ر قبہ کے اعتبار سے سب سے بڑے ا سلامی ملک قازقستان میں ہونے والے شنگھائی تنظیم کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو باضابطہ طور پر رکنیت دے دی گئی ، جس سے پاکستان امریکہ کے مقابل ابھرتے چینی بلاک کا حصہ بن گیا ہے۔ اگرچہ شنگھائی تنظیم کسی طور پر فوجی اتحادنہیں مگر دور حاضر کی واحد سپرپاور امریکہ کی سربراہی میں بنے الائنس نیٹوکے مقابل جو تنظیم چین کی سربراہی میں اُبھر ر ہی ہے وہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)ہے ۔ اس تنظیم کے 6 بڑے مقاصد میں دہشت گردی ختم کرنا سر فہرست ہے۔ دیگر 5 مقاصد میں اسلحہ کی دوڑکم کرنا ،غربت کا خاتمہ،موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کا مقابلہ اور پانی کی د ستیابی کی ضمانت شامل ہیں ۔
امریکہ دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر کے تحت صرف ترقی یافتہ ممالک کو اپنا ہمنوا اور ہم خیال گردانتا ہے ۔ امریکہ کے اتحادی ممالک بنیادی طور پر یورپی ہیں۔ اگرچہ کینیڈا، آسٹریلیا ، جاپان ، نیوزی لینڈ اور ترکی بھی امریکی بلاک نیٹوکا حصہ ہیں۔جدیدیت کے فلسفے اور معیار کے تحت کسی بھی ملک میں جمہوریت، سیکولرازم، کیپیٹل ازم ، شخصی آزادی اور برابر نسوانی حقوق وہ معیارات ہیں جن کے تحت امریکہ کسی ملک کو اپنا ہم خیال مانتا ہے اور جیسے جیسے جس ملک یا خطے میں ان معیارات کی کمی ہو، وہ اسے اپنے متصادم لگتا ہے چونکہ چین بنیادی طور پر ایک کمیونسٹ ملک ہے اسی لئے امریکہ اسے اپنے متصادم تصور کرتا ہے۔ جسے عرف عام میں ''تہذیبوں کا تصادم‘‘کا فلسفہ کہتے ہیں۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد اسی فلسفہ کے تحت مغربی دنیا نے مسلم ممالک کو بڑی خاموشی کے ساتھ یکے بعد
دیگرے مزید زیر اطاعت کیا۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایران اور سعودیہ بلاکس میں تقسیم مسلم ممالک امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے سے گریزاں نہیں ہوتے۔ چاہے اسے اپنے ہی پڑوسی و ہم مذہب ملک سے کشید گی اختیار کرنا پڑے۔ جس کا حالیہ مظہر سعودی ،قطر کشیدگی ہے۔ واضح رہے کہ ایران ،سعودیہ بلاکس کے زیادہ ممالک کا تعلق ایشیا سے ہی ہے۔
شنگھائی تنظیم اصل میں چینی بلاک کی وُسعت اور گہرائی کا دوسرا نام ہے۔ چین کے مشرق کی طرف بحر الکاہل یعنی سمندر ہے اس لئے چین اپنا بلاک بنانے کے لئے اپنے مغرب کی طرف دیکھتا ہے جس میں سب سے پہلے پانچ وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں آتی ہیں۔ سوائے ترکمانستان کے باقی 4 ریاستیں شنگھائی کانفرنس کا پہلے
دن سے ہی حصہ ہیں ،یعنی بانی رکن ممالک ہیں ۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے بعد جنوب کی طرف آئیں تو بالترتیب افغانستان پاکستان اور پھر بھارت آتے ہیں جن میں سے پاکستان کے علاوہ بھارت کو بھی شنگھائی کانفرنس میں شامل کر لیا گیا ہے۔
اس تنظیم میں جن دیگر ممالک کو آبزرور کا درجہ دیا گیا ہے یا جنہیں مستقبل میں اس تنظیم میں شامل کیا جائے گا ان میں منگولیا، نیپال، سری لنکا، ترکی، ایران، بلارس اور کمبوڈیا اور دیگر شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کی سربراہی میں بننے والے اس بلاک میں سب سے زیادہ تعداد مسلمان ممالک کی ہے۔ مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ ایران اور ترکی کے بعد جو دیگر پڑوسی ممالک کا ایک پورا بلاک واقع ہے وہ سب مسلم ممالک ہیں اس لئے یہ مسلم ممالک بھلے چائنہ بلاک میں باضابطہ شمولیت اختیار نہ بھی کریں، مگر چین کے ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ضرور ہیں۔ اس لئے لامحالہ طور پر چائنہ بلاک میں شامل ہونے والے ممالک کی سب سے زیادہ تعداد مسلم ممالک کی ہی نظر آتی ہے۔
یاد رہے کہ سرد جنگ کے دوران روس اور امریکہ میں بڑی کشمکش یورپ کے ممالک تھے کہ وہ روس اور امریکہ میںسے کس کا ساتھ دیتے ہیں۔ یورپی ممالک کے بعد سرد جنگ ایشیائی ممالک کے لئے تھی جس میں مسلم ممالک کی واضح اکثریت نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ اب تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے اور مسلم ممالک سمیت دیگر ایشیائی اممالک کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ چین کی معاشی طاقت اور ترقی سے نا صرف سیکھیں بلکہ چائنہ بلاک کا حصہ بنیں۔
اس سلسلے میں سب سے بڑی اور کڑوی گولی بھارت ہے جو کہ تاحال نہ صرف ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ نہیں بنا، بلکہ سی پیک منصوبے کو ناپسند کرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ بھارت کے چین کے ساتھ کچھ دیرینہ مسائل بھی چلے آرہے ہیں جن میں کشمیر کے ایک بڑے حصہ کا چین کے کنٹرول میں ہونا ہے۔ اسی طرح تبت کے وسیع علاقے کے خود ساختہ حکمران دلائی لامہ کو بھارت نے نہ صرف خود ساختہ جلا وطنی کے پہلے د ن سے پناہ دے رکھی ہے بلکہ بھارتی ریاست ہما چل پردیش کے شہر د ھر م شالہ میں جلاوطن خود ساختہ حکومت بھی قائم کر رکھی ہے جن کی وجہ سے چین کے تعلقات بھارت سے دوستانہ نہیں ہو پا رہے۔ بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی غیر اعلانیہ جنگ افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف جاری رکھی ہوئی ہے۔ کتنی واضح اور عجیب بات ہے کہ افغانستان وہ ملک ہے جہاں پر اس کے اپنے باشندے جاتے ہوئے گریز کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان میں موجود افغان مہاجرین ہیں۔ مگر پھر بھی بھارت سیر و سیاحت ، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے نام پر افغانستان میں سرمایہ کاری کے بہانے اپنے جنگی پاؤں جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین کو براعظم ایشیا کو ایک بلاک میں تبدیل کرنے میں کچھ عرب ممالک کی باہمی جنگی چپقلش کے علاوہ بھارتی ہٹ دھرمی کا سامنا ہے وگرنہ چین شنگھائی تنظیم کی شکل میں امریکہ کے مقابل ایشیا کا نیٹوتیزی سے تشکیل دے سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بر اعظم ایشیا کے کون سے ممالک تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوے شنگھائی تنظیم کا حصہ بنتے ہیں اور کون سے بھارت کی طرح مرد ِبیمار اور احمق ثابت ہوتے ہیں۔