حسیں سفارت کاری

اگر ایک اداکار سے پوچھا جائے کہ اس پیشے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے تو یقینا اس کا جواب ہونا چاہئے کہ ایک عام انسان کے برعکس وہ کسی بھی ڈرامے یا فلم میں کام کرتے ہوئے کسی بھی شعبہ زندگی کا روپ دھار سکتا ہے‘ یعنی لکھی ہوئی کہانی کے مطابق وہ ڈاکٹر ‘وکیل‘پولیس افسر ‘کاروباری شخص بن سکتا ہے یا کوئی بھی کردار ادا کرسکتا ہے ۔ ا داکاری کے علاوہ جاسوسی بھی ایسا پیشہ ہے جس میں روز مرہ زندگی کا کوئی بھی روپ دھار اجا سکتا ہے بلکہ دھارا جاتا ہے ۔آپ نے اکثرفلموں میں دیکھا ہوگا کہ جاسوس مختلف طرح کے روپ ا پنا کراپنے دیے گئے مقاصد حاصل کرتے ہیں ۔ مگر آج آپ کی توجہ ایک اور اہم ترین قومی سطح کے ایک شعبہ کی طرف کھنچی چلی آئے گی جو وقت کے ساتھ اپنی شکلیں اور درجے بدل رہا ہے‘ یہ شعبہ سفارت کاری کا ہے۔ اس میں بلا شبہ کوئی بھی سفیر تو روپ نہیں بدلتا مگر سفارت کاری کے ذرائع نئی اشکال میں سامنے آ رہے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی اور اہم شکل اس وقت سامنے آئی جب حسینائوں کے عالمی مقابلے میں دو حسینائوں نے تقریبا ًناچنے کے انداز میں بھرپور قسم کی سفارت کاری کر ڈالی اور عالمی توجہ حاصل کی ۔ان میں سے پہلی حسینہ میانمار(Myanmar) المعروف برما سے تھی جو حسن کا مقابلہ تو نہ جیت سکی مگر اپنے عوام کے دل ضرور جیت لئے ۔اس نے Miss Universeکے مقابلے کے دوران چکر لگاتے ہوئے‘بادشاہوں کے دور میں ایک چھوٹے سائز کے کپڑے یا کاغذ (جسے فولڈ بھی کیا جا سکتا ہے) پر لکھے ہوئے پیغام کی طرح کا ایک پیغام حاضرین اور ٹی وی ناظرین کی طرف دکھایا۔اس کاغذ پر لکھا تھا:Pray for Myanmar ۔اس پیغام کے ذریعے حسینہ نے میانمار میں فوجی آمریت کے ہاتھوں لوگوں پر تشدد اور ہلاکتوں کی طرف توجہ دلائی ۔اس حسینہ نے اپنے تفصیلی انٹرویو (Bio-graphical Interview)میں اس معاملے کو مزید اجاگر کیا اور بلا شبہ عالمی سطح پر لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔
دوسری حسینہ کا تعلق سنگاپور سے ہے ‘مگر اس نے جس مسئلے کی طرف توجہ دلائی وہ عالمی سطح کا ہے ۔ اس حسینہ نے جو لباس پہن رکھا تھا اس میں اپنی کمر کی طرف ایک نعرہ نمامطالبہ درج کر رکھا تھا جس کے الفاظ تھے : STOP ASIAN HATE۔ اب آپ قدرے سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ کیا پیغام ہے ۔ اس کا پس منظر بہت اہم اور گہرا ہے ۔بات کچھ یوں ہے کہ کووڈ 19کے وائرس کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ میں ایک اور مشکل جو سامنے آئی وہ سیاہ فام امریکیوں کی ہلاکت کے نتیجے میں ہونے والے مظاہرے تھے ‘مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی‘ سفید یا گورے امریکیوں کے ہاتھوں ایشیائی باشندوں بالخصوص چینی نسل پر بھی پر تشدد واقعات مسلسل ہو رہے ہیں جن کے نتیجے میں متعدد لوگ مارے بھی جا چکے ہیں۔ریاست جارجیا میں ہونے والے فائرنگ کے ایک واقعے میںآٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں سے چھ چینی عورتیں تھیں۔یہ واقعہ جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں 26 مارچ کو پیش آیا ۔ اس جاں لیوا حملے سے پہلے بھی امریکہ میں ایشیائی باشندوں پر حملوں کے کئی واقعات ہو ئے یہاں تک کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خطاب میں ان واقعات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی مذمت کرنا پڑی۔ نسلی فسادات میں راہ چلتے منگول نسل کے لوگوں پر فقرے کسنا ‘گالیاں دینا اور دھمکانے کے واقعات کے علاوہ ان پر حملہ آور ہو کر تشددکرنا بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں متاثرہ لوگوں کی تنظیم Asian American Pacific Islander (AAPI)کا ٹی وی انٹرویوز میں دعویٰ ہے کہ اس طرح کے واقعات کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے۔اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ AAPIتنظیم سے جڑے یہ ایشیائی نژاد لوگ اپنے تحفظ کی جدوجہدمیں کوشاں ہیں۔ اس نسل کے لوگوں کا ایک بہت اہم اعتراض یہ ہے کہ چونکہ ان کی عورتوں کو بر ملا طوائفوں کے نام سے پکارا جا رہاہے اور تشدد کے واقعات میں بوڑھے لوگوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ۔امریکہ میں ایشیائی نژاد لوگوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ وہ افواہیں ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ میں کورونا وائرس ایشیائی نژاد لوگوں کی وجہ سے پھیلامگر اس پر تشدد لہر کے بعد ایشیائی لوگ ان پرتشدد واقعات کو اپنے لئے ایک علیحدہ اور زیادہ خطرناک وائرس قرار دے رہے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے مظاہروں میں پوسٹر اٹھا کر اور نعرے بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں:Stop Anti Asia Hate Crimes یعنی ایشیا مخالف نفرت کے جرائم روکے جائیں اور ان لوگوں کو بھی دیگر امریکیوں کی طرح رہنے دیا جائے۔ان واقعات کے پیچھے سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ نسلی جملے بھی کارفرما نظر آتے ہیں جن میں کورونا وائرس کو Chinese virusاور Kung Fuوائرس کا نام دیا گیا تھا ۔واضح رہے کہKung Fuمارشل آرٹس کی وہ شکل یا قسم ہے جو چین میں کھیلی جاتی ہے۔ اس طرح دوسرے نام میں بھی اشارہ براہ راست چین ہی کی طرف تھا۔
کسی بھی ملک میں ذہنی یا سماجی طور پر کتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس کو ماپنے کے پیمانے کو Homogeneity indexکہا جاتا ہے‘ اس میں نسل ‘مذہب‘زبان اور علاقائی وابستگی کو معیار بنا کر کسی بھی ملک میں یکسانیت کی مضبوطی کو ماپا جاتا ہے۔امریکہ دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا کے ہر علاقے ‘مذہب اور زبان بولنے والے افراد پائے جاتے ہیں ‘اسی لئے امریکہ کو Nation of the Nationsیعنی اقوام کی قوم کہا جاتا ہے ۔اس ملک میں پہلی دفعہ دو براعظموں ‘ایشیااور افریقہ کے لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ یہ بات امریکہ کے لیے اس لئے بھی باعثِ تشویش ہے کہ اس کی چین کے ساتھ سرد جنگ پہلے سے جاری ہے اور اب چین کے لوگ ہی ایشیا مخالف فسادات میں سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔واضح رہے کہ امریکہ میں رہنے والے چینی لوگوں کی تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ تعدا د Asian Americansکی کل تعداد کا 25 فیصد سے زائد ہے ۔امریکہ کی کل آبادی میں ایشیائی لوگ کل تعداد کا چھ فیصد ہیں۔یہاں پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ امریکہ میں رہنے والے چین کے لوگوں کی تعداد انڈینز کے مقابلے میں تقریباًدگنی ہے۔ مس سنگاپور نے ایک اور اہم پیغام بھی دیا ‘ وہ بھی بہت اہم ہے ۔اس نے مقابلہ حسن میں جو لباس پہنا اس کے لیے اس نے سرخ رنگ کو نمایاں رکھا ۔ اس نے گھٹنوں تک جو پاجامہ نما لباس پہنا وہ مکمل طور پر سرخ تھا جبکہ اوپر والے حصے میں جو Swimming Costume پہنا وہ سرخ اور سفید تھا۔ اگرچہ یہ دونوں رنگ سنگاپور کے جھنڈے میں بھی پائے جاتے ہیں مگر ایک اور اشار ہ بھی سمجھ جانا چاہیے کہ سرخ رنگ کمیونزم کا علمبردار ہوتا ہے جبکہ چین بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے اور چین امریکہ اختلافات کی بڑی وجہ بھی چین میں کمیونزم نظام کا ہونا ہے۔ یہ نظام ہی امریکہ کے روس سے اختلافات کی بنیادی وجہ بھی تھا‘ اسی لئے چین امریکہ کشمکش کو Revival of cold Warبجا طور پرکہا جاتا ہے۔
شروع میں ذکر جاسوسی کے پیشے کا بھی ہوااور جاسوسی میں پیغامات اور معلومات کوڈ یعنی خفیہ الفاظ میں دوسری جگہ پہنچائے جاتے ہی۔اب دیکھنے یا کھوج لگانے کی بات یہ ہے کی مس سنگاپور نے سرخ لباس پہن کر صرف ایشیا کے باشندوں کے حقوق اور تحفظ کی بات کی ہے اس نے سرخ رنگ کی بدولت چین کے لوگوں کی طرف رخ موڑتے ہوئے امریکہ کو بین السطور بڑا زور دار پیغام دے کر اسے سرد جنگ کی طرف موڑ نے کی کامیاب کوشش کی ‘مگر ایک بات طے ہے کہ اس حسینہ نے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئی اور انوکھی طرز کی سفارت کاری متعارف کروا دی ہے جسے بجاطور پر نڈر اور ناچتی ہوئی سفارت کاری کہا جا سکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں