مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی

دنیا میں بادشاہ تاریخ کی کتابوں اور تاش کے پتوں کے علاوہ اگر کہیںملتے ہیں تو وہ مسلم ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ کے علاقے میں واقع ممالک ہیں۔ زیادہ تر لوگ شاید کبھی نہیں سوچتے کہ مشرق وسطیٰ کے بحران میں ایک اہم عنصر بادشاہت کی طرز پر ہونے والے فیصلے بھی ہیں۔ جیسے تازہ ترین مطالبات میںایک بڑا مطالبہ علاقے کے واحد، قدرے آزاد، چینل الجزیرہ کو بند کرنا شامل ہے۔
مشرق وسطیٰ کا بحران ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے فوراً بعد شروع ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی صدر نے اس دورے کے دوران سعودی قیادت پر واضح کیا تھا کہ قطر کی کچھ سرگرمیاں ، بالخصوص کچھ مسلح تنظیموں کی حمایت ، تشویش نا ک ہیں۔ ایران انقلاب، 1979، کے بعد 1981 میں رد عمل کے طور پر 6ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، عمان اور مسقط نے مل کر خلیجی تعاون تنظیم (GCC) بنائی تھی‘ جس کے نتیجے میں ان ممالک کے تعلقات کو بہت مضبوط خیال کیا جاتا تھا۔ یہ تصور کیا جاتا تھا کہ یہ ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ان چھ ممالک میں سب سے بڑا ملک اور بڑی معاشی طاقت سعودی عرب ہی ہے۔ اسی لیے یہ اس تنظیم میں ایک سربراہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بحران اس وقت پیدا ہوا جب سعودی عرب کی پیروی کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مصر ، لیبیااور جنوبی ایشیا کے ملک مالدیپ نے قطر سے تمام تعلقات منقطع کر لئے۔ سعودی عرب نے قطر سے جو مطالبات کیے وہ اس طرح ہیں:
1۔ قطر ان مسلح تحریکوں کی مدد کرنا ترک کر دے ‘جن پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ 2۔ عرب ممالک کے باشندوں کو قطر کی شہریت دینے کے سلسلے کو ختم کردے۔
3۔ ٹی وی چینل الجزیرہ (جو 1996 میں قائم ہوا) کے ذریعے ا نتشار پھیلانا بند ہونا چاہئے۔ 4۔ مصر کے خلاف اشتعال کو روکا جائے۔
5 ۔ عرب اورخلیجی ممالک میں در اندازیوں کو بند کی جائے اور قطر ان تمام ناپسندیدہ افراد کو اپنے ملک سے نکال دے جو خلیجی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک کے خلاف جارحانہ اور مخالف رویہ رکھتے ہیں ۔
اس معاملے میں عرب ممالک کی بے بسی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف ٹرمپ نے ٹویٹ کے ذریعے کریڈٹ خود لے لیاکہ سعودیہ و دیگر ممالک نے اس کے کہنے پر قطر سے تعلقات منقطع کیے‘ کیونکہ وہ (قطر)شدت پسند تنظیموں کی فنڈنگ کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف امریکی صدر نے قطر کے امیر کو فون کر کے کشیدگی ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔ واضح رہے کہ قطر میں امریکہ کا بہت بڑا فوجی اڈہ بھی موجود ہے۔ امریکہ قطر کے ایئر پورٹ کے ذریعے ہی مختلف ممالک کے خلاف اپنی فضائیہ کے طیارے اڑاتا ہے۔ اگرچہ مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والے حالیہ بحران میں امریکہ کا دوہرا کردار سامنے آ چکا ہے‘ پھر بھی عرب ممالک کشیدگی ختم کرنے کی طرف نہیں آ رہے اور یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اس بحران اور کشیدگی کی وجہ سے سعود یہ اور ایران کے الگ الگ بلاک بن گئے ہیں۔ اس معاملے میں ایران قطر کی طرف داری کر رہا ہے۔ کچھ ماہرین اس بحران کے تناظر میں ایران‘سعودیہ سرد جنگ کو گرم جنگ میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ فرقہ واریت کو قرار دے رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ قطر سے کئے گئے مطالبات میں ایران سے تعلقات ختم کرنا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔ یعنی قطر سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دے۔
قطر محض 25لاکھ آبادی اور 11600مربع کلو میٹر کا ملک ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی کل آبادی کا 90فیصد شہر دوحہ میں آباد ہے۔ جنگ کی صورت میں اس کے پاس علاقائی گہرائی نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ قطر کی کل آبادی میں صرف20 فی صد قطر کے اپنے باشندے ہیں یعنی تقریباً 5 لاکھ۔ اگر کشیدگی کم نہ ہوئی اور غیر قطری لوگوں‘ جو کہ زیادہ تر مزدور ہیں‘ نے اگر قطر چھوڑنا شروع کیا تو قطر محض 5لاکھ آبادی کا ملک رہ جائے گا۔ اسی لیے قطر نے اپنی بقا کے لیے فوراً ایران ، ترکی اور مریکہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
قطر کے موجودہ امیر نے 1995ء میں اقتدار میں آنے کے بعد قطر کی کھلی خارجہ پالیسی کے تحت نرم ڈپلو میسی کو اپنا یا جس کے لیے قطر نے میڈیا، معیشت اور اخلاقی امداد کے سفارتی ذرائع کو اپنایا ۔اسی اوپن خارجہ پالیسی کے تحت کچھ دیگر امور کی طرف عملی اقدام کرنے کی کوشش کی جس میں ایران سمیت دیگر پڑوسی ممالک سے روابط بڑھانا، خلیجی ممالک کے علاوہ مسلم و دیگر ممالک جیسے روس، چین سے روابط بڑھانا شامل ہے۔ اس سلسلے میں غور طلب بات قطر کا مصر میں مرسی کی غیر منتخب حکومت کو سپورٹ کرنا شامل ہے۔ واضح رہے کہ مصر میں ایک منتخب حکومت کا تختہ جنرل السیسی نے 2013ء میں پلٹ دیا تھا ۔ اسی طرح قطرنے عرب سپرنگ کے نتیجہ میں تونس میں پہلی منتخب حکومت کی تحریک کو بھی سپورٹ کیا تھا۔
ا خوان المسلمین کی حمایت کی وجہ سے 2014ء میں خلیجی تنظیم کے دو ارکان سعودیہ اوربحرین نے اپنے سفیر واپس بلا لیے تھے۔ اس سے پہلے 2002ء میں بھی سعودیہ نے اپنا سفیر قطر سے محض حکومتی سر پرستی میں چلنے والا میڈیا گروپ‘ خاص طور پر الجزیرہ ٹی وی چینل شروع کرنے پر ، واپس بلا لیا تھا۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سعودیہ‘ قطر ،کشیدگی اچانک پیدا نہیں ہوئی ‘ اس کے آثار خاصے عرصے سے نظر آرہے تھے اور محسوس کئے جا رہے تھے۔
پاکستان ایک بار پھر اس نیم سرد و گرم جنگ کے خدشات کا شکار ہے،اور اپنی حیثیت کے مطابق حالات کو نارمل کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔یاد رہے 1998ء میں پاکستان نے ایران اور افغانستان (طالبان) میں ممکنہ جنگ کو رکوانے میںاس وقت نمایاں کردار ادا کیا تھا ،جب دونوں اطراف سے فوجیں سرحدوں پر آمنے سامنے آ گئی تھیں۔ اگرچہ کچھ اطلا عات کے مطابق سعودیہ کا اصرار ہے کہ پاکستان بھی واضح موقف اختیار کرے،مگر اس کے باوجود پاکستان نے قطر سے تعلقات منقطع نہیں کیے جو عقلمندانہ فیصلہ ہے۔ امید ہے طرفین صدام،معمر قذافی جیسی مثالوں سے سبق لیتے ہوئے جنگ سے یہ سوچتے ہوئے گریز کریں گے کہ ان کی بادشاہتیںان کے ممالک کی سلامتی سے مشروط ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں