’’ڈو مور ‘‘نہیں ’’نو مور‘‘

امریکی صدر نے اپنی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بھارتی کردار کو سراہا اور پاکستان کو دھمکی دے ڈالی ‘جس نے پاکستان میں ایک بحث کی شکل اختیارکرلی ۔دلچسپ اور اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا ‘ جو ملکی سیاست پر دو دھڑ وں میں منقسم نظر آتا تھا، نے امریکہ کی نئی پالیسی کے اعلان کے بعد یکسو ہو کر امریکہ کی خبر لینا شروع کردی۔ یہ بحث اس لیے بھلی محسوس ہوتی ہے کہ یہ ملکی سیاست کے گھسے پٹے موضوع سے قدرے ہٹ کر ہے اور ایک بین الاقوامی موضوع پرانتہائی معلوماتی مواد لوگوں تک پہنچنا شروع ہوا ہے۔
پاکستان اپنے قیام کے بعد سے اپنی بقا کی جنگ لڑتا آرہا ہے جو تاحال جاری ہے اور بعض ماہرین کے مطابق اب فیصلہ کن موڑ پر آ پہنچی ہے۔ امریکہ کی پاکستان پر تنقید اور دھمکی کی سب بنیادی وجہ سی پیک ہے اور سی پیک پر اتنے تحفظات امریکہ کو نہیں جتنے بھارت کو ہیں۔ اس لیے ماہرین کی اس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ امریکہ کی جانب سے حالیہ بیانات کا بڑا مقصد بھارت کو راضی کرنا ہے ۔بھارت دو لحاظ سے امریکہ کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘ جس میں سب سے زیادہ اہم بھارت کا چین مخالف رویہ ہے ۔عالمی منظر نامے میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد چین کی شکل میں پہلی دفعہ کوئی طاقت امریکہ کے ہم پلہ ہوئی ہے اور چین کو الجھائو کا شکار رکھنے کے لیے امریکہ کے پاس انڈیا سے بہتر کوئی آپشن نہیں ہے ۔یہ بات مدِنظر رہنی چاہئے کہ کشمیر سمیت تین مختلف مقامات پربھارت اور
چین میں سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے علاقے تبت سے مفرور اور خود ساختہ جلاوطن حکمران دلا ئی لا مہ نے انڈیا میں نہ صرف پنا ہ لے رکھی ہے بلکہ بھارتی ریاست ہما چل پردیش کے شہر دھرم شالہ کو مرکز بنا کر جلا وطن حکومت بھی قائم کر رکھی ہے۔ امریکہ ان تمام واقعات کے تناظر میں بھارت کو ایک ''کار آمد احمق ‘‘کے طور پر استعمال کرتے ہوئے چین کوتنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔امریکہ کی بھارت میں دلچسپی کی دوسری بڑی وجہ افغانستان میں بھارت کے پھیلتے ہوئے سائے ہیں۔ تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ بھارت کی افغانستان میں دلچسپی NATO ممالک سے بھی زیادہ ہے جبکہ بھارت کا مقصد افغانستان کی زمین سے پاکستان کے خلاف مغربی محاذ کھولنے کے سوا کچھ نہیں ۔ بھارت افغانستان میں مختلف لڑاکا گروپوں میں پیسے اور اسلحہ بانٹ کر نہ صرف ان کو اپنا ہم نوا بناتا ہے بلکہ انہیںجنگی تربیت بھی فراہم کرتا ہے اور یہ گروپ پاکستان کے اندردہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور کردار کی وجہ سے امریکی نہایت مہارت کے ساتھ اپنا جنگی بوجھ بھارت کے کندوں پرمنتقل کر رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ امریکہ اگر افغانستان سے نکل بھی گیا تو بھارت اس کے حصے کی پراکسی وار لڑتا رہے گا اور اگر وہ اس قابل نہ ہوا تو کم از کم پاکستان مخالف گروہوںکوپاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہے گا۔
سی پیک منصوبے کی باز گشت فی الوقت تو میڈیا میںہی سنائی دیتی ہے چونکہ یہ منصوبہ تاحال زیر تعمیر ہے اور اپنی اصل شکل میں سامنے نہیں آیاچنانچہ ہر آدمی اس کی اہمیت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ قارئین تھوڑی دیر کے لیے صرف موٹروے پرکیے ہوئے سفر کو ذہن میں لائیے اور سوچئے کہ آپ کی گاڑی کس تیزرفتاری کے ساتھ آرام دہ سفر کرتی ہے؟یہاں تک کہ موٹروے پولیس کا رویہ اور رستے میں آنے والی آرام گاہیں موٹروے کی افادیت کا احساس لاتی ہیں۔ اب آپ اندازہ کریں کہ اس سے کہیں بہتر سڑک اور ریلوے کی پٹڑی آپ کو پاکستان سے چین لے جائے گی تو آپ کے کیا تاثرات ہوں گے؟ چین بے شک 2022 تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہوگا اور یوں دنیا کا واحد ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہوگا جس کے دروازے پاکستانیوں کے لیے کھلے ہوں گے ‘پاکستانی لوگ تعلیم اور سیر و تفریح کے لیے باآسانی چین جا سکیں گے۔ اس تناظر میں ایک اور بات پر غور کیجئے کہ اس وقت پاکستان کے تین اطراف میں یعنی بھارت، افغانستان اور اب ایران کی سرحد پر بھی کشیدہ صورتحال ہے۔ ایسے حالات میں صرف چوتھی سرحد ‘چین ایسا ملک ہوگا جہاں کوئی کشیدگی نہیں ہوگی بلکہ گرم جوشی سے پاکستانیوں کا استقبال ہوا کرے گا۔ میرا ایک دوست ویسے تو ابھی تک بی اے بھی پاس نہیں کر پایا مگر بعض اوقات پاکستان کے سیاستدانوں سے کہیں زیادہ گہری بات کر جاتا ہے۔پچھلے روز کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو پتا ہے مجھے سی پیک کے مکمل ہونے کا کیوں انتظار ہے؟ میرے استفسار پر بتانے لگا کہ اس
منصوبے کی تکمیل کے بعد میں چند ہزار روپے کے ٹکٹ میں گرمیوں کے موسم میں چین کا چکر لگا آیا کروں گا۔ چونکہ پاکستان میں کھانے پینے کی اشیا ملاوٹ والی ہیں جیسا کہ ڈبوں میں فروخت ہونے والا دودھ اور مشروبات وغیرہ‘ تو ہوسکتا ہے میں چین سے کھانے پینے کی اشیا کی درآمد شروع کر دوں۔ اگلی بات بڑی دلچسپ تھی کہنے لگا کہ رمضان کے مہینے میں جن اشیا کی قلت پیدا کر دی جاتی ہے وہ اشیا چین سے چند گھنٹوں میں پاکستان منگوائی جاسکیں گی ۔بندہ بہت سادہ مزاج ہے کہنے لگا کہ چین والے ہمیں آسانی سے ویزہ نہ بھی دیں‘ اگر انہوں نے بجلی کی پیداوار ہی پوری کر دی تو یہ ہم پر سب سے بڑا احسان ہو گا۔وہ پاکستان کی جمہوریت سے اکتا چکا ہے‘ کہتا ہے کہ پاکستان کے اپنے منصوبوں میں مزید 10 سال بعد بھی بجلی کی پیداوار پوری ہوتی نظر نہیں آتی ۔ جتنا کچھ میڈیا نے اسے بتایا ہے اس کے مطابق وہ پاکستانی حکمرانوں سے بھی زیادہ چین اور سی پیک سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔
اگر ایک عام پاکستانی اتنی چیزیں گن سکتا ہے توبھارت کیوںنہ سی پیک پر کرب میں مبتلا ہو؟اس لیے حالیہ امریکی بیانات میں چھپا کرب مکمل طورپر امریکہ کا اپنا نہیں بلکہ اس کی بنیادی اور بڑی وجہ بھارت ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے داغے گئے حالیہ بیان کے فوری بعد ،اسی دن نہ صرف چین نے پاکستان کی مکمل حمائت میںبیان دیا بلکہ روس نے بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کردار کو سراہا ۔لہٰذا اب کی بار پاکستان Do More کے جواب میں Not Any more یا NO MOREکہہ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں