کرپشن کی دیوی کی موت

جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف قسم کی ترکیبات اس طرح واضح کی جاتی ہیں ‘ جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر صرف جمہوریت چلتی رہے تو ملک بہرحال ترقی کے زینے چڑھتا ہوا منزل تک پہنچ ہی جائے گا۔ لفظ 'جمہوریت‘ کا پرچار اتنی کثرت سے کیا جاتا ہے کہ گویا یہ کوئی دیوی ہے۔ دیوی کا ذکر آیا ہے تو بھارت کی مثال دیکھتے ہیں‘ جہاں پر جمہوریت روز اول سے قائم و دائم ہے۔ اور وہاں پر جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ کوئی فوجی جرنیل سیاسی بیان بھی نہیں دے سکتا مگر ستر سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھارت کا شمار بمشکل معاشی طور پر ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ بھارت کی مجموعی معاشی صورت حال کی بات کی جائے تو آدھی سے زیادہ بھارتی آبادی کوبیت الخلا (Toilet) کی سہولت میسر نہیں ہے۔ ناصرف غذا کی کمی کے باعث قد چھوٹا رہ جانے والی آبادی کے اعتبار سے بھارت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے (یعنی دنیا کے سب سے زیادہ بونے بھارت میں ہیں) بلکہ نوزائیدہ بچوں میں عمر کے اعتبار سے وزن کم رہ جانے والے افراد کی آبادی کے اعتبار سے بھی بھارت دنیا کے پہلے نمبر پر ہے کیونکہ بھارت میں 43 فیصد بچوں کا وزن اپنی عمر کے اعتبار سے کم رہ جاتا ہے۔ بجلی کی فراہمی کی بات کی جائے تو بھارت میں تیس کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کوبجلی میسر نہیں ہے۔ واضح رہے کہ تیس کروڑ لوگ اُس آبادی کے علاوہ ہیں جنہیںلوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔
حالیہ دنوں میں بھارتی فوج کے معطل شدہ فوجیوں نے ایک مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے برملا کہا کہ بھارتی فوج کے افسران کرپٹ ہیں۔ اور ان کی کرپشن کے سبب کھانے پینے کی اشیا عام فوجیوں تک نہیں پہنچ پاتیں جس کے باعث انہیں ناقص غذا پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پوری دنیا میں فوج کے معطل شدہ فوجیوں کے مظاہرہ کرنے کا یہ انوکھا ترین واقعہ ہے۔ قارئین! اب آپ خود سوچیں کہ 70 سال کے مسلسل جمہوری دور کے باوجود بھارت میں معاشی صورت حال اتنی ابتر کیوں ہے حالانکہ اگرجمہوریت ہی ترقی کا لازمہ ہے تو پھر 70 سال کے جمہوری سفر کے بعد تو بھارت کو دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ملکوں میں شمار ہونا چاہئے تھا۔
اگر تجزیہ کیا جائے کہ جمہوریت کے باوجود بھارت ترقی کیوں نہ کرسکا۔ تو اس سوال کا ایک لفظی جواب ہے‘ کرپشن۔ جی ہاں! بھارت کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اب چلتے ہیں بھارت اور پاکستان کے پڑوسی ملک چین میں‘ جہاں پر ایک جماعتی نظام یعنی کمیونزم کا راج ہے۔ واضح رہے کہ کیمونزم کو جمہوریت نہیں مانا جاتا اور چین بنا جمہوریت کے چل رہا ہے مگر اس کے باوجود چین اس وقت عملی طور پر دنیا کی سپر پاور بن چکا ہے اور دنیا کو یونی پولر (Unipolar) سے دوبارہ بائی پولر (Bipolar) بنا چکا ہے۔ سقوطِ ماسکو سے قبل دنیا میں دو بڑی عالمی طاقتیں تھیں، روس اور امریکہ مگر روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا مگر اب یہ اجارہ داری چین نے توڑ دی ہے۔ چین معاشی طور پر دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکا ہے اور محتاط ترین اندازے کے مطابق آئندہ 5 سالوں میں وہ امریکہ پر سبقت لے جاتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بھی بن جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ چین جمہوریت کے بغیر کس طرح ایک سپر پاور بن گیا۔ تو اس کی صرف دو وجوہات ہیں۔ تعلیم اور کرپشن کا خاتمہ۔ چین میں کرپشن کے ارتکاب پر سزائے موت بھی دی جاتی ہے۔ گویا اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ترقی کے لئے محض جمہوریت کافی نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضروری کرپشن کا خاتمہ ہے۔
اب دیکھتے ہیں موجودہ ملکی صورتحال جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بیان دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو خطرہ جمہوری تقاضے پورے نہ کرنے سے ہے۔ گویا جمہوریت کو خطرہ جمہوریت سے ہی ہے۔ مشرف دور کے اختتام پر ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ تقریباً صفر ہو چکا تھا مگر جمہوریت کے ساڑھے نو سالوں میں ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 85 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ دوسری جموری حکومت اپنا دورِ اقتدار مکمل کرنے والی ہے مگر آپ کوکوئی ایسا بڑا عوامی یا ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آتا جس سے علم ہو سکے کہ 85 ارب ڈالرز کہاں خرچ ہوئے ہیں۔ اگر آپ ذرا زیادہ گہرائی میں جا کر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ اربوں ڈالر جمہوریت کے خراج اور اس کے حسن کی نذر ہو چکے ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں سی پیک کا منصوبہ آ رہا ہے تو یہ نکتہ بھی واضح کرتے چلیں کہ اس پر ساری سرمایہ کاری چین خود کر رہا ہے۔ اگلا نکتہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے ‘وہ یہ کہ اس وقت پاکستان کے سالانہ بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ اس وقت دفاعی اخراجات پر نہیں بلکہ غیر ملکی قرضوں کی قسط کے طور پر خرچ ہو رہاہے۔ غیر ملکی قرضوں کی یہ اقساط پاکستان کے دفاعی اخراجات کے دوگنا سے بھی تجاوز کر چکی ہیں۔ اور لا محالہ طور پر یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت انتہائی نگہداشت وارڈ (I.C.U) میں داخل ہو چکی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن کا وہ ناسور ہے جو پھیلتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے سالانہ 10 ارب ڈالر بیرون ملک منتقل ہوتے ہیں۔ اول تو‘ اب تک کی گئی کرپشن کا پیسہ بازیاب کروایا جانا چاہیے۔ دوم اگر یہ مکمل طور پر ممکن نہیں تو کم از کم مزید کرپشن کو روکا جانا چاہیے۔ اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بلا امتیاز اور بلا تفریق احتساب کیا جائے جس کا آغاز اوپر سے یعنی حکمرانوں سے ہو اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ سب ہوتا نظر آرہا ہے۔ اگر یہ تسلسل کامیابی سے اپنے انجام کو پہنچتا ہے تو یہ ہرگز کوئی سازش نہیں بلکہ یہ جمہوریت کے دوام اور جمہوریت کے ساتھ ساتھ جمہور یعنی عوام کے بچائو کے لئے بھی ضروری ہے۔
ذکر ہوا تھا روس کا جو 1945ء سے 1990ء تک ایک سپر پاور کے طور پر امریکہ کے مقابل کھڑا رہا۔ اگر سپر پاور کے معیار کو بیان کیا جائے تو یہ دو بازو یعنی معاشی اور عسکری مسلز سے وجود میں آتی ہے۔ سپر پاور بننے کے لئے عسکری صلاحیت کے ساتھ معاشی طور پر مضبوط ہونا بھی لازم ہوتا ہے۔ افغان جنگ کے دوران روس عسکری طور پر تو امریکہ کے ہم پلہ رہا مگر معاشی طور پر اتنا کمزور ہوگیا کہ 15 ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ اب اسی قسم کا چیلنج پاکستان کو بھی درپیش ہے کیونکہ عسکری طور پر تو پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے، دنیا کی سب سے بہترین فوج بھی رکھتا ہے مگر اصل خطرہ اس کے معاشی بازو کو ہے۔ پاکستان کے قدرتی و انسانی وسائل جاپان جیسی معاشی طاقت سے بھی زیادہ ہیں۔ یہاں ضرورت صرف تعلیم و تحقیق کو ترجیح بنانے اور کرپشن کی دیوی کو مات دینے کی ہے۔ اب ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہم نے بھارت کی طرح کرپشن زدہ بے کار جمہوریت کو چلانا ہے یا چین کی طرح کرپشن کی دیوی کو سولی پر لٹکا کر ترقی کا اصل سفر طے کرنا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں