VANO کا روسی زبان میں لفظی مطلب ''بیکار‘‘ ہے۔ گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا کہ یہ وہ خفیہ نام ہے‘ جو بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو روس کی سیکرٹ ایجنسی نے دے رکھا تھا۔ بنیادی طور پر بحث اس بات کی ہے کہ جنوبی ایشیا‘ جو انیسویں صدی تک معاشی طور پر دنیا کی ایک بڑی معیشت تھا‘ آزادی کے بعد سے تاحال بہتری تو کجا بلکہ تاحال زیادہ تر شعبوں میں مسلسل بدتری کی جانب لڑھک رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس خطے کے ممالک کی اندرونی اور بیرونی سطح پر آزادی کے بعد بلکہ تقسیمِ ہند کے دوران سے ہی شروع ہونے تنازعات اور اس کے بعد سے جاری مسلسل جنگی کیفیت ہے۔ اس بحث میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی خطے میں امن اور تعلقات کا انحصار اس خطے کی بڑی طاقت یا بڑے ممالک پر ہوتا ہے۔ آبادی، رقبے، معیشت اور فوجی حجم کے اعتبار سے بھارت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے مجموعی حجم سے بھی بڑا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں بھارت کی پاکستان سے متعلق جارحانہ پالیسی کا خیال ابھرتا ہے یا اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس بات کو پاک بھارت کشیدگی کہا جانا چاہیے تو آپ کو علاقائی سیاست اور جغرافیہ سمجھنا ہو گا۔ بھارت کے اس خطے کے دیگر چھوٹے ممالک سمیت تقریباً تمام ممالک کے ساتھ تنازعات اور کشیدگی کو بغور دیکھنے کے بعد آپ قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ خطے کے دیگر ممالک کو دبا کر رکھنا یا جارحانہ انداز اپنانا بھارت کا قومی رویہ ہے۔ بنگلہ دیش (جس کی تخریبی علیحدگی کا اعتراف نریندر مودی نے بار ہا کیا ہے)، مالدیپ، سری لنکا، بھوٹان اور نیپال سمیت تمام علاقائی ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں کشیدگی، سرحدی تنازعات یا کوئی اور مسئلہ ضرور موجود ہے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اس خطے کا بلکہ دنیاکا سب سے بڑا تنازع ''CHINDIA‘‘ ہے۔ یہ دراصل چین اور انڈیا کا مخفف ہے۔ چین اور بھارت کی تقریباً تمام سرحدیں تنازعات سے بھری ہوئی ہیں؛ البتہ اس بارڈر پر بھارت اور چین کے مابین کشمیر سمیت پانچ بڑے تنازعات ہیں‘ اس سلسلے میں حالیہ کئی سالوں سے جنگ کی طرز کی جھڑپیں ہو چکی ہیں‘ جن میں گلوان والی جھڑپ سب سے بڑی تھی جس میں بیس کے قریب بھارتی فوجی مارے گئے جبکہ چین نے بھی اپنے کچھ فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ایک معاہدے کے مطابق‘ دونوں ممالک کی افواج یہاں بغیر ہتھیاروں کے تعینات ہوتی ہیں اور مذکورہ لڑائی بھی ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لڑی گئی تھی، اگر اس جھڑپ میں ہتھیاروں کا استعمال ہوا ہوتا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملہ کسی سنگین نوعیت کا تھا۔ اس تنازع کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ چین 1949ء میں جب ایک کمیونسٹ ملک کے طور پر آزاد ہوا تو بھارت جو خود ایک نوزائیدہ ملک تھا‘ بجائے ا س کے کہ سرحدی تقسیم کو واضح کرتا‘ اس نے اس بڑے ملک کے ساتھ بھی اپنی روایتی کشیدگی کا مظاہرہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں 1962ء میں ایک بڑی جنگ بھی ہوئی اور بھارت نے کئی علاقے گنوا دیے، مختصراً یہ کہ ان علاقوں کا تنازع ابھی تک چلا آ رہا ہے۔
اب بات کرتے ہیں بھارت کی چین کی معیشت پر ہاتھ ڈالنے کی۔ بھارت جو تاحال سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے تاریخ ساز منصوبے کو متنازع بنانے اور تخریبی سازشوں سے خراب کرنے کے درپے ہے‘ دراصل مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں اسی طرح استعمال ہو رہا ہے جس طرح کبھی سرد جنگ میں افغانستان میں امریکا کی پراکسی جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کو استعمال کیا گیا۔ البتہ بھارت کی چین کے خلاف لڑائی بہت زیادہ گمبھیر اور خطرناک ہے کیونکہ روس اور پاکستان کے برعکس چین اور بھارت ایک دوسرے کے پڑوسی ممالک ہیں، دونوں ممالک لگ بھگ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد رکھتے ہیں، اس سے کچھ زیادہ‘ جتنی پاکستان اور بھارت کی ہے۔ اس کے علاوہ چین دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور اور ایک بڑی معاشی پاور ہے۔ اس ضمن میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چین آنے والے چند سالوں میں امریکا سے بھی بڑی طاقت بن جائے گا۔ ماہرین اور عالمی اداروں کے تخمینے اس بات کی نوید دے رہے ہیں کہ اس سے اگلی دہائی میں چین امریکا سے دو گنا بڑی طاقت بن چکا ہو گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت یورپ سے بھی سبق نہیں سیکھ رہا جو امریکا کا دہائیوں پرانا عسکری، معاشی اور ثقافتی ساتھی ہونے کے باوجود بتدریج واضح طور پر امریکی اثر سے نکل کر چین کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے میں مصروف ہے۔ اسی طرح ایران نے بھی معاشی و سیاسی پناہ بلکہ بقا چین کی صورت میں پائی ہے اور چین کے ساتھ پچیس سالہ منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ اس منصوبے کی بدولت پاکستان کو ایک بڑی سہولت اور امن کی ٹھندی ہوا کا جھونکا اس طرح میسر آنے کا امکان پیدا ہوا ہے کہ اب کلبھوشن یادیو جیسے کردار ایران کی سرزمین استعمال نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ میں جاری چالیس سالہ بلاوجہ کی سرد و گرم جنگ میں سرگرم ممالک بھی جلد چین سے تعلقات بڑھانے میں دلچسپی لیں گے اور یوں تعلیم اور ترقی کی جانب گامزن ہوں گے۔
دنیا کی سیاست میں مشرق اور مغرب کی تقسیم نہ صرف بہت واضح رہی ہے بلکہ اب بھی پوری شد ومد کے ساتھ موجود ہے۔ آپ اس تقسیم کو ایشیا اور مغرب کا فرق بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ دنیا کے بڑے تنازعات پر غور کریں تو یہ اول مسلم ممالک اور دوم ایشیا کے ممالک میں نظر آئیں گے۔ یہ بات واضح رہے کہ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا براعظم ایشیا دنیا کے تقریباً 29 فیصد رقبے پر مشتمل ہے اور یہاں دنیا کی 55 فیصد آبادی مقیم ہے۔ اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایشیا آدھی دنیا ہے۔ اس تناظر میں صرف چین، انڈیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک کی آبادی کو اکٹھا دیکھا جائے تو یہ دنیا کی تقریباً 44 فیصد آبادی ہے، یعنی درحقیقت جنوبی ایشیا اور چین ہی آدھی دنیا ہیں۔
چین سے پہلے روس‘ امریکا کے مقابلے کی طاقت تھا‘ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے 1990ء تک تقریباً 45 سال دنیا سرد جنگ دیکھتی رہی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایشیائی اور مغربی ممالک کے طور پر نبردآزما رہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر روس معاشی میدان میں ایشیا کے ممالک کی سرپرستی کرتا یا کم از کم ان ممالک کو جنگوں میں نہ دھکیلتا تو منظرنامہ مختلف ہوتا۔ شاید چین نے روس ہی سے سبق سیکھا ہے کہ وہ جنگوں کے ذریعے دوسرے ممالک کو اپنا ہمنوا نہیںبنا رہا بلکہ اپنی طاقت کا دائرہ کار معاشی طاقت سے بڑھا رہا ہے۔ اب چین افریقہ کی طرف بھی بڑھ رہا ہے، افریقہ بلاشبہ دنیا کا سب سے پسماندہ براعظم ہے اور Dark Continent کہلاتا ہے مگر چین نے افریقہ کو China of China قرار دے رکھا ہے جو یقینا حیران کن بات ہے۔ اس اصطلاح کو سمجھنے کیلئے آپ کو چین کا سیاسی، سماجی اور معاشی فلسفہ سمجھنا ہو گا۔ چین بنیادی طور پر ایک کمیونسٹ ملک ہے، اگرچہ اس نے معاشی طرزِ زندگی اور قوانین میں بہت ساری نرمی کر رکھی ہے مگر چونکہ کمیونسٹ منشور کا بنیادی نکتہ غربت کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے‘ اسی لئے اس کا نعرہ ''روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات سب کیلئے ہونی چاہئیں‘‘ ہے۔
اب بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین کی شکل میں ایک ایسیDriving Force موجود ہے جو اپنے اردگرد کے ممالک کو ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح کھنچ سکتی ہے، بلکہ کھینچ رہی ہے۔ اس سارے عمل میں ایک ہی بڑی رکاوٹ ہے جو بھارت کی شکل میں موجود ہے، اسی لئے بھارت کو خطے کی بیمار دیوی (Sick Goddess) قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ خطے کی خطرناک پسماندگی میں برہمن بھارت کا کردار بے لگام، بھیانک، بیوقوف، بے حس اور بیمار والا ہے، اتفاق کی بات کہ بھارت کا پہلا حرف بھی ''ب‘‘ ہی ہے۔