Educationکا متضاد جدید ڈکشنریوں میں Destructionبھی آتا ہے ۔اگر آپ اس لفظ کوکسی انگلش لغت میں تلاش کریں تو آپ بھی تلخ حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے ۔ پسماندہ ‘بد حال ‘کمزور اور دیگر ممالک کے لیے ترنوالہ بننے بلکہ بنے رہنے والے ممالک میں ایک مرض نما وجہ جدید تعلیم میں پیچھے ہونا بھی ہے ۔ گزشتہ دو سو سال سے دنیا میں مغربی طرز کا سیاسی اورمعاشی ماڈل نمایاں برتری حاصل کئے ہوئے ہے ۔یہ ماڈل کیپٹل ازم طرز کی جمہوریت ہے‘ جبکہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کی جمہوریت میں امورِ ریاست میں ریاست کا کردار انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے‘ یعنی حکومت کسی قسم کی معاشی سرگرمی نہیں کرتی اور نہ ہی مداخلت کرتی ہے ‘مگر دفاع ‘صحت اور تعلیم کے شعبوں کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے۔ دفاع لازم بات ہے کہ ملک کی بقا کا معاملہ ہوتا ہے‘اسی طرح صحت اور تعلیم کو صرف منافع کا ذریعہ بنانے سے روکنے کے لیے حکومتیں ان شعبوں کو کافی حد تک اپنے قابو اور کنٹرول میں رکھتی ہیں۔تعلیم کو اتنی اہمیت اس لئے دی جاتی ہے کیونکہ دفاع کا شعبہ یعنی جدید ہتھیار اور آلات بنانے کے لیے جو تحقیق اور ایجادات درکار ہوتی ہیں وہ بھی شعبہ تعلیم کی بدولت ممکن ہوتا ہے ۔ یہی صورت صحت کے شعبہ کی ہوتی ہے ‘بیماریوں پر قابو پانے ‘لوگوں کی اوسط عمر بڑھانے اور خاص طور پر نئی وبائوں سے لڑنے کے لیے تعلیم اور تحقیق ہی کام آتی ہے ۔المختصر صرف دفاع اور صحت ہی نہیں بلکہ زراعت ‘صنعت ‘مواصلات اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ترقی اوربرتری کے لیے شعبہ تعلیم ہی بنیاد بنتا ہے ۔تعلیم کے شعبہ کو Seed Sectorاسی لئے کہا جاتا ہے‘اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کی جس طرح کوئی فصل اُگانے کے لیے بیج بنیادی ضرورت ہے ‘اسی طرح دیگر شعبوں میں پیداوار کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان شعبوں کا بیج کہلاتی ہیں اور یہ بیج تحقیق سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔چونکہ اس جدید دور میں زندگی کا ہر شعبہ ایک انڈسٹری کا درجہ رکھتا ہے اس لئے تعلیم و تحقیق کوMother Industry کہا جاتا ہے ۔
اب آتے ہیں وطنِ عزیز میں ایک فیصلے کی طرف جس کے تحت Higher Education Commission (HEC)کی خود مختاری ختم کر کے وزارتِ تعلیم کے ماتحت کیا جائے گا ۔یہ شعبہ جو پہلے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کہلاتا تھا ‘ملک کے اندر سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے میں تا حال اپنی استطاعت کے مطابق بخوبی کردار نبھا رہا ہے ۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ یہ ادارہ یہ طے کرتا رہا ہے کی اساتذہ کے تحقیقی مقالہ جات جن مجلوں میں شائع ہوتے ہیں ان کے معیار کو کافی حدتک بین الاقوامی معیار کے مطابق رکھا جائے‘ اسی طرح اساتذہ کی ترقی کے لیے مقررہ معیارات کو بدستور بڑھایا جاتا رہا ‘ اگرچہ بعض اوقات ایسے فیصلے بھی کئے جاتے تھے کہ اساتذہ سڑکوں پراحتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے مگر کبھی بھی اس ادارہ کو ختم کرنے کا مطالبہ تو در کنار ذکر تک نہیں کیا گیا‘ بلکہ سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ واضح رہے اسی ادارے نے بہت سے تعلیمی فراڈ روکنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اسی طرح اس ادارے نے نجی شعبے میں ابھرنے والی بہت سی یونیورسٹیوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی بھی کی اور اسی کی بدولت اس وقت پاکستان میں نجی یونیورسٹیاں سرکاری یونیورسٹیوں سے آگے بڑھ چکی ہیں اور بجا طور پر حکومتوں کی تعلیمی شعبہ میں غافلانہ بلکہ مجرمانہ عدم دلچسپی کی کمی کو پورا کر رہی ہیں۔ مگر اب اس ادارہ کو بھی Roll Backکرنے کا فیصلہ ہوا چاہتا ہے ۔
اب آپ کو ایک بڑا اشارہ نما حوالہ مل گیا ہو گا کہ Roll Backکا مطالبہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو لپیٹنے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور یہ مطالبہ تمام مغربی طاقتیں کیا کرتی تھیں تا کہ پاکستا ن عسکری شعبہ میں خود مختار نہ ہو سکے ۔کتنا عجیب اور بھیانک اتفاق ہے کہ اب وہی کام تعلیم کے شعبہ میں شروع ہو گیا ہے تا کہ ملک کسی طور ترقی کا سوچ بھی نہ سکے کیونکہ اگر منزل کی طرف بڑھنے کے لیے آپ دیگر ممالک سے سست ہوں گے تو منزل بھی دیر سے آئے گی اور اگر اس سفر کو رول بیک کر دیں گے تو قصہ ہی ختم ہو جائے گا ۔تعلیم و تحقیق نہ ہو گی تو جدت نہ ہو گی اور جدت نہ ہو گی توترقی نہ ہو گی اور لا محالہ بقا بھی خطرے میں پڑجائے گی ۔ایک استاد نے کیا خوب جملہ کہا ہے کہ حکومت شاید مدارس کو پوری طرح قومی دھارے میں شامل کرنے میں ناکامی کے غصے کو اس طرح پورا کرنے لگی ہے یا آرڈیننس پاس کرتے وقت ان کے ذہن میں مدارس کی جگہ یونیورسٹیاں آگئی ہوں یا شاید اس کے بعد مدارس اپنے تحت چلانے کے لیے یہ منطق استعمال کی جائے کہ ہم نے تو یونیورسٹیاں بھی نہیں چھوڑیں۔
شعبہ تعلیم پہلے ہی ہچکیاں لے رہا ہے ۔کسی بد تر صورتحال کو بیان کرتے وقت صرف الفاظ کے ساتھ ماضی کے کسی حوالے یا مثال کی ضرورت بھی ہوتی ہے یعنی آپ تحریر میں ضبط اور ربط قائم کرنے کے لیے بتاتے ہیں کہ تاریخ میں اس سے پہلے بھی فلاں جگہ اور وقت اس قسم کا مسئلہ یا سانحہ ہواتھا ‘ مگر پاکستان میں اساتذہ کو سڑکو ں پر اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کرتے ہوئے اور لاٹھی چارج کے ساتھ متروک آنسو گیس کے جان لیواحملے دیکھ کر راقم بے بسی کا وہ درجہ محسوس کرتا ہے کہ معذوری بھی نڈھال نظر آتی ہے ۔پرائمری سکولوں کے ایم فل تک تعلیم یافتہ استادوں کی تنخواہ عدالت کے چوکیداروں کے برابر نہیں‘کالجوں کے اساتذہ کی ترقی کا نظام متروک ہی نہیں مفلوج ہے‘ان اساتذہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک ایسا ڈراؤنا خواب ہے جو اِن کو مسلسل ڈراتا ہے ۔
آج کا دور انفارمشن کا دور ہے اور جب یہ اساتذہ جانتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اساتذہ کی مراعات اور مقام وہاں کے معاشرتی ڈھانچے میں پہلے پانچ شعبوں میں آتی ہیں تو یہاں کے اساتذہ کو اپنا وجود کمزور ڈھانچہ محسوس ہوتا ہے ۔یہ لوگ اپنی ترقی اور ٹرا نسفر کے لیے برطانوی دور اور طرز کی بیوروکریسی کے سامنے دوسری نہیں‘تیسری نہیں بلکہ آخری درجہ کی صرف سانس لیتی مخلوق کی طرح چکر لگاتے اور ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں جو اس معاشرے کی گھٹن ‘شرمندگی اور پسماندگی کی عکاسی کرتا ہے ۔
Higher Education Commissionمیں چونکہ لفظ کمیشن آتا ہے اور سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پاس بھلے وقتوں کی دی ہوئی زمین موجود ہے اس لئے اب کرپٹ مافیا کا نظر اس طرف بھی پڑ گئی ہے اور وہ Higher Education Commissionکو وزارت تعلیم یعنی متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کے تابع لا کر مراعات سے محروم یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو کسی بھی مقام سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔آپ کو شاید حیرانی ہوگی کہ پہلے ہی یونیورسٹیوں کے سلیکشن بورڈزمیں اعلیٰ عہدوں سے ریٹائرڈ بیوروکریٹس نمایاں حصہ ہوتے ہیں‘ اپنی تعلیم چاہے ماسٹر ڈگری ہو (واضح رہے مقابلے کے امتحان کو پاس کرنے کا بنیادی معیار تا حال صرف بی اے ہے) ایم فل ہی نہیں بلکہ پی ایچ ڈی اساتذہ سے انٹرویوز کررہ ہوتے ہیں۔ بیوروکریسی کی اشرافیہ کو مزید اشرفیوں سے نوازنے کے لیے Higher Education Commissionیعنی اعلیٰ تعلیم کو Roll Backکرنے اورپہلے سے ہی کمزور تعلیمی ڈھانچے کو مزید کمزور کرنے کی ابتدا ہو چکی ہے ۔