معطل مردم شماری

بالآخر ملک کی چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتائج سامنے آ گئے۔ یہ نتائج کسی انکشاف سے کم نہیں۔ ملک کی آبادی بیس کروڑ ستتر لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ آبادی میں سالانہ اضافے کی رفتار دو اعشاریہ چار فی صد ہے‘ جو نارمل سے بہت زیادہ ہے۔ اس شرح کے ساتھ ملکی آبادی میں سالانہ اضافہ تقریباً پچاس لاکھ بنتا ہے جو بہت خطرناک شرح ہے، کیونکہ سالانہ اضافے کے اعتبار سے پاکستان، چین اور انڈیا کے بعد، دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اسی طرح کل آبادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے‘ اور اس کی یہ حیثیت پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے برقرار ہے۔ کل آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک برازیل ہے۔ اس کی آبادی تقریباً اکیس کروڑ بارہ لاکھ ہے جبکہ سالانہ اضافے کی شرح ایک فی صد سے بھی کم (یعنی 0.8 فیصد) ہے۔ اس حساب سے کچھ عرصے میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن جائے گا جو یقینا باعث تشویش ہے۔ واضح رہے کہ اپنے قیامِ کے وقت آبادی کے اعتبار سے موجودہ پاکستان (مغربی پاکستان) دنیا کا چودہواں بڑا ملک تھا۔ 1951ء میں ملک کی پہلی مردم شماری کے مطابق موجودہ پاکستان کی کل آبادی صرف تین کروڑ سینتیس لاکھ (33.7 ملین) تھی‘ جو کہ 1961ء میں بڑھ کر 43 ملین ہو گئی‘ جبکہ اسی مردم شماری (1961ء) میں مشرقی پاکستان کی آبادی 50 ملین تھی‘ یعنی مغربی پاکستان کی آبادی مشرقی پاکستان سے70 لاکھ کم تھی۔ موجودہ بنگلہ دیش کی آبادی 1981ء تک پاکستان سے زیادہ رہی۔ اسی سال دونوں ملکوں میں مردم شماری ہوئی‘ جن کے مطابق بنگلہ دیش کی آبادی 87 ملین تھی جبکہ پاکستان کی آبادی 84 ملین تھی۔ یعنی 1961ء میں جو فرق 70 لاکھ تھا وہ کم ہو کر تیس لاکھ رہ گیا۔ بنگلہ دیش میں اگلی مردم شماری 1991ء میں تواتر برقرار رکھتے ہوئے ہوئی‘ جس کے مطابق ملک کی آبادی دس کروڑ ساٹھ لاکھ تھی۔ پاکستان میں مردم شماری تو التوا کا شکار ہو گئی مگر تخمینے کے مطابق پاکستان بنگلہ دیش سے آبادی کے لحاظ سے آگے نکل چکا تھا۔ بنگلہ دیش کا آبادی کے بڑھنے کی رفتار پر قابو پانا ایک بڑی کامیابی ہے۔ 2017ء کے تخمینے کے مطابق بنگلہ دیش کی آبادی صرف ساڑ ھے سولہ کروڑ (165 ملین) ہے‘ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کی آبادی پاکستان سے چار کروڑ بیس لاکھ (42 ملین) کم ہے۔ اگر بنگلہ دیش آبادی کے بڑھنے کی رفتار پر کامیابی سے قابو پا سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ ترکی، انڈونیشیا اور ایران وہ دیگر مسلم ممالک ہیں‘ جنہوں نے اس مسئلے پر قابو پایا ہے‘ جبکہ مجموعی طور پر مسلم ممالک میں آبادی میں اضافہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی طرح مردم شماری کا انعقاد بھی تعطل کا شکار رہا ہے‘ جیسا کہ 1991ء میں مردم شماری ہونا ضروری تھا‘ مگر جمہوری حکومت ہونے کے باوجود نہ کرائی گئی‘ اور سات سال کی تاخیر کے بعد 1998ء میں ہوئی۔ اس کے بعد دس سال کے وقفہ سے 2008ء میں ہونی چاہئے تھی‘ مگر ایک بار پھر باوجود جمہوری حکومت کے نہ ہو سکی۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ مردم شماری کے نتائج پر تنقید کرنے والی پیپلز پارٹی اس وقت (2008ء میں) اقتدار میں تھی۔ اسے اپنی نگرانی میں لازمی طور پر مردم شماری کروانی چاہئے تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا‘ اگر وہ (پیپلز پارٹی) 2011ء میں ہی کروا دیتی تاکہ جمہوریت کے ساتھ مردم شماری بھی پٹڑی پر چڑھ جاتی‘ مگر 19 سال کی مجرمانہ غفلت کے بعد مردم شماری ممکن ہوئی‘ جو ایک قومی المیہ سے کم نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اگلی مردم شماری کا انعقاد کب ہوتا ہے۔ اگر دہائی کے پہلے سال کی 
ترتیب کو بحال کرنا ہے تو2021 ء اور اگر دس سال کے وقفے کی ترتیب قائم رکھنی ہے تو 2027ء میں اگلا انعقاد ضروری ہے۔
کل آبادی میں خواتین کا تناسب 49 فیصد ہے جبکہ 1998ء کی مردم شماری میں یہ تناسب 48 فیصد تھا‘ لہٰذا خواتین کے تناسب میں ایک فیصد بہتری آئی ہے۔ آپ نے یقینا سن رکھا ہو گا کہ پاکستان کی کل آبادی میں خواتین کا تناسب 51 فیصد ہے مگر یہ غلط ہے‘ اگرچہ کسی بھی ملک کی کل آبادی میں 51 فیصد ہونا چاہئے کیونکہ خواتین کی اوسط عمر مردوں سے تقریباً 4 سال زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک، جو بیٹی اور بیٹے میں کوئی تفریق یا امتیاز نہیں رکھتے، میں عورتیں کل آبادی کا 51 سے 52 فیصد ہوتی ہیں‘ مگر پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک میں خواتین کل آبادی کا 47 سے 48 فیصد ہیں۔
ابتدائی نتائج کے مطابق سب سے کم شرح سے اضافہ صوبہ پنجاب میں ہوا‘ لہٰذا کل آبادی میں پنجاب کی شرح بھی کم ہو گئی ہے‘ اس کے باوجود بعض پارٹیاں عادت سے مجبور یا احتیاطی طور پر احتجاج کئے جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے آگے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں۔ ایک جواز‘ جو نمایاں طور پر پیش کیا جا ر ہا ہے‘ کراچی اور لاہور کی آبادی میں اضافہ ہے۔ نتائج کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ پچاس لاکھ‘ جبکہ لاہور کی آبادی ایک کروڑ گیارہ لاکھ بتائی گئی ہے۔ ایم کیو ایم دعویٰ کرتی ہے کہ کراچی کی آبادی کم از کم دو کروڑ ہے‘ اور اس کے ایک دعوے کے مطابق یہ تین کروڑ کے قریب ہے۔ یہ دونوں دعوے صرف سیاسی ہیں کیونکہ تین کروڑ کے ساتھ تو کراچی دنیا کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا‘ لہٰذا ہاتھ ہلکا رکھنا چاہئے۔ امن و امان کی بگڑتی صورتحال، گوادر کا متبادل بندرگاہ 
کے طور پر سامنے آنا، اور سب سے بڑھ کر پانی کی کمی میں خطرناک حد تک اضافہ‘ وہ عوامل ہیں‘ جنہوں نے کراچی کی کشش کو کم کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے کراچی کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد میںکمی آئی ہے۔ کراچی کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے شہر کے پھیلائو میں اضافہ دشوار ہو چکا ہے۔ اگر انٹرنیٹ پر بین الاقوامی سائٹس پر چیک کیا جائے‘ تو کراچی کی آبادی ملکی مردم شماری کے نتائج کے قریب ہی بتائی جاتی ہے۔ اس لئے بلاجواز احتجاج کی بجائے زیادہ ضرورت کراچی کے حالات بہتر کرنے کی ہے‘ کیونکہ کراچی شہر میں کوڑے کے ڈھیر تو ناقابل عبور پہاڑ بنے ہی ہوئے تھے‘ حالیہ بارشوں نے نکاسیء آب کی ناکامی کی وجہ سے گلیوں اور سڑکوں پر بہتے دریائوں کا جو منظر پیش کیا‘ وہ جمہوری حکمرانوں کی بچی کھچی ساکھ بھی بہا لے گیا ہے۔ ایک اہم نکتہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ یہ مردم شماری فوج کے تعاون سے ممکن ہو سکی ہے‘ جو جمہوری اداروں اور خود غرض حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے‘ کیونکہ ایک فقرہ بہت کثرت سے بولا جاتا ہے کہ جو، جمہوریت والے، گن نہیں سکتے وہ پلاننگ کیا کریں گے اور جو پلاننگ نہیں کریں گے ملک کیسے چلائیں گے؟ 
آخر میں ایک گزارش: مردم شماری کے تواتر کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ملک کا تشخص جن چیزوں سے بنتا اور حکومتی رٹ کا اندازہ لگایا جاتا ہے‘ مردم شماری ان میں سے ایک ہے۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں تواتر سے ہر دہائی کے پہلے سال اس کا انعقاد کیا جاتا ہے‘ جیسا کہ 2021ء میں تمام ممالک میں مردم شماری کا انعقاد کیا جائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے ملک میں بھی اسی کو اپنایا جائے‘ اور سب سے بڑھ کر آبادی کنٹرول کرنے پر بھی ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں