زندگی جنگ نہیں مقابلہ ہے

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت دس اکتوبر کو ذہنی یا دماغی امرض کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہناہے کہ دماغ سے متعلقہ امراض دنیا میں تیز ترین پھیلنے والی بیماریوں میں شامل ہیں۔ آپ کسی بھی بڑے میڈیکل سٹور میں جائیں اورمشاہد ہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دماغی امراض سے متعلقہ ادویات والاRack بہت بڑا ہوگا۔ ذہنی امراض کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کا شکار نوجوان حتیٰ کہ بچے بھی ہورہے ہیںجبکہ ماضی میں ذہنی امراض صرف عمر رسیدہ لوگوں تک محدود تھے۔
میڈیکل سائنس کی ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ انسانی دماغ میں مختلف نمکیا ت ہوتے ہیں جو بتدریج خارج ہوتے رہتے ہیں۔ ذہنی صحت کا بگاڑ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ان نمکیات کے اخراج میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی بڑے حادثے سے گزرنے کے بعد یا کسی ایسی مشکل کے نتیجے میں کوئی ایک منفی خیال دماغ پر حاوی ہوجائے تو بھی انسان کی ذہنی حالت بگڑجاتی ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق دور جدید کا طرز زندگی جس میں مادہ پرستی ،ذاتی مفادات، جلداز جلد امیرہونے، شاہانہ طرز زندگی کی خواہش اور خاندانی رشتوں میں بگاڑ ذہنی امراض کی دیگر وجوہات ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں سیاسی و معاشی بحران آئے دن کرپشن کی بڑی خبریں یا مسلسل سانحات کی خبریں بھی لوگوں کو ذہنی طور پر انتشار کا شکار کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ آپ حیران ہو ں گے کہ میڈیا بھی کسی حد تک ایسے امراض کے پھیلائو کا سبب بنتا ہے جیسا کہ سانحہ کی ایسی ویڈیو چلا دینا جس میں تشدد ، زخمی یا ہلاک ہونے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں جو کہ بالخصوص بچوں میں ذہنی کوفت اور ہیجان پیداکرنے کا باعث بنتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایسی گیمز کھیلی جارہی ہیں جو لوگوں میںخودکشی تک کا باعث بن رہی ہیں ۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں سے چھٹکارا پانے میں سب سے بڑی مشکل ایسی بیماریوں کو نظر انداز کرنا حتیٰ کہ چھپانے کی کوشش کرنا ،زیادہ مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ ان ماہرین کا ماننا ہے کہ کسی بھی قسم کی ذہنی بیماری کا علاج جتنی جلدی کیا جائے اتنی ہی جلدی اس بیماری سے چھٹکار ا پانے میں مد د ملتی ہے ۔لوگوں میں ایسی بیماریوں کو چھپا کر رکھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیگر لوگ ایسے افراد کو پاگل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس لئے زیادہ ضروری بات ذہنی بیماریوںکے بارے میں شعور پیداکرنے کی ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ کے دل میں کوئی انجانہ خوف ہے جس سے آپ بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ آپ کو کوئی وہم ہوجاتا ہے جیسا کہ کئی لوگ بار بار اپنے ہاتھ دھونا شروع کردیتے ہیں۔ ماضی کاکوئی حادثہ بالخصوص کسی قریبی عزیز کی موت کا واقعہ آپ کو اس شدت سے یاد آتا ہے کہ وہ آپ کی نارمل زندگی کو متاثر کرتا ہے یا ماضی کی کوئی ناکامی ایک پچھتاوا بن کر آپ کے ذہن پر سوار ہوجاتی ہے اور آپ کی موجودہ زندگی میں کوئی معمولی یا بڑی مشکل آپ کو مایوسی کا شکار کردیتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے اگر کوئی بھی مرض لاحق 
ہوتا ہے تو سو فیصد یقین رکھیں کہ آج کے دور میں ان سب کا علا ج ممکن ہے۔ ماہرین نفسیا ت آ پ کو ان مشکلا ت سے نمٹنے کے لیے ذہنی مشقیں یا ورزشیں بتاتے ہیں ان لوگوں کو (Psychologist) کہتے ہیں جبکہ طبی ماہرین یا ڈاکٹر جو ان امراض سے بچائو کے لیے ادویات تجویز کرتے ہیں psychiatrist کہلاتے ہیں ۔ ان ادویات کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دماغ سے نمکیات کے اخراج کو دوبارہ متوازن کردیتی ہیں۔
نفسیات دانوں کی پیش کردہ ریسرچ کے مطابق ہم لوگ خود سے اپنے طرز زندگی میں بہتری لاکر بہت ساری ذہنی خلفشار سے بچ سکتے ہیں ۔ ماہرین کی تجویز کردہ ذہنی امراض سے بچائو کی تجاویز کچھ یوں ہیں۔
سب سے پہلے نفسیات دانوں کا کہنا ہے کہ آپ کا جو بھی مذہب ہے، آپ اس کے مطابق عبادت کو باقاعدگی سے کرتے رہیں اور اگر روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں ایک دفعہ اپنی عبادت گاہ میں جاکرکچھ وقت ضرور گزاریں۔
دوسری اہم تجویز روزمرہ زندگی میں کھیل کود اور ورزشوں کو لازمی حصہ بنانا ہے۔ ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ جب آپ دوڑ لگاتے ہیں یا تیز تیز پیدل چلتے ہیں تو آپ کے دماغ کے (Muscles)بہتر طریقے سے کام کرتے ہیں اور آپ کے ذہنی تنائو میں کمی کا باعث بنتے ہیں ۔ اگر یہ چہل قدمی یا ہلکی پھلکی ورزش کسی ایسے گرائونڈ میں کی جائے جہاں پر بہت سارے درخت اُگے ہوئے ہوں تویہ ذہنی آسودگی میں مزید بہتری کا باعث بنتے ہیں۔ صبح سویرے کھلی آب و ہوا میں لمبے لمبے سانس لینا ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
ماہرین نفسیات کی اگلی تجویز کا تعلق بھی روزمرہ زندگی سے ہے اوریہ تجویز بہت دلچسپ اور اہم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ روزانہ بھلے چند منٹ ہی سہی ایسے فرد کے پاس گزاریں جن سے آپ کو کوئی کام یا مطلب نہ ہو۔ یعنی چند منٹ بے غرض ہوکر ضرور وقت گزاریں کیونکہ بے غرض گفتگو آپ کے دماغ کے تنائو میں کمی کرکے سکون کا باعث بنتی ہے۔ آپ یہ کام اپنے گھر میں کسی بزرگ کے پاس بیٹھ کر یا اپنے کسی ملازم کے پاس بیٹھ کر بھی کرسکتے ہیں۔
اگلی تجویز کا تعلق معاشی حالت سے ہے اگر آپ کے پاس بڑ ی گاڑی یا بڑا بنگلہ موجود نہیں ہے تو آپ اس کی خواہش کے کرب میں مبتلا ہونے کے بجائے ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو معاشی اعتبار سے آپ سے کمتر ہیں۔ اسی طرح ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ مالی اعتبار سے بہت امیر ہیں مگر آپ کو کھانے پینے کی بہت ساری اشیاء منع کردی گئی ہیں تو یہ بہت بڑی غربت ہے ۔ اگر آپ کسی مرض مثلاً بلڈ پریشر ، شوگر ، ہاضمہ کی خرابی یا دل کے کسی عارضے میں مبتلا نہیں جس کی وجہ سے آپ پر کھانے پینے کی کوئی بندش نہیں ہے توآپ اپنے آپ کو ایک امیر آدمی تصور کریں کیونکہ آپ صحت کے اعتبار سے بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کے اعتبار سے بہت بڑے آدمی ہیں۔
مثبت سوچ اپناتے ہوئے ہمت بھری جستجو جاری رکھیں اور زندگی کو جنگ تصور کرنے کی بجائے صرف ایک مقابلہ سمجھتے ہوئے زندہ دلی سے جینا سیکھیں ۔ 
ماہرین کا ماننا ہے کہ کسی بھی قسم کی ذہنی بیماری کا علاج جتنی جلدی کیا جائے اتنی ہی جلدی اس بیماری سے چھٹکار ا پانے میں مد د ملتی ہے ۔لوگوں میں ایسی بیماریوں کو چھپا کر رکھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیگر لوگ ایسے افراد کو پاگل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس لئے زیادہ ضروری بات ذہنی بیماریوںکے بارے میں شعور پیداکرنے کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں