پاکستان میں ابھی تک کچھ لوگ‘ جن میں واضح اکثریت ہماری افسر شاہی کی ہے‘ یہ کہتے بلکہ گن گاتے نظر آتے ہیں کہ برطانوی سامراج ہمارے خطے کو بہت زیادہ ترقی دے کر گیا تھا بلکہ جتنی بھی ترقی یہاں نظر آتی ہے‘ وہ ساری برطانوی راج کی وجہ سے ہی ہے۔ ورنہ شاید یہ خطہ قدیم اور پسماندہ ترین ہی رہتا۔ گورے کی اس علاقے میں آمد‘ یہاں کے وسائل کو لوٹنے‘ اور ان کے بل بوتے پر اپنے آپ کو دنیا کی ایک بڑی طاقت بنانے میں اس کے کردار کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر تھوڑا غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ Colonization کا عمل دنیا کی تاریخ کا ایک انتہائی سفاک، سیاہ اور قابلِ سزا فعل ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جنوبی ایشیا بالعموم اور پاکستان کے معاملے میں بالخصوص یہ ظلم اور در اندازی ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ برطانوی راج کے گن کانے والے لوگ وہی ہیں جو چین سے متعلق یہ شور کرتے ہیں کہ پاکستان اب چین کی کالونی بن گیا ہے۔ یہاں پر یہ واضح رہے جو بھی ہو جائے‘ کم از کم چین اس خطے کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرے گا جو برطانیہ نے کیا اور ابھی تک کر رہا ہے، بلکہ چین کی شکل میں تو اس پورے خطے کے لیے ایک نجات دہندہ سامنے آیا ہے۔ یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے بہت زیادہ مواقع پر اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اپنی کئی تحاریر میں بھی لکھ چکا ہوں کہ تقسیم ہند کے وقت دانستہ طور پر جنوبی ایشیا کی تقسیم کو مبہم اور متنازع بنایا گیا تھا۔ یہ علاقہ‘ جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت رہا ہے‘ اس پر مغربی طاقتیں Colonialism کی دوڑ میں گدھ بن کر ٹوٹ پڑیں‘ فرانسیسی، پرتگالی، ڈچ، ڈینش‘ کس کس نے برصغیر کو زیر تسلط کرنے کی کوشش نہیں کی؟ البتہ برطانیہ اس میں کامیاب رہا۔ دوسری عالمی جنگ میں جب برطانیہ بری طرح متا ثر ہوا اور عالمی طاقتوں کی درجہ بندی میں اپنا مقام کھو بیٹھا تو ہی اس خطے سے نکلنے پر آمادہ ہوا۔ امریکی گرو پ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا شمار جنگ جیتنے والوں میں ہی ہوتا ہے لیکن دوسری طرف عالمی سطح پر De-Colonization کے تحت ملکوں کی آزادی کی لہر کی وجہ سے اس کے عالمی عروج کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ جنوبی ایشیا برطانیہ سے ٹوٹی پھوٹی آزادی لینے میں کامیاب ہو گیا مگر جاتے جاتے اس علاقے‘ خاص طور پر پاکستان کو امریکا کی دسترس میں دے گیا۔ تاجِ برطانیہ اپنی بہت ساری بھیانک نشانیاں یہاں چھوڑ کر گیا۔ اس سلسلے میں ایک بھیانک ورثہ افسر شاہی کا نظام ہے جو تاحال اسی آب وتاب بلکہ کہیں زیادہ سخت گیر طریقے سے مسلط ہے۔ گورے کے دور میں افسر شاہی کم از کم اپنی حکومت سے وفادار ہوتی تھی۔ اس وقت کے آفیسرز کرپشن میں اس طرح سے لت پت نہیں ہوتے تھے۔ واضح رہے گورے نے کمشنر ی اور پولیس کے محکمے کو لامحدود اختیارات اس لئے دیے تھے کہ یہ لوگ گورے کے قبضے کو تقویت بخشتے تھے اور کسی قسم کی کوئی بغاوت پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ مذکورہ دونوں محکموں پر ہی سب سے زیادہ یہ الزام لگتا ہے کہ یہ اندھا دھند اختیارات استعمال (Use)ہی نہیں کرتے بلکہ Misuse، حتیٰ کہ Abuseبھی کرتے ہیں۔ ان دو محکموں کے علاوہ دیگر شعبہ جات جیسے انکم ٹیکس، کسٹمز وغیرہ بھی اسی پرانی ڈگر پر بھاگے چلے جا رہے ہیں۔
گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا۔ آج کے موضوع میں اس عالمی مرکزِ طاقت کا ذکر کچھ اس طرح سے آتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل امریکا نے بھی برطانیہ کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس خطے کو چھوڑ دے۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم کے مابین جو معاہدہ ہوا اس کو The Atlantic Charter کہتے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس پر دستخط 14 اگست 1941ء کو ہوئے تھے۔ دراصل امریکا کی نظریں سرد جنگ پر لگی ہوئی تھیں اور اس خطے کی سٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ تھی۔ یہ اہمیت بعد میں روس کے افغانستان پر حملے کے بعد ثابت بھی ہو گئی۔ اسی ضمن میں انتہائی اہم انکشاف‘ جو اب ویسے انکشاف نہیں رہا‘ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں وہ یہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں صرف روس کی خفیہ ایجنسی ہی کارفرما نہیں تھی بلکہ امریکی قیادت اور ایجنسیوں کی مرضی اور مدد بھی اس میں شامل تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی مغربی پاکستان پر حملہ کرنا چاہتی تھیں مگر اس وقت کے امریکی صدر نے ٹیلی فون کر کے تاریخی الفاظ میں اندرا گاندھی کو منع کیا تھا۔ امریکی صدر نکسن نے اندرا گاندھی کو کہا تھا:old witch enough is enough۔ چونکہ اندرا گاندھی کی عمر زیادہ تھی اس لئے old کا لفظ استعمال کیا جبکہ Witch ڈائن‘ چڑیل یا جادو ٹونہ کرنے والی عورت کو کہا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں صدر نکسن نے کہا تھا کہ بوڑھی ڈائن! بس بہت ہو گیا۔
اب ایک اور زاویے سے بھی عالمی مقتدرہ کی در اندازیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ایک انتہائی منفی شخصیت‘ جو ایک ختم ہوتی ہوئی جماعت کی سربراہ ہے‘ کو برطانیہ میں محفوظ پناہ ملی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ شخصیت اپنی ہی جماعت کے ایک اہم فرد کے قتل میں واضح طور پر ملوث نظر آتی ہے۔ یہ قتل ہوا بھی برطانوی سرزمین پر تھا لیکن برطانیہ نے اپنا عدالتی نظام یا انصاف کا عمل دائو پر لگا لیا مگر اس شخص کو سزا نہیں دی۔ اس شخصیت نے جب پاکستان میں نفرت انگیز تقریر کی تو لاتعداد افراد نے برطانیہ اور پاکستان سے بھی فون کر کے رپورٹ درج کرائی تھی، برطانیہ کے قانون میں اس جرم پر سخت سزا ہے اور اگر کوئی غیر ملکی اس میں ملوث پایا جائے تو اسے ملک بدر بھی کر دیا جاتا ہے مگر مذکورہ شخصیت کے معاملے میں قانون یہاں بھی خاموش رہا۔ پاکستان میں اگر کوئی شخص کوئی ایسی حرکت کرے جس میں وہ براہِ راست ریاست کو نشانہ بنائے یا کسی اور طرح کی لسانی، مذہبی یا کسی منفی سرگرمی میں ملوث پایا جائے تو بدقسمتی سے اس کے لئے کئی مغربی ممالک کی شہریت اور پناہ کی سہولت ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اس حوالے سے بلی اب تھیلے سے باہر آ چکی ہے۔ پاکستان میں دو متضاد شکلوں یعنی Love and Hate کی انتہائوں پر موجود نوعمر لیڈر ملالہ یوسفزئی نے حال ہی میں ایک عالمی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بندھن میں بندھے بغیر بھی پارٹنرشپ پر زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح رہے کہ محترمہ کئی بار اس خواہش کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ مستقبل میں پاکستان کی وزیراعظم بننا چاہتی ہیں۔ اسی حوالے سے ایک بات دہراتا چلوں کہ پاکستان کے سب سے اہم اور بڑے امتحان یعنی سی ایس ایس میں ایک مضمون جینڈر سٹڈیز کے نام سے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پڑھایا جاتا ہے۔ اس مضمون میں پاکستان کے حوالے سے جن تین خواتین کا ذکر کیس سٹڈی کے طور پر شامل ہے‘ مس ملالہ یوسفزئی ان میں سے ایک ہیں۔ دینِ اسلام عورتوں کے حقوق کے حوالے سے دنیا کے سب سے پرانے اور بھرپور منشور کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس مضمون میں Islamic Feminism کے حوالے سے ایک لفظ بھی شامل نہیں ہے۔ اسی طرح کی ایک اور بددیانتی یہ ہے کہ اس مضموں میں ہم جنس پرستی‘ مرد و خواتین‘ دونوں کا واضح ذکر موجود ہے۔ یہ پاکستان جیسے ملک میں عالمی استعماریت کے پنجوں کے آج بھی موجود ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ برطانیہ کا عنایت کردہ بیورو کریسی کا نظام، اس بیورو کریسی کا حصہ بننے کے لیے دیا جانے والا سی ایس ایس کا امتحان، اس امتحان کے لیے جینڈر سٹڈی کا مضمون‘ اور اس میں شامل ذکر ایک نوعمر خاتون کا جو اس وقت برطانیہ میں مقیم ہے اور برطانوی کلچر کی غمازی کر رہی ہے، یہ سب دیکھ کر کوئی بھی شخص برملا یہ کہہ سکتا ہے کہ گورا ابھی یہاں سے گیا نہیں۔