسر ہے‘ جس کی بنیادی وجہ ان علاقوں میں بارش کا زیادہ ہونا ہے۔
پوری دنیا میں پانی کے استعمال کے متعلق آگاہی بڑھائی جاتی ہے‘ جس میں سب سے نمایاں باتھ روم میں پانی کے استعمال کا طریقہ ہے‘ جیسے بعض مغربی ممالک میں ایسے فلش لگائے گئے ہیں جن پر دو بٹن لگے ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے صرف پیشاب کیا ہے تو آپ چھوٹا بٹن دبائیں گے‘ جس سے کم پانی (دو سے تین لیٹر) نکلے گا اور فلش صاف ہو جائے گا اگر آپ نے رفع حاجت کی ہے تو آپ بڑا بٹن دبائیں گے جس سے پانچ سے چھ لیٹر پانی نکلے گا اور فلش صاف ہو جائے گا۔ اسی طرح ٹوتھ برش اور شیو کرتے ہوئے نل بند رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے کیونکہ اگر آپ شیو اور ٹوتھ برش کرتے ہوئے نل کھلا چھوڑ دیں تو دس سے پندرہ لیٹر پانی بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ہو سکے تو آج کی بعد آپ نہ صرف خود نل بند رکھیں بلکے اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کو بھی یہ
پیغام ضرور پہنچائیں کیونکہ ایک لاکھ نصیحتوں اور مشوروں سے ایک عملی قدم بہتر ہوتا ہے۔ قارئین دنیا میں انرجی کا سب سے پہلا ذریعہ کوئلہ تھا۔ اس کے بعد تیل کی دریافت نے کوئلے کی اہمیت کئی درجہ کم کر دی۔ پھر بجلی کی دریافت بالخصوص پن بجلی نے تیل کی اہمیت کو کم کر دیا‘ کیونکہ پانی سے بننے والی بجلی سب سے زیادہ سستی ہوتی ہے۔ سائنس نے مزید ترقی کی تو سولر انرجی کی شکل میں انرجی کا ایک ایسا ذریعہ سامنے آیا ہے جسے زیادہ ماحول دوست قرار دیا جا رہا ہے۔ گویا کوئلے سے انرجی حاصل کرنے کے سفر میں کئی متبادل ذرائع سامنے آ گئے‘ مگر یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کے پانی کا متبادل صرف پانی ہے یہ بات ذہن میں رکھ کر پانی استعمال کریں۔ 22 مارچ کا دن ورلڈ واٹر ڈے کے طور پر اسی شعور کو اجاگر کرنے اور آگہی پھیلانے کے لیے منایا جاتا ہے۔ ہو سکے تو آپ بھی اس میں عملی طور پر حصہ لے کر یہ دن منائیں اور پانی کے استعمال میں احتیاط کو مستقل عادت بنائیںکیونکہ پانی کا متبادل صرف پانی ہے۔