افغانستان جنگی مرکز نہیں میوزیم

ذکر ہو رہا ہے بلند وبالا پہاڑوں اور جواں حوصلوں کے مالک لوگوں کے ملک افغانستان کا جہاں بیسویں صدی کی تاریخ کا پہلا اہم باب لکھ دیا گیاہے۔تاریخ جب بھی لکھی جاتی ہے تو صرف اہم ترین واقعات کو رقم کرتی ہے خاص طور پر اگر اس کا دائرہ سو سال پر محیط ہو‘لیکن اگر حالیہ امریکی شکست کے مکمل ہونے کو لیا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ یہ باب گزشتہ صدیوں کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے ۔امریکہ پہلی اور دوسری دونوں عالمی جنگوں کا مکمل فاتح رہا جبکہ جرمنی ‘جاپان اورسلطنت عثمانیہ مکمل شکست سے دوچار ہوئے اور فرانس ‘برطانیہ اور روس بڑے نقصان سے دو چار ہوئے‘اگرچہ فاتح رہے جبکہ امریکہ نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کی واحد طاقت کے طور نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر اپنے ایجنڈے کا اعلان اور آغاز کیا۔اس کے تحت جمہوریت‘سیکولرازم اور بالخصوص حقوقِ نسواں کا جھنڈا اٹھایا لیکن مسلم دنیا پر اس نے ڈنڈا اٹھا لیا جس کے لیے احمق ڈکٹیٹروں کو استعمال کرتا رہا۔ایک سے کویت پر حملہ کروا یا پھر خود پوری دنیا سے پیسے اور مدد لے کر عراق پر حملہ کردیا ۔دراصل امریکہ نے تہذیبوں کے تصادم کا خود ساختہ منشور نما نعرہ لگا کر مسلم دنیا اور چین سے خطرے کا واویلا کیا اوراسی نظریے کے تحت مسلم دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو یکے بعد دیگرے مشکلات سے دوچار کرنا شروع کر دیا۔خود امریکہ کے شانہ بشانہ لڑنے والوں کو راتوں رات دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔پاکستان پر سختیاں اور اس ملک کے اندر دہشت گرد کارروئیاں شروع کر دی گئیں۔ امریکہ میں 9/11 کے واقعات کے بعد امریکہ خود افغانستان آکر بیٹھ گیا جبکہ اس نے لیبیا ‘شام نائیجیریا‘ صومالیہ‘مصر اوریمن میں بھی مداخلت کی اور ایران پر دبائو بڑھایا جبکہ ترکی میں مارشل لاء کی کوشش کی ۔ دیگر کئی ممالک کو اندرونی خلفشار‘خانہ جنگی ‘فرقہ واریت جیسے حالات اور جنگی کیفیات سے دوچار کر دیا گیا ۔یہ سب ایک غیر اعلانیہ جنگ کے تحت ہوا۔اس دوران پاکستان میں ماڈرنائیزیشن کے لیے ایسے ڈرامے بنوائے گئے جن کا مواد مقامی عقائد اور کلچر کے برعکس تھا۔ آپ کو سمجھنے میں عجیب محسوس ہو گا کہ ضیا الحق کے دور میں مسلط کی گئی سخت پالیسی کو پرویز مشرف کے دور میں بالکل الٹ سمت میں گھمانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب ضیا دور کے عین الٹ تھا مگر امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر یہی تھا ‘ لیکن اب دنیا مختلف ہے بلکہ گزشتہ ایک دہائی سے امریکہ کی حاکمیت ختم ہوچکی ہے ‘اب دنیا دوبارہ دو طاقتوں کے تحت چل رہی ہے۔مسلم دنیا کو تو امریکہ نے خلفشار میں مبتلا کردیا تھا مگر جیسے ہی چین کی طرف منہ کیا تو مسلسل منہ کی کھا رہا ہے ۔
واپس آتے ہیں افغانستان کی طرف تو اب بھی بہت سے خدشا ت موجود ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ صورت حال ماضی مں روس کے انخلا کے بعد کی صورت جتنی بھیانک نہیں ہے۔افغانستان کا علاقہ پاکستان‘ ایران‘ تاجکستان‘ ازبکستان اورترکمانستان کے درمیان واقع ہے ۔چین ‘پاکستان اور ایران اس ملک میں امن کے خواہاں ہیں‘واضح رہے کہ افغانستان میں پاکستان کے ہم خیال گروپس کے علاوہ ایران کے مذہبی اور سیاسی ہم خیال گروپ بھی موجود ہیں اور چونکہ ایران کو اس وقت چین کی شکل میں ایک دوست اور معاشی پارٹنر میسر آیا ہے اور دونوں ممالک میں سٹریٹجک تعاون کے ایک 25 سالہ معاہدے پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ یہ طویل المدتی معاہدہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلات کے شکار ایران کو درپیش کئی متنوع اقتصادی امور کا احاطہ کرتا ہے اس لئے علاقائی سیاست میں ایران بھی چینی پالیسی کی پیروی کر رہا ہے۔ وہ افغانستان میں بہتر حالات کا خواہاں ہے اور اس کے لیے کوشاں بھی نظر آتا ہے۔ابھی گزشتہ ہفتے طالبان اور افغان حکومت کے ایک وفد نے تہران کا دورہ کیا تھا جہاں فریقین کے دو روزہ مذاکرات کے دوران اختلافات دور کرنے سمیت چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوا۔ اسی طرح افغانستان کے پڑوسی وسطی ایشیا کے تین ممالک کے چین کی طرف جھکائو کی وجہ سے امید کی جاسکتی ہے کے وسطی ایشیائی ممالک ماضی کے طالبان مخالف شمالی اتحاد جیسے عسکری گروہ کو زمین اور مدد دینے کی بجائے اس بارافغانستان کی بہتری کے خواہاں ہوں گے۔اگرچہ امریکہ ان ممالک میں اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے مگر پھر بھی یہ ممالک پاکستان‘ چین ‘روس اور ایران کے ساتھ مل کچھ بہتر کرتے نظر آتے ہیں ۔حال ہی میں افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے ازبکستان‘ تاجکستان‘ پاکستان‘ایران اور ترکی پر مشتمل ایک نیا بلاک بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔
افغان طالبان کے میڈیا انچارج کے مختلف انٹرویوز بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ نہ صرف اردو بہت اچھی بولتے ہیں بلکہ متعدد انٹرویوزانگلش میں بھی دے چکے ہیں ۔انہوں نے کافی حد تک واضح کیا ہے کہ ماضی کے انتہائی سخت گیر اور ناقابل قبول اقدامات کے برعکس اس دفعہ افغان طالبان خواتین کے تعلیمی سلسلے اور دیگر شعبہ جات میں رکاوٹیں یا پابندیاں نہیں پیدا کی جائیں گی ۔انہوں نے واضح کیا کہ پردے کی پابندی ضرور ہو گی مگر ماضی کی طرح کی مکمل بندش نہیں ہو گی ۔اسی طرح انہوں نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی گروہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے‘ان کا اشارہ افغانستان کی زمین سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروپس کی طرف تھا ۔ ان کی باتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ نہ صرف روس بلکہ چین کے ساتھ بھی رابطوں میں ہیں اور ان ممالک کے دورے بھی کر چکے ہیں۔اس ضمن میں روس اور چین کاباہم ایک طرح سے اتحادی ہونا اور دونوں کی امریکہ سے مخاصمت ان کو قریب کئے ہوئے ہے۔ اسی طرح روس ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بھی ہے اس لئے لامحالہ نظر آتا ہے کہ چین کے ساتھ روس بھی اس ملک میں بہتری کے لیے کوشاں ہو گا ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین اب عالمی طاقت ہے اور اس کے پڑوسی ممالک کی تعداد چودہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ان ممالک میں انڈیاکے ساتھ تقریباً3500 کلومیٹر کا علاقہ مکمل طور پر کشیدہ ہے ‘تائیوان تا حال علیحدہ ملک کے طور موجود ہے‘ہانگ کانگ کے حالات بھی چین کے مکمل کنٹرول میں نہیں ہیں‘اس تناظر میں چین اپنے پڑوسی ممالک میں مزید کشیدگیوں کا روادار نہیں ہو سکتا ۔مزید یہ کہ چین اپنے لئے نیٹو کی طرزپر ایک اپنا گروپ بھی بناناچاہتا ہے اس کے لیے چین کے مشرق میں زیادہ علاقہ یا ممالک نہیں ہیں اور چین کو اس سلسلے میں اپنے مغرب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جہاں پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا اور افغانستان کے علاقے ناگزیر ہیں اور یہ سب اس علاقے میں امن کے بغیر نہیں ہوسکتا۔آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت چین اور امریکہ کی سرد جنگ کا مرکز وسطی ایشیا کی ریاستیں ہیں۔اب یہاں ''روس امریکہ سرد جنگ‘‘ اور اس کے بعد ''امریکہ واحد سپر پاور‘‘ میں بہت بڑا فرق ہے ‘ اگر اس کا موازنہ چین کی خارجہ پالیسی سے کیا جائے تو فرق بہت سادہ اور واضح ہے اور وہ یہ کچھ اس طرح سے ہے کہ سوویت یونین اپنے وقت میں جارحانہ اور غیر لچکدار پالیسی رکھتا تھا جو اس کے زوال کا باعث بنا ۔اسی طرح امریکہ نے عالمی طاقت کے طور پرمکمل جارحانہ اور مسلمانوں کے لیے ظالمانہ عسکری پالیسی اپنائے رکھی مگر چین اس کے مکمل مختلف طور معاشی پالیسی اپنائے ہوئے ہے ۔نفسیات کے اصول بتاتے ہیں کہ جہاں معیشت شامل ہو جائے تو زبان‘علاقہ‘نسل تو کیا عقائد بھی سائڈپر ہو جاتے ہیں تو چین بغیر کسی مماثلت یا وابستگی کے صرف معاشی تعلقات قائم کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی غیر اعلانیہ سیاسی اور عسکری مدد یا تعاون بھی فرہم کر رہا ہے ۔اسی طرح روس کے برعکس کسی بھی ملک کو اپنا نظام بدلنے کی بات بھی نہیں کرتا ‘اگر سوویت یونین سے موازنہ کیا جائے تو سوویت یونین کمیونزم کو پھیلانے کی دھن میں حکومتیں گراتا اور بناتاتھا ‘عسکری مداخلت کرنے کے علاوہ بھی ہر طرح کے جارحانہ قدم اٹھاتا تھا ‘مگر چین ان اقدامات سے کوسوں دور ہے اور یہی پالیسی چین کی افغانستان کے لیے ہے ‘یعنی ''بحالی‘تجارت اور ترقی‘‘ ۔اس لئے امید ہے کہ مستقبل میں افغانستان جنگوں کا صرف میوزیم رہ جائے گا نہ کہ مرکز۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں